Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 115
وَ لِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ۗ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
وَلِلّٰہِ : اور اللہ کے لیے الْمَشْرِقُ : مشرق وَالْمَغْرِبُ : اور مغرب فَاَيْنَمَا : سو جس طرف تُوَلُّوْا : تم منہ کرو فَثَمَّ : تو اس طرف وَجْهُ اللہِ : اللہ کا سامنا اِنَّ اللہ : بیشک اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِیْمٌ : جاننے والا
اور مشرق اور مغرب سب خدا ہی کا ہے تو جدھر تم رخ کرو ادھر خدا کی ذات ہے بیشک خدا صاحب وسعت اور باخبر ہے
قول باری ہے : وللہ المشرق والمغرب فایتماتو لوا فثم وجہ اللہ (مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں۔ جس طرف بھی تم رخ کرو گے اسی طرف اللہ کا رخ ہے) ابو اشعث السمان نے عاصم بن عبید اللہ سے، انہوں نے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت بیان کی ہے کہ ہم ایک تاریک رات میں حضور ﷺ کے ساتھ تھے، ہمیں پتہ نہیں چلا کہ قبلہ کس طرف ہے۔ چناچہ ہر شخص نے اپنے اپنے رخ پر نماز ادا کی ۔ جب صبح ہوئی تو ہم نے حضور ﷺ سے اس بات کا ذکر کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : فاینما تولوا فثم وجہ اللہ۔ ایوب بن عتبہ نے قیس بن طلق سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت بیان کی ہے کہ کچھ لوگ سفر پر نکلے، انہوں نے جب نماز ادا کی تو انہیں قبلہ کا پتہ نہیں چلا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو پتہ لگا کہ انہوں نے قبلہ کے سوا کسی اور رخ پر نماز ادا کرلی ہے۔ پھر انہوں نے حضور ﷺ سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’ دتمہاری نماز پوری ہوگئی۔ “ ابن لہیعہ نے بکر بن سوادہ سے ایک شخص کے بارے میں روایت بیان کی جس نے حضرت عمر ؓ سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا جو سفر کے دوران غلطی سے قبلہ رخ ہوئے بغیر نماز پڑھ لیتا ہے ۔ حضرت ابن عمر نے جواب میں مذکورہ آیت کی تلاوت فرما دی۔ ابو علی الحسین بن علی الحافظ نے رویات بیان کی، انہیں محمد بن سلیمان الواسطی نے ، انہیں احمد بن عبداللہ بن الحسن العنبری نے بتایا کہ میں نے ابوعبید اللہ بن الحسن کی کتاب میں یہ تحریر دیکھی کہ عبدالملک بن ابی سلیمان لاعرزمی نے عطاء بن ابی رباح سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے جہاد پر ایک چھوٹا لشکر روانہ کیا جس میں بھی شامل تھا۔ ہمیں تاریکی نے چاروں طرف سے گھیر لیا اور قبلہ کا ہمیں کوئی پتہ نہ چلا۔ پھر ہم میں سے ایک گروہ نے بتایا کہ ہمیں قبلہ معلوم ہوگیا ہے، یہ کہہ کر انہوں نے شمال کی طرف اشارہ کیا۔ چناچہ لوگوں نے اسی طرخ نماز ادا کی اور چند لکیریں لگا دیں۔ دوسرے گروہ نے جنوب کی طرف قبلے کی نشاندہی کر کے چند لکیریں لگا دیں، لیکن جب صبح ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ مذکورہ لکیریں قبلے کے رخ نہیں تھیں۔ پھر جب ہم سفر سے واپس ہوئے تو اس بارے میں حضور ﷺ سے استفسار کیا۔ آپ ﷺ خاموش رہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ فاینما تولوا فثم وجہ اللہ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا روایات میں یہ بات ذکر ہوئی ہے کہ زیر بحث آیت کے نزول کا سبب ان حضرات کی وہ نماز تھی جسے انہوں نے اپنے اجتہاد سے کام لے کر قبلہ کے سوا کسی اور رخ پر ادا کیا تھا۔ حضرت ابن عمر سے ایک اور روایت میں مذکور ہے کہ حضور ﷺ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آتے ہوئے اپنی سواری پر اسی رخ نماز ادا کرتے رہے جس رخ آپ کی سواری ہوتی۔ اسی سلسلے میں مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی۔ معمر نے قتادہ سے اسی آیت کی تفسیر میں ان کا قول نقل کیا ہے کہ یہ قبلہ اول تھا اور پھر اسے مسجد حرام کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کے حکم نے منسوخ کردیا۔ اس بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے پھر جب تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا تو یہود نے اسے بہت ناپسند کیا۔ اس پر زیر تفسیر آیت نازل ہوئی۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ حضور ﷺ کو اختیار دیا گیا تھا کہ آپ ﷺ جس طرف چاہیں رخ کر کے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اس بنا پر بیت المقدس کی طرف آپ ﷺ کا رخ کرنا ایجاب کی بنا پر نہیں تھا، بلکہ اختیار کی بنا پر تھا۔ حتیٰ کہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم نازل ہوگیا ۔ اس لئے : فاینما تولوا فثم وجہ اللہ کی بات کعبہ کی طرف رخ کرنے کے حکم سے پہلے تخییر کے وقت کی بات تھی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اگر ایک شخص سفر کی حالت میں اجتاد سے کام لے کر کسی ایک رخ پر نماز پڑھ لے اور پھر یہ واضح ہوجائے کہ اس کی نماز قبلہ کے سوا کسی اور رخ پر ہوئی تھی تو ایسے شخص کی نماز درست ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہمارے تمام اصحاب اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر اسے کوئی ایسا شخص میسر ہو جس سے پوچھ کر وہ قبلہ کی جہت معلوم کرسکتا تھا، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا تو اس کی نماز نہیں ہوگی، لیکن اگر اسے مذکورہ شخص نہ ملے اور وہ اجتہاد سے کام لے کر غیر قبلہ کی طرف رخ کر کے نما زپڑھ لے تو اس کی نماز ہوجائے گی خواہ سا نے قبلہ کی طرف پشت کر کے یا اس سے مشرق یا مغرب کا رخ کر کے نماز ادا کی ہو۔ اس قول جیسا قول جیسا قول مجاہد، سعید بن المسیب، ابراہیم نخعی، عطاء اور شعبی سے بھی منقول ہے۔ حسن بصری، زہری، ربیعہ اور ابن ابی سلمہ کا قول ہے کہ وہ وقت کے اندر نماز لوٹائے گا۔ اگر وقت نکل جائے اور اسے اپنی غلطی کا علم ہو تو نماز نہیں لوٹائے گا۔ امام مالک کا بھی یہی قول ہے اس کی روایت ابن وہب نے بیان کی ہے۔ ابو مصعب نے ان سے روایت بیان کی ہے کہ وہ وقت کے اندر اس صورت میں نماز کا اعادہ کرے گا جب اس نے قبلہ کی طر پشت کر کے یا قبلہ سے مشرق یا مغرب کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی ہو۔ اگر سا نے قبلہ سے تھوڑا سا دائیں طرف یا بائیں طرف رخ کیا ہو تو نماز کا اعادہ نہیں کرے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ جو شخص اپنی سمجھ بوجھ سے کام لے کر مشرق کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا شروع کر دے اور نماز ہی میں معلوم ہوجائے کہ قبلہ مغرب میں ہے تو نماز نئے سرے سے پڑھے گا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اگر نمازی یہ دیکھے کہ وہ قبلہ سے ہٹا ہوا ہے تو اس پر قبلہ کی طرف مڑ جانا لازم ہوگا اور نماز کے ادا شدہ حصے کا ادا شمار کرے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت کی اس امر پر دلالت ہے کہ نمازی جس جہت کی طرف رخ کر کے نماز پڑھے اس کی نماز ہوجائے گی۔ اس لئے کہ قول باری : فاینما لوتوا فثم وجہ اللہ کے معنی ہیں۔ وہاں اللہ کی رضا مندی ہوگی اور یہی وجہ ہے جس کی طرف تمہیں متوجہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے : انما نطعمکم بوجہ اللہ (ہم بوجہ اللہ تمہیں کھلاتے ہیں) یعنی اس کی خوشنودی اور رضا مندی نیز اس چیز کی خاطر ہم تمہیں کھلاتے ہیں جس یاللہ نے ہم سے چاہا ہے ۔ قول باری : کل شی ھالک الا وجھہ (ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے وجہ اللہ کے) یعنی سوائے اس چیز کے جو اس کی رضا اور ارادے کے لئے ہو حضرت عامر بن ربیعہ اور حضرت جابر کی روایتوں میں جن کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں مروی ہے کہ اسی بارے میں آیت کا نزول ہوا تھا۔ یہاں اگر یہ کہا جائے کہ آیت کا نزول سواری پر نفل نماز ادا کرنے کے بارے میں تھا اور یہ بھی مروی ہے کہ اس کا نزول قبلے کے بیان کے بارے میں تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی امتناع نہیں کہ یہ تمام صورتیں ایک ہی وقت میں پیش آ گئی ہوں اور پھر ان کے متعلق حضور ﷺ سے استفسار کیا گیا ہو اور اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرما کر ان تمام کا حکم بیان کردیا ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر حضور ﷺ ان میں سے ہر ایک صورت پر یہ فرما کر نص کردیتے کہ اگر تمہیں قبلہ کی جہت کا علم ہو اور تمہارے لئے اس کی طرف رخ کرنا ممکن ہو تو جس جہت کی طرف تمہارے لئے رخ کرنا ممکن ہو وہی وجہ ہے اور اگر تمہارے لئے مختلف جہات مشتبہ ہوجائیں اور پھر تم کسی بھی جہت کی طرف رخ کر کے نما زپڑھ لو تو وہی وجہ ہے۔ جب ان تمام صورتوں کے مراد ہونے میں کوئی منافات نہیں تو پھر آیت کو اس پر محمول کرنا واجب ہے اور آیت سے اللہ کی مراد یہ تمام صورتیں ہوں گی۔ جس طرح اوپر ہم ذکر کر آئے ہیں۔ خاص طور پر جبکہ حضرت جابر اور حضرت عامر بن ربیعہ کی روایتوں نے یہ نص کردیا ہے کہ آیت کا نزول اس شخص کے متعلق ہوا ہے جو قبلہ کا رخ معلوم کرنے کے لئے اپنی سمجھ بوجھ سے کام لینے کے باوجود قبلہ کے صحیح رخ کا تعین نہ کرسکے۔ ان روایتوں میں یہ بات بتادی گئی ہے کہ قبلہ کی طرف پشت کرنے والا نیز قبلہ سے دائیں یا بائیں جانب رخ کرنے والا سب یکساں ہیں کیونکہ ان روایتوں میں مذکور ہے کس نے شمال کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی اور کسی نے جنوب کی جانب رخ کر کے اور یہ دونوں جہتیں ایک دوسری کی ضد ہیں۔ اس کے جواز پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جسے ایک جماعت نے بنو ہاشم کے آزاد کردہ غلام ابو سعید سے روایت کی ہے، ان سے عبداللہ بن جعفر نے عثمان بن محمد سے، انہوں نے سعید المقبری سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا :” مشرق اور مغرب کے مابین قبلہ ہے۔ “ آپ کا یہ ارشاد تمام جہتوں کو قبلہ ثابت کرنے کا مقتضی ہے کیونکہ آپ کا قول ” مشرق اور مغرب کے مابین “ آپ کے قول ” تمام آفاق “ کی طرح ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری : رب المشرق والمغرب مشرق و مغرب کا رب سے مراد پوری دنیا ہے اور لوگوں کی آپس میں مخاطبت کے اندر بھی جب پوری دنیا کے بارے میں خبر دینا مقصود ہو تو اس کے لئے مشرق اور مغرب کا ذکر کردیا جاتا ہے اور یہ دونوں الفاظ پوری دنیا کو شامل ہوجاتے ہیں۔ ہم نے سلف کا جو قول نقل کیا ہے اس کا اجماع پر مبنی ہونا واجب ہے کیونکہ یہ قول بہت واضح ہے اور استفاضہ ، یعنی کثرت کے ساتھ منقول ہوا ہے اور اس کے خلاف سلف کے ہم چشموں میں سے کسی سے کوئی قول نقل نہیں ہوا۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ جو شخص مکہ مکرمہ سے باہر ہو تو اس کی نماز اس کی اپنی سمجھ بوجھ یعنی اجتہاد پر مبنی قبلہ رخ ہوگی اس لئے کہ کوئی شخص بھی اس جہت کے بارے میں جس کی طرف وہ رخ کر کے نماز پڑھتا ہے اس یقین کا اظہار نہیں کرسکتا کہ مذکورہ جہت کعبہ کے محاذات میں ہے۔ اس سے ہٹی ہوئی نہیں ہے۔ اگر تمام لوگوں کی نماز مذکورہ جہت میں اس بنا پر جائز ہے کہ اس کے سوا کسی اور جہت کا مکلف قرار نہیں دیا گیا تو پھر سفر کی حالت میں اپنی سمجھ بوجھ سے کام لے کر ایک جہت کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے والا بھی اپنا فرض ادا کرلینے والا قرار پائے گا کیونکہ وہ اس جہت کے سوا کسی اور جہت کا مکلف نہیں ہے۔ اس پر جو حضرات نماز کا اعادہ واجب کرتے ہیں وہ گویا اس پر ایک اور فرض لازم کرت یہیں اور کسی دلالت کے بغیر اس پر ایک فرض لازم کردینا سرے سے جائز ہی نہیں ہے۔ اگر یہ حضرات ہم پر اس کپڑے یا پانی کے مسئلے میں اعتراض لازم کردیں جسے پہن کر نماز پڑھی جائے اور پھر معلوم ہو کہ کپڑا ناپاک تھا یا پانی سے وضو کرلیا جائے اور پھر معلوم ہو کہ پانی نجس تھا تو ہم کہیں گے کہ ان تمام نمازیوں کے مابین اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے کہ ہر ایک نے اپن افرض ادا کیا، البتہ کپڑے یا پانی کی نجاست کے بارے میں علم کے بعد متعلقہ نمازیوں پر قائم ہونے والی ایک دلالت کی بنا پر ایک اور فرض لازم کردیا جبکہ قبد کی جہت کے سلسلے میں اپنی سمجھ بوجھ سے کام لینے والے پر ایک اور فرض لازم کرنے کے لئے کوئی دلالت قائم نہیں ہوئی اس لئے کہ قبلہ کی جہت کے سوا کسی اور جہت کی طرف نماز بلا ضرورت بھی جائز ہوجاتی ہے اور یہ سواری پر بیٹھ کر پڑھی جانے والی نماز ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ نفل پڑھنے والے پر نفل پڑھنا لازم نہیں ہے۔ جب نفل نماز بلا ضرورت غیر قبلہ کی طرف جائز ہوگئی تو پھر غیر قبلہ کی طرف فرض نماز پڑھنے والے پر بھی اس صورت میں اسی نماز کے سوا اور کچھ واجب نہیں ہوگا، جب اسے قبلہ کی جہت کے بارے میں غلطی کا علم ہوجائے۔ چونکہ ناپاک کپڑے میں نماز کا جواز صرف ضرورت کی بنا پر ہے اور ناپاک پانی سے وضو کسی بھی حال میں جائز نہیں۔ اس لئے ان پر نماز کا اعادہ لازم کردیا گیا۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھے، اپنی سمجھ بوجھ سے کام لے کر کسی جہت کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرنے والے کی حیثیت وہی ہے جو پانی نہ ملنے پر تمیم کر کے نماز ادا کرنے والے کی ہے۔ سا لئے اس پر نماز کا اعادہ لازم نہیں ہوگا کیونکہ جس جہت کی طرف رخ کر کے اس نے نماز ادا کی ہے وہ اسی طرح قبلہ کی قائم مقام بن جائے گی۔ جبکہ ناپاک کپڑوں میں نماز پڑھنے والے نیز نجس پانی سے وضو کرنے والے کو بدل کے طور پر کوئی ایسی چیز دستیاب نہیں ہوتی جو طہارت کی قائم مقام بن سکے۔ اس بنا پر ان دونوں کی حیثیت وہی ہوگی جو پانی کی غیر موجودگی میں تمیم کئے بغیر نماز پڑھ لینے والے کی ہے۔ اس پر غیر قبلہ کی طرف رخ کر کے خائف کی نماز کی ادائیگی دلالت کرتی ہے اور ہمارے زیر بحث مسئلہ کی اصل اور بنیاد بھی یہی ہے جس پر مذکورہ مسئلہ دو وجوہ پر مبنی ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ خائف کی اختیار کردہ جہت حقیقت میں وہ جہت ہے جس کے سوا وہ کسی اور جہت کا مکلف نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مذکورہ جہت قبلہ کی قائم مقام ہے اس لئے تمیم کرنے والے کی طرح اس پر بھی نماز کا اعادہ لازم نہیں ہوگا۔ قول باری : فثم وجہ اللہ سے قبلہ کے سوا کسی اور جہت کی طرف رخ کر کے نماز کی ادائیگی مراد ہے۔ اس پر یہ امر دلالت کرتا ہے کہ کعبہ کی مساحت یعنی طول و عرض میں اتنی وسعت نہیں ہے کہ اس سے دور رہ کر نماز پڑھنے والوں میں سے ہر نمازی اس کی محاذات میں نماز ادا کرسکے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ بعض مساجد کی مساحت کعبہ کی مساحت سے کئی گنا زیادہ ہے جس کی بنا پر اس مسجد میں نماز پڑھنے والوں میں سے ہر نمازی کعبہ کے محاذات میں نہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجود تمام نمازیوں کی نماز درست ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ نمازی صرف اس جہت کی طرف رخ کرنے کے مکلف ہیں جس کے متعلق انہیں گمان ہوتا ہے کہ یہ کعبہ کے محاذات میں ہے، وہ بعینہ کعبہ کے محاذات کے مکلف نہیں ہیں اور یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ عذر کی صورت میں ہر جہت کعبہ کی جہت کی قائم مقام ہوجاتی ہے۔ اگر یہاں یہ کہا جائے کہ ان نمازیوں کی نماز صرف اس بنا پر دسرت ہوتی ہے کہ ان کا رخ کعبہ کے سوا کسی اور طرف ہوتا ۔ اس بنا پر یہ صورت ہمارے زیر بحث مسئلے کی نظیر نہیں بن سکتی کہ اس میں اپنی سمجھ بوجھ سے کام لے کر ایک جہت کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے والے کے سامنے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس نے قبلہ کی جہت کے سوا کسی اور جہت کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر ان دونوں قسم کے نمازیوں کے درمیان مذکورہ فرق کی گنجائش کا اعتبار کرلیا جائے تو اس سے لازم ہوگا ک تمام نمازیوں کی نماز درست قرار نہ دی جائے کیونکہ اگر کعبہ کے محاذات کی مقدار مثلاً بیس گز ہو تو اس صورت میں محاذات ولاوں کی تعداد غیر محاذات والوں کی تعداد سے کہیں کم ہوگی جبکہ دوسری طرف ہم اہل شرق و غرب سب کو دیکھتے ہیں کہ ان کی نماز اس علم کے باوجود درست ہوجاتی ہے کہ کعبہ کے محاذات رکھنے والے نمازی قلیل ہوتے ہیں اور اپنی تعداد کی قلت کی وجہ سے تمام نمازیوں کی تعداد کے ساتھ کوئی نسبت نہیں رکھتے جبکہ اس کے ساتھ یہ صورت بھی ممکن ہے کہ تمام نمازیوں میں کعبہ کے محاذات والا نمازی کوئی بھی نہ ہو، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود سب کی نماز درست ہوتی ہے حالانکہ اصول کے اندر احکام کا تعلق اس صورت کے ساتھ ہے جو اعم و اکثر ہوتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ دارالاسلام اور دارالحرب میں رہنے والوں میں سے ہر ایک کا حکم اعم و اکثر والی صورت کے ساتھ متعلق ہوتا ہے حتیٰ کہ جو شخص دار الاسلام میں آ جاتا ہے اس کی جان محفوظ ہوجاتی ہے، جبکہ یہ بات بھی سب کے علم میں ہے کہ دار الاسلام میں قتل کے سزا اور افراد مثلاً مرتد، ملحد اور حربی بھی موجود ہوتے ہیں۔ اسی طرح جو شخص دار الحرب میں پہنچ جائے اس کا خون مباح ہوجاتا ہے حالانکہ وہاں مسلمان تاجر اور مسلمان قیدی بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح تمام دوسرے اصول ہیں جن کے احکام اسی نہج پر چلتے ہیں۔ اس بنا پر بطلان صلوۃ کے بارے میں اعم و اکثر والی صورت کا اس علم کے باوجود کوئی حکم نہیں ہوگا کہ نمازیوں کی اکثریت کعبہ کے محاذات میں نہیں ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ا ن نمازیوں میں سے ہر ایک اپنے وقت میں جس بات کا مکلف ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے لئے کعبہ کی جہت وہی ہوگی جس کے متعلق اسے گمان ہو کہ یہ کعبہ کی جہت ہے۔ اسی طرح اس حالت کے اندر بھی اس کے لئے کعبہ کی جہت وہی ہوگی جس کے متعلق اس نے اپنی سمجھ بوجھ سے کام لے کر یہ سمجھا ہے کہ یہ کعبہ کی جہت ہے اور اس دوسری صورت میں کسی پر بھی نماز کا اعادہ لازم نہیں ہوگا۔ اگر یہاں یہ سوال اٹھایا جائے کہ آپ اس نماز پر اعادہ واجب کردیتے ہیں جس کے لئے کعبہ کی جہت کے بارے میں دوسروں سے پوچھنے کا امکان ہو اور وہ پھر بھی اپنے اجتہاد سے کام لے کر کسی ایک جہت کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لے اور پھر یہ واضح ہوجائے کہ اس نے قبلہ کے سوا کسی اور جہت کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی ہے۔ اس کا جو با یہ ہے کہ مذکورہ بالا صورت موقعہ اجتہاد نہیں ہے۔ یعنی اگر نمازی کو کوئی شخص مل جائے جس سے وہ کعبہ کی جہت معلوم کرسکتا ہو اور پھر وہ اپنی سمجھ بوجھ سے کام لے کر غلط جہت کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لے، تو اس پر نماز کا اعادہ لازم ہوگا۔ ہم نے تو اس شخص کے لئے اپنی سمجھ بوجھ سے کام لے کر کسی ایک جہت کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کو جائز قرار دیا ہے۔ جس کی حالت ایسی ہو جس میں مذکورہ اجتہاد کی گنجائش موجود ہو، لیکن اگر اسے ایسا شخص مل جائے جسے وہ کعبہ کی جہت پوچھ سکتا ہو تو اس صورت میں وہ اپنے اجتہاد سے کام لے کر نماز پڑھنے کا مکلف نہیں ہوگا، بلکہ وہ ایسی صورت میں کعبہ کی جہت پوچھنے اور معلوم کرنے کا مکلف ہوگا۔ ہماری اس بات پر یہ امر دلالت کرتا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ حضور ﷺ کے زمانے میں جو شخص آپ ﷺ کی مجلس سے غائب اور دور ہوتا وہ اپنا فرض اپنی سمجھ بوجھ یعنی اجتہاد سے کام لے کر ادا کرتا اور اس کے ساتھ یہ بات بھی جائز سمجھتا کہ شاید یہ فرض منسوخ ہوجائے، چناچہ اہل قبا کے بارے میں یہ بات ثابت ہے کہ وہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، پھر ایک نماز کے دوران کسی نے آ کر انہیں اطلاع دی کہ قبلہ بدل گیا ہے تو وہ اپنی نماز کے اندر ہی کعبہ کی طرف گھوم گئے، جبکہ اس وقت ان کی پشت کعبہ کی طرف تھی۔ مدینہ کے اندر جس شخص کا رخ بیت المقدس کی طرف ہوتا ہے اس کی پشت کعبہ کی طرف ہوتی ہے۔ اس کے باوجود نسخ کے ورود کے ساتھ انہیں نماز کے اس حصے کا اعادہ کا حکم نہیں دیا گیا جس کی ادائیگی انہوں نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے کی تھی۔ یہاں اغلب گمان تو یہی ہے کہ انہوں نے نسخ کے ورود کے بعد نماز کی ابتدا کی تھی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نسخ کا حکم حضور ﷺ پر اس وقت نازل ہوا تھا جب آپ مدینہ میں تھے اور نسخ کے بعد خبر لے جانے والا خبر لے کر قبا پہنچا تھا۔ مدینہ اور قبا کے درمیان تقریباً ایک فرسخ یعنی تیل میل کا فاصلہ ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نسخ کے بعد ان کی نماز شروع ہوئی تھی کیونکہ اتنی مدت تک ان کا نماز کے اندر رہنا ممتنع تھا۔ اگر نسخ سے پہلے ہی ان کی نماز کی ابتداء تسلیم کرلی جائے تو بھی مذکورہ بالا دلالت اپنی جگہ قائم رہے گی اس لئے کہ ایسی صورت کے اندر بھی انہوں نے اپنی نماز کا کچھ حصہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے ادا کیا تھا۔ یہاں اگر یہ کہا جائے کہ یہ بات اس لئے جائز ہوگئی کہ انہوں نے نسخ سے پہلے اپنی نماز شروع کردی تھی اور یہی چیز ان پر فرض تھی تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہی کیفیت اپنی سمجھ بوجھ سے کام لے کر نماز کے لئے ایک جتہ متعین کرنے والے کی بھی ہے۔ اس پر بھی وہ بات فرض ہوتی ہے جس پر اس کا اجتہاد اسے پہنچا دے۔ اس پر اس کے سوا اور کوئی بات فرض نہیں ہوتی۔ اگر یہاں کہا جائے کہ نماز پر جب یہ واضح ہوجائے کہ اس نے قبلہ کے سوا کسی اور جہت کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی ہے تو اس کی حیثیت اس شخص جیسی ہوگی جو کسی پیش آمد ہ واقعہ کے حکم کے متعلق اجتہاد کرے اور پھر اس حکم کے بارے میں اسے نص مل جائے تو نص کے وجود کی صورت میں اس کا مذکورہ اجتہاد باطل ہوجائے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح معترض نے تصور کیا ہے کیونکہ کعبہ کی جہت کے بارے میں نص اسی صورت میں ہوگی جب یہ سامنے ہو یا اس کے بارے میں علم ہو۔ نماز کے لئے تو ایک جہت نہیں ہے کہ نمازی اس کی طرف رخ کر کے بلکہ نمازیوں کے احوال میں فرق کے مطابق تمام جہات ان کے لئے ہوتی ہیں۔ مثلاً جس شخص کی نظروں کے سامنے کعبہ ہو وہ اس کی طرف رخ کرے گا اور جو شخص کعبہ سے دور ہوا ور کعبہ کے بارے میں اسے علم ہو اس پر وہ جہت فرض ہوگی جس کی طرف اسے رخ کرنا ممکن ہو ایسے شخص کے لئے کعبہ اس کے فرض کی جہت نہیں ہوگا۔ جس شخص پر جہت مشتبہ ہوجائے تو اس پر وہ جہت فرض ہوگی جس پر اس کی سمجھ بوجھ، یعنی اجتاد اسے پہنچا دے۔ اس لئے معترض کا یہ قول درست نہیں ہے کہ ایسا شخص اجتاد کے ذریعے نص تک پہنچ جاتا ہے۔ کیونکہ اجتہاد کی حالت میں کعبہ کی جہت اس پر فرض نہیں ہوتی نص تو اس حالت میں ہوتی ہے جب کعبہ کی طرف رخ کرنے کا امکان اور اس کا علم ہو نیز کعبہ کے بارے میں علم ہوتے اور اس کی جہت کے بارے میں عدم علم کی صورت میں بھی اسے اجتہاد سے کام لینے کا حق ہوتا ہے۔ اس بنا پر اگر یہ صورت نص کے بمنزلہ ہوتی تو پھر اس علم کے ہوتے ہوئے اجتہاد کی کوئی گنجائش نہ ہوتی کہ اس کی طرف سے اس حکم پر نص موجود ہے جس طرح اس علم کے ہوتے ہوئے اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اللہ کی طرف سے فلاں واقعے کے بارے میں نص موجود ہے۔
Top