Ahkam-ul-Quran - An-Noor : 6
وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَآءُ اِلَّاۤ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ١ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يَرْمُوْنَ : تہمت لگائیں اَزْوَاجَهُمْ : اپنی بیویاں وَلَمْ يَكُنْ : اور نہ ہوں لَّهُمْ : ان کے شُهَدَآءُ : گواہ اِلَّآ : سوا اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں (خود) فَشَهَادَةُ : پس گواہی اَحَدِهِمْ : ان میں سے ایک اَرْبَعُ : چار شَهٰدٰتٍ : گواہیاں بِاللّٰهِ : اللہ کی قسم اِنَّهٗ لَمِنَ : کہ وہ بیشک سے الصّٰدِقِيْنَ : سچ بولنے والے
اور جو لوگ اپنی عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہوں تو ہر ایک کی شہادت یہ ہے کہ پہلے تو چار بار خدا کی قسم کھائے کہ بیشک وہ سچا ہے
لعان کا بیان قول باری : (والذین یرمون ازواجھم ولم یکن لھم شھدآء الا انفسھم۔ اور جو لوگ اپنی بیویوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں اور ان کے پاس اپنی ذات کے سوا دوسرے گواہ نہیں ہوتے…) تا آخر مضمون۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اجنبی عورت یا اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگانے والے کی حد کوڑے تھے اس کی دلیل حضور ﷺ کا وہ حکم ہے جو آپ نے ہلال ؓ بن امیہ کو اس وقت دیا تھا جب انہوں نے اپنی بیوی پر شریک بن سمحاء کے ساتھ بدکاری کا الزام لگایا تھا۔ آپ نے بلال ؓ سے فرمایا تھا۔” میرے پاس چار آدمی لائو جو اس بات کی گواہی دیں ورنہ تمہارے پیٹھ پر حد لگے گی۔ “ اپ موقع پر حضراتِ انصار ؓ نے یہ کہا تھا کہ ” کیا ہلال بن امیہ ؓ کو حد لگے گی اور کیا ان کی گواہی مسلمانوں کے ہاں باطل قرار پائے گی ؟ “ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ بیوی کے قاذف کی وہی حد تھی جو اجنبی عورت کے قاذف کی تھی۔ پھر بیوی کے قاذف کی حد لعان کے ذریعے منسوخ ہوگئی کیونکہ جب لعان کی آیت نازل ہوئی تو آپ نے ہلال ؓ سے فرمایا کہ ” اپنی بیوی کو میرے پاس لے کر آئو۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں قرآن نازل کردیا ہے۔ “ اس کے بعد آپ نے دونوں کے درمیان لعان کرادیا۔ اس جیسی روایت حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے بھی ہے۔ جس میں ذکر ہے کہ ایک شخص نے آکر کہا ” لوگو کیا تم نے کبھی سوچا کہ اگر ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مردکو ہم بستر دیکھ لے پھر اگر اپنی زبان سے وہ اس کا ذکر کرے تو تم اسے کوڑے لگاتے ہو اور اگر اسے قتل کردے تو تم اسے قتل کردیتے ہو اور اگر وہ خاموش رہتا ہے تو اپنا غصہ پی کر خاموش رہتا ہے۔ “ یہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ بیوی کے قاذف کی حد کوڑے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ نے لعان کے ذریعے اس کی سزا کو منسوخ کردیا۔ اس بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ شوہر اگر غلام یا حد قاذف کا سزا یافتہ ہو تو اس صورت میں اس پر حد قذف واجب ہوگی جب وہ جھوٹ بولنے کا اقرار کرے گا۔ اس طرح شوہر کی جہت سے لعان ساقط ہوگیا اور اس پر حد واجب ہوگئی ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر بیوی لونڈی یا ذمیہ یا حد قذف کی سزا یافتہ ہو تو شوہر پر حد واجب نہیں ہوتی اس لئے کہ بیوی کی جہت سے لعان کا سقوط ہوا تھا۔ جب بیوی کی جہت سے لعان ساقط ہوگیا تو اس کی حیثیت یہ ہوگئی کہ گویا اس نے زنا کی تہمت کے سلسلے میں اپنے شوہر کی تصدیق کردی۔ اس لئے شوہر پر حد واجب نہیں ہوئی۔ فقہاء کا اس میں اختلاف ہے کہ کسی قسم کے میاں بیوی کے درمیان لعان واجب ہوتا ہے ہمارے تمام اصحاب یعنی امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد اور امام زفر کا قول ہے کہ دو وجوہ میں سے ایک کی بنا پر لعان ساقط ہوجاتا ہے اول یہ کہ زوجین میں سے ایک ایسا ہو جس کے ہوئے ہوئے لعان واجب نہ ہوتا ہو۔ اس کی صورت یہ ہے کہ بیوی ایسی عورت ہو کہ اگر کوئی اجنبی مرد اس پر زنا کی تہمت لگائے تو اس پر حد واجب نہ ہوتی ہو۔ مثلاً بیوی مملوکہ یا ذمیہ ہو یا اس کے ساتھ ملک کے بغیر حرام ہم بستری ہوئی ہو۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان دونوں میں سے ایک اہل شہادت میں سے نہ ہو۔ یعنی اس کی گواہی قابل قبول نہ قرار دی جاتی ہو۔ اس کی صورت یہ ہے کہ شوہر غلام یا کافر ہو یا حد قذف کا سزا یافتہ ہو۔ لیکن اگر زوجین میں سے ایک نابینا فاسق ہو تو اس صورت میں لعان واجب ہوگا۔ ابن شبرمہ کا قول ہے کہ اگر مسلمان شوہر اپنی یہودن یا عیسائن بیوی پر زنا کی تہمت لگائے گا تو وہ اس کے ساتھ لعان کرے گا۔ اس وہب نے امام مالک کی طرف سے کہا ہے کہ مسلمان لونڈی، آزاد عورت ، یہودن اور عیسائن اپنے آزاد مسلمان شوہر کے ساتھ لعان کرے گی۔ اسی طرح غلام اپنی یہودن بیوی کے ساتھ لعان کرے گا۔ ابن القاسم نے امام مالک کی طرف سے کہا ہے کہ مسلمان اگر اپنی کافر بیوی کو قذف کرے گا تو ان دونوں کے درمیان لعان نہیں ہوگا الا یہ کہ شوہر ہے کہ میں نے اسے زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس صورت میں بیوی اس کے ساتھ لعان کرے گی خواہ حمل ظاہر ہوجائے یا ظاہر نہ ہو اس لئے کہ شوہر نے گویا یہ کہا کہ مجھے خطر ہے کہ کہیں میری موت نہ آجائے اور اس کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچے کا نسب میرے ساتھ لاحق نہ ہوجائے۔ صرف حمل سے پیچھا چھڑانے کے لئے مسلمان شوہر اپنی کافر بیوی کے ساتھ لعان کرے گا اور اس کے سوا کسی اور صورت میں لعان نہیں کرے گا۔ اسی طرح شوہر اپنی لونڈی بیوی کے ساتھ نفی حمل کے سوا اور کسی صورت میں لعان نہیں کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ حد قذف کا سزا یافتہ شخص بھی اپنی بیوی کے ساتھ لعان کرے گا اگر میاں بیوی دونوں کافر ہوں تو ان کے درمیان لعان نہیں ہوگا۔ میاں بیوی اگر دونوں ہی مملوک اور مسلمان ہوں تو ان کے درمیان لعان ہوگا، اگر شوہر بچے کے نسب کی نفی کا ارادہ کرے گا۔ سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر زوجین میں سے ایک مملوک یا کافر ہوگا تو ان کے درمیان لعان نہیں ہوگا۔ البتہ حد قذف کا سزا یافتہ ہوگا تو لعان واجب ہوگا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اہل کتاب کے درمیان لعان نہیں ہے اس طرح حد قذف کے سزا یافتہ شوہر اور اس کی بیوی کے درمیان لعان نہیں۔ لیث بن سعد کا بیان ہے کہ اگر غلام اپنی آزاد بیوی پر زنا کی تہمت لگا کر یہ دعویٰ کرے کہ اس نے غیر مرد کو اس پر سوار دیکھا تھا تو اس صورت میں وہ بیوی کے ساتھ لعان کرے گا کیونکہ اگر وہ اجنبی ہوتا اور اسے قذف کرتا تو اس صورت میں ایک آزادعورت کو قذف کرنے کی بنا پر اس پر حد قذف واجب ہوجاتی۔ اگر غلام کی بیوی لونڈی یا عیسائن ہو تو وہ بچے کے نسب کی نفی کی خاطر اس کے ساتھ لعان کرے گا بشرطیکہ حمل ظاہر ہوجائے۔ لیکن بیوی کو غیر مرد کے ساتھ بدکاری میں مشغول دیکھنے کی صورت میں وہ اس کے ساتھ لعان نہیں کرے گا کیونکہ ایسی عورت کو قذف کرنے کی بنا پر اس پر حد قذف واجب نہیں ہوتی ہے۔ حد قذف میں سزا یافتہ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ لعان کرے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ ہر ایسا شوہر جس کے لئے اپنی بیوی کو طلاق دینا جائز ہو اور اس پر فرض کالزوم ہو یعنی وہ مکلف ہو اپنی بیوی کے ساتھ لعان کرے گا ۔ بشرطیکہ بیوی بھی ان عورتوں میں سے ہو جن پر فرض کالزوم ہوگیا ہو۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ پہلی وجہ جس کی بنا لر لعان ساقط ہوجاتا ہے اس کے تحت لعان کا سقوط اس لئے واجب ہوتا ہے کہ ازواج یعنی شوہروں کی طرف سے اپنی بیویوں پر تہمت زنالگانے پر لعان کی حیثیت وہی ہے جو اجنبی عورتوں پر اس تہمت کے لگانے پر حد کی ہے۔ بیوی اور اجنبی عورت پر تہمت زنا لگانے والے کی سزا پہلے کوڑے تھے چناچہ ارشاد باری ہے : (والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوا باریعۃ شھدآء فاجلدوھم ثمانین جلدۃ) پھر کوڑوں کی یہ سزا شوہروں سے منسوخ کرکے اس کی جگہ لعان کو دے دی گئی۔ اس کی دلیل حضور حضور ﷺ کا وہ حکم ہے جو آپ نے ہلال ؓ بن امیہ کو دیا تھا جب انہوں نے اپنی بیوی پر شریک بن سمحاء کے ساتھ بدکاری کا الزام لگایا تھا۔ آپ نے ہلال ؓ سے فرمایا تھا کہ میرے پاس چار آدمی لے آئو جو اس بات کی گواہی دیں ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگے گی۔ نیز حضرت ابن مسعود ؓ کی ورایت میں ایک شخص کا یہ کہنا بھی اس کی دوسری دلیل ہے کہ ” لوگو ! تم نے کبھی سوچا ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو ہم بستر دیکھ لے پھر اگر وہ یہ بات اپنی زبان پر لائے تو تم لوگ اسے کوڑے مارتے ہو اور اگر وہ اسے قتل کردے تو تم لوگ اسے قتل کردیتے ہو اور اگر وہ چپ رہے تو غصہ پی کر چپ رہے گا۔ “ پھر لعان کی آیت نازل ہوئی اور حضور ﷺ نے ہلال ؓ بن امیہ سے فرمایا کہ ” اللہ تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں قرآن نازل کردیا ہے اب اپنی بیوی کو میرے پاس لے کر آئو “ جب شوہروں کے لئے لعان کی وہی حیثیت ہوگئی جو اجنبی عورتوں کو قذف کرنے کی صورت میں حد کی ہے تو پھر لعان ایسے شوہر پر واجب نہیں ہوگا جو اپنی ایسی بیوی پر تہمت لگاتا ہے جس پر اگر کوئی اجنبی یہ تہمت لگاتا تو اس پر حد قذف واجب نہ ہوتی۔ نیزحضور ﷺ نے لعان کو حد کے نام سے موسوم کیا ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں محمد بن احمد بن نصر الخراسانی نے، انہیں عبدالرحمن بن موسیٰ نے انہیں روح بن دراج نے ابن ابی لیلیٰ سے۔ انہوں نے الحکم سے انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ حضور ﷺ نے ایک میاں بیوی کے مابین لعان کرایا پھر ان دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی اور فرمایا ” اگر عورت کے ہاں کشادہ قدموں والا بچہ پیدا ہو اور فلاں شخص کے ہم شکل ہو تو یہ اس کے نطفے سے ہوگا۔ “ جب بچہ پیدا ہو تو اس کی شکل وشباہت اس شخص سے ملتی جلتی تھی اس پر حضور ﷺ نے فرمایا : ” اگر حد کی بات گزر نہ چکی ہوتی یعنی شوہر کے ساتھ اس عورت کا لعان نہ ہوچکا ہوتا تو میں اسے ضرور سنگسار کردیا۔ “ حضور ﷺ نے یہ بتایا کہ لعان حد ہے جب لعان حد ہے تو اس صورت میں شوہر پر اس کا ایجاب جائز نہیں۔ جب بیوی مملوکہ ہو کر کیونکہ یہ کوڑوں کی حد کی طرح ایک حد ہے اسی طرح مملوک کے قاذف پر بھی واجب نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس کی حیثیت حد جیسی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ لعان اگر حد ہوتا تو اس صورت میں شوہر پر کوڑوں کی سزا واجب نہ ہوتی۔ جب وہ اپنی آزاد بیوی کو قذف کرتا اور لعان کے بعد اپنے جھوٹ کا اقرار کرلیتا کیونکہ یہ بات تو درست نہیں کہ کسی پر ایک قذف کے بدلے دو حد واجب ہوجائیں۔ شوہر کی طرف سے اپنے بارے میں جھوٹ کا اقرار کرلینے کے بعد اس پر حد قذف کا واجب ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ لعان حد نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور ﷺ نے لعان کو حد کے نام سے موسوم فرمایا ہے اور یہ بات جائز نہیں کہ قیاس اور نظر سے کام لے کر اثر یعنی حدیث کو نظر انداز کردیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ شوہر پر دو حد کا اجتماع اس وقت ممتنع ہوتا جب یہ دونوں حد کوڑوں کی صورت میں ہوتیں لیکن جب ایک کوڑوں کی صورت میں ہے اور دوسری لعان کی صورت میں تو ہم نے اصول کے اندر کوئی ایسی چیز نہیں پائی جو اس صورت کے خلاف ہو۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھئے۔ لعان حاکم کے فیصلے کے رو سے حد ہوتی ہے اس کے اندر یہ جواز ہوتا ہے کہ وہ کبھی حد بن جائے اور کبھی حدنہ بنے اسی طرح ہر ایسی بات جس کا کسی چیز کے ساتھ حاکم کے فیصلے کے رو سے تعلق ہوجائے اس کے اندر یہ جواز ہوتا ہے کہ وہ کبھی ایک وصف کے ساتھ متعلق ہوجاوے اور کبھی دوسرے وصف کے ساتھ ہم نے جو یہ کہا ہے کہ لعان کی ایک شرط یہ ہے کہ میاں بیوی دونوں اہل شہادت میں سے ہوں یعنی ان کی گواہی قابل قبول قرار دی جاتی ہو اس کی وجہ یہ قول باری ہے : (والذین ازواجھم ولم یکن لھم شھدآء الا انفسھم فشھادۃ احد ھم اربع شھادات باللہ ) تاآخر مضمون۔ جب اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے لعان کی شہادت یعنی گواہی کا نام دیا پھر حد قذف کے سزا یافتہ کے متعلق فرمایا : (ولا تقباوا لھم شھادۃ ابدا) تو دونوں آیتوں کے مضمون کے رو سے حد قذف کے سزا یافتہ سے لعان کا انتفاء واجب ہوگیا۔ جب یہ بات حد قذف کے سزا یافتہ کے متعلق ثابت ہوگئی تو یہی بات ان تمام لوگوں کے بارے میں بھی ثابت ہوگئی جو اہل شہادت کے دائرے سے خرج ہیں مثلاً غلام اور کافر وغیرہ۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھئے۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ حد قذف کا سزا یافتہ اپنی بیوی کے ساتھ لعان نہیں کرے گا تو یہی حکم ان تمام لوگوں کے متعلق بھی ثابت ہوگیا جو اہل شہادت میں سے نہیں ہیں اس لئے کہ کسی نے بھی ان دوقسموں کے افراد کے درمیان فرق نہیں کیا ہے۔ اس لئے کہ جو اہل علم حد کے سزا یافتہ پر لعان واجب نہیں کرتے وہ ہمارے مذکورہ افراد پر بھی اسے واجب قرار ہیں دیتے۔ آیت کی اس دلالت پر ایک جہت ملاحظہ کیجئے۔ ارشاد باری ہے : (ولم یکن لھم شھدآء الا انفسھم) اب یا تو اس سے مراد بس قسمیں ہیں جو لعان کی صورت میں اٹھائی جاتی ہیں اور اس کے ساتھ گواہی کے مفہوم کا کوئی اعتبار نہیں ہے یا ان قسموں میں شہادت کے مفہوم کا بھی اعتبار کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ہم کہتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ولم یکن لھم شھدآء الا انفسھم) تو اس سے معلوم ہوگیا کہ یہاں یہ مراد ہے کہ لعان کرنے والا اہل شہادت میں سے ہو۔ کیونکہ یہ مراد لینا تو درست نہیں کہ قاذفین کے لئے ان کی اپنی ذات کے سوا اور کوئی حلف اٹھانے والا نہ ہو اس لئے کہ ہر شخص اپنی ذات کی طرف سے حلف اٹھاتا ہے اور کسی انسان کو کسی دوسرے کی طرف سے حلف دلوانا جائز نہیں ہوتا۔ اس لئے اگر آیت کے معنی یہ ہوتے کہ ان قاذفین کے لئے ان کی اپنی ذات کے سوا کوئی اور حلف اٹھانے والا نہ ہو تو یہ بات محال ہوجاتی اور آیت کا فائدہ زائل ہوجاتا اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس سلسلے میں گواہی دینے والا اہل شہادت میں سے ہو اگرچہ یہ گواہی قسم کی صورت میں ہے اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے : (فشھادۃ احدھم اربع شھادات باللہ) یہ قول باری اسی مراد کی نشاندہی کرتا ہے کہ لعان کی قسموں کی ادائیگی لفظ شہادت کے ساتھ کی جائے یا میاں بیوی میں سے ہر ایک حلف اٹھائے خواہ یہ حلف لفظ شہادت کے ساتھ یا اس کے سوا کسی اور لفظ کے ساتھ اٹھایا جائے۔ بس اسے حلف ہونا چاہیے ۔ جبکہ ایک طرف یہ کہنا کہ میاں بیوی جس سے بھی قسم اٹھالیں ان کی قسموں کو قبول کرلینا جائز ہے ۔ کتاب وسنت کے خلاف ہے اس لئے کہ ارشاد باری ہے : (فشھا ادۃ احدھم اربع شھادات باللہ) جس طرح یہ ارشاد ہے۔ (واستشھدوا شھیدین من رجالکم) نیز فرمایا : (فاستشھدوا علیھن اربعۃ منکم) دوسری طرف لعان کو لفظ شہادت کے ساتھ بیان کیے بغیر اسے صرف خبر کی صورت میں بیان کردینے پر اکتفا کرنا جائز نہیں علاوہ ازیں حضور ﷺ نے بھی جب میاں بیوی کے ایک جوڑے کے درمیان لعان کرایا تھا تو آپ نے انہیں لفظ شہادت کے ساتھ لعان کرنے کا حکم دیا تھا اور صرف لفظ یمین پر اقنصار نہیں کیا تھا تو ان باتوں کی روشنی میں ہمیں یہ چیزیں معلوم ہوگئی کہ ان قسموں کی شرط یہ ہے کہ قسمیں اٹھانے والے اہل شہادت میں سے ہوں اور پھر لعان کریں۔ فاسق لعان میں اہل شہادت سے ہے اگر یہ کہا جائے کہ فاسق اور نابینا اہل شہادت میں سے نہیں ہیں لیکن وہ لعان کرتے ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ فاسق کئی وجہ سے اہل شہادت میں سے ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ وفسق جو گواہی کے رد ہونے کا موجب ہوتا ہے۔ بعض دفعہ اس کے روز قبول میں اجتہاد کو دخل ہوتا ہے اس لئے ایسے فسق کی موجودگی میں گواہی قبول ہونے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ فاسق پر اس کی گواہی کے بطلان کا حکم نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ فسق ایسی چیز ہے جس کے متعلق حکم لگانا حاکم کے لئے جائز نہیں ہوتا۔ جب حاکم کے حکم کی جہت سے اس کی گواہی باطل نہیں ہوتی تو وہ اہل شہادت کے دائرے سے خارج نہیں ہوتا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ لعان کی حالت میں فاسق کا فسق غیر یقینی ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اس نے اس حالت میں اللہ سے توبہ کرلی ہو اور اس توبہ کی بنا پر وہ اللہ کے نزدیک عادل اور پسندیدہ بن گیا ہو۔ پھر یہ گواہی ایسی نہیں ہوتی کہ اس کے ذریعے کسی پر کوئی حق ثابت کیا جاتا ہے کہ پھر اسے اس بنا پر رد کردینا ضروری قرار دیا جائے کہ شروع ہی سے اس شخص کے فسق کا ظاہری طور پر سب کو علم تھا۔ ان وجوہ کی بنا پر اس شخص کا فسق اسے لعان کرنے سے روک نہیں سکتا خواہ لعان کی یہ شرط ہے کہ لعان کرنے والے اہل شہادت میں سے ہوں۔ لیکن کفر کا معاملہ فسق کی طر نہیں ہے۔ کیونکہ کافر اگر اسلام کا اعتقاد کرلے تو وہ صری اس اعتقاد کی بنا پر مسلمان کہلا نہیں سکتا جب تک وہ اس کا اظہار نہ کرے اگر اس کے لئے اس کا اظہار ممکن ہو۔ اس بنا پر جب تک وہ اسلام کا اظہار نہیں کرے گا اس وقت تک اس پر کفر کا حکم باقی رہے گا خواہ اس کا اعتقاد کفر کا نہ بھی ہو ایک بات یہ بھی ہے کہ اس گواہی میں گواہ کی عدالت کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ جس کے ذریعے کسی پر حق ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اس لئے ایسی گواہی میں تہمت کے احتمال کی بنا پر اسے فیصلے کی بنیاد نہیں بنایا جاتا۔ حقوق کے معاملات میں فاسق کی گواہی اس تہمت کی بنا پر رد کردی جاتی ہے۔ لیکن لعان ایسا معاملہ ہے۔ جسے تہمت باطل نہیں کرتی اس لئے اس کے سقوط میں فسق کا اعتبار رواجب نہیں ہے۔ نابینا کی شہادت لعان میں رہ گیا نابینا تو وہ بھی بینا کی طرح اہل شہادت میں سے ہے ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ حقوق کے اندر نابینا کی گواہی قابل قبول ہیں ہوتی۔ اس لئے کہ ایسی صورت میں اس کی اور مشہود علیہ (جس کے خلاف گواہی دے رہا ہو) کے درمیان عدم بصارت کا پردہ حائل ہوتا ہے جبکہ لعان کی گواہی کی یہ شرط نہیں ہوتی کہ گواہ یہ کہے کہ میں نے عورت کو زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ بلکہ اگر صرف یہ کہہ دے کہ یہ عورت یعنی میری بیوی زانیہ ہے، لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے تو بھی وہ لعان کرے گا۔ جبکہ نابینا کو اس کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ جس چیز کی گواہی دے رہا ہے اس کے متعلق آنکھوں دیکھی کیفیت کی خبر دے رہا ہے تو عدم بصارت کی بنا پر اس کا لعان باطل ہیں ہوگا۔ ہمارے اصحاب کے مسلک کی تائید میں حضور ﷺ سے کئی روایات منقول ہیں۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں احمد بن دائو د السراج نے، انہیں الحکم بن موسیٰ نے، انہیں عتاب بن ابراہیم نے، عثمان بن عطا سے، انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر وبن عاص سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے آپ نے فرمایا (اربع من النساء لیس بیتھن وبین ازواجھن ملاعنۃ الیھودیۃ والنصرانیۃ تحت المسلم والحرۃ تحت المماوک والملوکۃ تحت الحر ) چار قسم کی عورتیں ایسی ہیں کہ ان کے اور ان کے شوہروں کے درمیان لعان نہیں ہوگا۔ یہودن یا عیسائن جو مسلمانوں کے عقد میں ہو ، آزاد عور ت جو مملوک کے عقد میں ہو اور مملوکہ جو آزاد مرد کے عقد میں ہو۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں احمد بن حمویہ بن یسار نے ، انہیں ابوسیار التستری نے ، انہیں حسن بن اسماعیل نے مجالد المصیص سے، انہیں حماد بن خالد نے معاویہ بن صالح سے، انہوں نے ابو توبہ صدقہ سے ، انہوں نے عمرو بن شعیب سے، انہوں نے اپنے ولاد سے، انہوں نے عمرو کے دادا سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا (اربع لیس بینھن ملاعنۃ الیھودیۃ والنصرانیۃ تحت المسلم والمملوکۃ تحت الحدودالحدۃ العدۃ تحت المملودہ) اگر یہ کہا جائے کہ لعان تو صرف ولد کی نفی کے سلسلے میں ہوتا ہے تاکہ شوہر کے نسب کے ساتھ ایسے بچے کا الحاق نہ ہونے پائے جو اس کے نطفے سے نہ ہو یہ بات لونڈی اور آزاد عورت دونوں میں موجود ہوتی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ شوہر لونڈی کے ساتھ نکاح میں داخل ہوجاتا ہے تو اسے نکاح کا حکم لازم ہوجاتا ہے اور نکاح کا ایک حکم یہ ہے کہ لونڈی کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے کا نسب اس سے منتقی نہ ہو۔ جس طرح بچے کی غلامی کے سلسلے میں نکاح کا حکم اسے لازم ہوجاتا ہے۔ لعان کو واجب کردینے والے قذف کا بیان قول باری ہے : (والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء فاجلدوھم ثمانین جلدۃ ۔ ) تاآخر آیت۔ فقہاء کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آیت میں ایسی عورتوں کو قذف کرنا مراد ہے جو اجنبی اور محصنات یعنی پاک دامن ہوں خواہ قذف کرنے والے نے یہ کہا ہو : ” زنیت “ (تونے زنا کیا ہے) یا یہ کہے ” رایتک تزنین “ (میں نے تجھے زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ پھر ارشاد باری ہوا : والذین یرمون ازوجھم) اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے اس سے مراد زنا کا الزام ہے جو عورت پر لگایا جائے، تاہم فقہاء کے درمیان اس قذف کی کیفیت کے بارے میں اختلاف ہے۔ جس کی بنا پر لعان واجب ہوجاتا ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد، امام زفر اور امام شافعی کا قول ہے کہ جب شوہر اپنی بیوی کو ” یا زانیہ “ کہے تو لعان واجب ہوجائے گا۔ امام مالک بن انس کا قول ہے کہ لعان صرف اس صورت میں واجب ہوگا جب شوہر اپنی بیوی سے کہے کہ ” میں نے تجھے زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ “ یا بیوی کے حمل کے متعلق کہہ دے یہ حمل میرا نہیں ہے۔ یا اس کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے کو اپنا بچہ تسلیم کرنے سے انکار کردے۔ نابینا شخص جب اپنی بیوی کو قذف کرے گا تو اس کے ساتھ لعن کرے گا۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ صرف اس صورت میں لعان کرے گا جب وہ یہ کہے کہ ” میں نے اس پر ایک مرد کو سوار دیکھا تھا “ یا یہ کہے کہ ” میں نے اس کا استبراء رحم کرلیا تھا اور اس کا یہ حمل میرے نطفے سے نہیں ہے۔ نیز اس پر وہ اللہ کی قسم بھی کھائے ۔ عثمان البتی کا قول ہے کہ جب شوہر یہ کہے ” میں نے اسے زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ “ تولعان کرے گا۔ اگر اس نے عورت پر اس وقت زنا کی تہمت لگائی ہو جب وہ خراسان میں تھی اور اس نے ایک دن ہوئے اس کے ساتھ نکاح کیا تھا تو اس صورت میں لعان نہیں کرے گا، اس کا یہ فعل انتہائی بےشرمی کی بات ہوگی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت اس امر کا مقتضی ہے کہ قذف کی بنا پر لعان واجب کردیا جائے خواہ اس نے یہ کہاہو کہ ” میں نے زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ “ یا یہ نہ کہے اس لئے کہ جب وہ اس پر زنا کی تہمت لگادے گا تو آیت کی رو سے وہ رامی یعنت تہمت لگانے والا قرار پائے گا۔ خواہ اس نے اس فعل بد کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا دعویٰ کیا ہو یا اسے مطلق رکھا ہو اور مشاہدہ کا ذکر نہ کیا ہو۔ نیز فقہاء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اجنبی عورت کے قاذف کے حکم میں یعنی اس پر حد واجب ہونے کے سلسلے میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس نے اس کے مشاہدہ کا دعویٰ کیا ہو یا اسے مطلق رکھاہو، ہر صورت میں اس پر حد قذف واجب ہوگئی۔ شوہر کے متعلق بھی اس صورت میں حکم کا ہونا اسی طرح واجب ہے جب وہ اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگادے کیونکہ لعان کا تعلق قذف کے ساتھ ہوتا ہے۔ جس طرح کوڑوں کی سزا کا تعلق اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بیوی کو قذف کرنے کی صورت میں سزا کے طور پر لعان کا اسی طرح تعین ہو جس طرح اجنبی عورت کو قذف کرنے کی صورت میں حد کا تعین ہوا ہے۔ اس بنا پر لفظ قذف کے ساتھ تعلق کے لحاظ سے لعان اور حد کے حکم کی یکسانیت واجب ہے۔ نیز امام مالک کا قول ہے کہ نابینا شخص لعان کرے گا جبکہ وہ کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ” میں نے بیوی کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ “ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ لعان کی یہ شرط نہیں ہے۔ کہ شوہر اپنی بیوی پر یہ الزام لگائے کہ اس نے اسے بدکاری کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ نیز امام مالک نے اس صورت میں بھی لعان واجب کردیا ہے جب شوہر بیوی کے حمل کی نفی کردے۔ یہاں انہوں نے رویت کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اس بنا پر غیر حمل کی نفی کی صورت میں امام مالک پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ اس میں بھی روایت کی شرط عائد نہ کریں۔
Top