Tafseer-e-Mazhari - Al-Ghaafir : 65
هُوَ الْحَیُّ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَادْعُوْهُ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ١ؕ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
هُوَ الْحَيُّ : وہی زندہ رہنے والا لَآ اِلٰهَ : نہیں کوئی معبود اِلَّا : سوائے هُوَ : اس کے فَادْعُوْهُ : پس تم پکارو اسے مُخْلِصِيْنَ : خالص کرکے لَهُ : اس کے لئے الدِّيْنَ ۭ : عبادت اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لئے رَبِّ : پروردگار الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
وہ زندہ ہے (جسے موت نہیں) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تو اس کی عبادت کو خالص کر کر اسی کو پکارو۔ ہر طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام جہان کا پروردگار ہے
ھو الحی لا الہ الا ھو وہی زندہ ہے ‘ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یعنی اس کی حیات ذاتی ہے ‘ وہ حیات ذاتی میں منفرد ہے (اس کی حیات مستعار اور کسی کی عطا کردہ نہیں ہے) وجود اس کا تقاضاء ذات ہے اور واجب ہے ‘ وجود اور وجوب اگرچہ اس کی صفات کمالیہ ہیں ‘ لیکن (جس طرح دوسری صفات اس کی ذات کا پرتو ہیں ‘ اسی طرح) وجود و وجوب بھی اس کی ذات کے پرتو ہیں۔ فادعوہ مخلصین لہ الدین سو تم (سب) لوگ خالص اعتقاد کر کے اسی کو پکارو۔ فَادْعُوْہُ یعنی اس کی عبادت کرو ‘ اپنی ہر حاجت اسی سے ہی مانگو۔ فَادْعُوْہُ میں فَ سببی ہے (یعنی سابق کلام فَ سے بعد والے کلام کا سبب ہے) مطلب یہ ہے کہ اللہ کی صفات مذکورہ اس امر کی موجب ہیں کہ اس کی عبادت کرو۔ الدِّیْن دین سے مراد ہے طاعت ‘ طاعت و عبادت کو خالص کرنے کا یہ معنی ہے کہ عبادت شرک اور ریا سے پاک ہو۔ الحمد اللہ رب العلمین ساری خوبیاں اللہ کیلئے ہیں جو سارے جہان کا رب ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ بعض علماء کے نزدیک لفظ قائلین محذوف ہے ‘ یعنی یہ جملہ کہتے ہوئے اللہ کو پکارو۔ فراء نے کہا : یہ جملہ خبر ہے اور اس خبر کے اندر حکم مضمر ہے ‘ یعنی اللہ کی عبادت کرو اور الحمد اللہ رب العٰلمین کہو۔ مجاہد نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ جو شخص لا الٰہ الا اللہ کہے ‘ اس کو اسکے بعد الحمد اللہ رب العٰلمین بھی کہنا چاہئے۔ یہی مطلب ہے آیت فادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ط اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کا۔ حضرت ابن عباس راوی ہیں کہ ولید بن مغیرہ اور شبیہ بن ربیعہ وغیرہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : محمد ! ﷺ تم اپنے قول کو چھوڑ دو اور باپ دادا کے مذہب پر چلو۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی :
Top