Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 102
وَ اِذَا كُنْتَ فِیْهِمْ فَاَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلٰوةَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَةٌ مِّنْهُمْ مَّعَكَ وَ لْیَاْخُذُوْۤا اَسْلِحَتَهُمْ١۫ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَكُوْنُوْا مِنْ وَّرَآئِكُمْ١۪ وَ لْتَاْتِ طَآئِفَةٌ اُخْرٰى لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَكَ وَ لْیَاْخُذُوْا حِذْرَهُمْ وَ اَسْلِحَتَهُمْ١ۚ وَدَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِكُمْ وَ اَمْتِعَتِكُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْكُمْ مَّیْلَةً وَّاحِدَةً١ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ كَانَ بِكُمْ اَذًى مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَنْ تَضَعُوْۤا اَسْلِحَتَكُمْ١ۚ وَ خُذُوْا حِذْرَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًا
وَاِذَا
: اور جب
كُنْتَ
: آپ ہوں
فِيْهِمْ
: ان میں
فَاَقَمْتَ
: پھر قائم کریں
لَھُمُ
: ان کے لیے
الصَّلٰوةَ
: نماز
فَلْتَقُمْ
: تو چاہیے کہ کھڑی ہو
طَآئِفَةٌ
: ایک جماعت
مِّنْھُمْ
: ان میں سے
مَّعَكَ
: آپ کے ساتھ
وَلْيَاْخُذُوْٓا
: اور چاہیے کہ وہ لے لیں
اَسْلِحَتَھُمْ
: اپنے ہتھیار
فَاِذَا
: پھر جب
سَجَدُوْا
: وہ سجدہ کرلیں
فَلْيَكُوْنُوْا
: تو ہوجائیں گے
مِنْ وَّرَآئِكُمْ
: تمہارے پیچھے
وَلْتَاْتِ
: اور چاہیے کہ آئے
طَآئِفَةٌ
: جماعت
اُخْرٰى
: دوسری
لَمْ يُصَلُّوْا
: نماز نہیں پڑھی
فَلْيُصَلُّوْا
: پس وہ نماز پڑھیں
مَعَكَ
: آپ کے ساتھ
وَلْيَاْخُذُوْا
: اور چاہیے کہ لیں
حِذْرَھُمْ
: اپنا بچاؤ
وَاَسْلِحَتَھُمْ
: اور اپنا اسلحہ
وَدَّ
: چاہتے ہیں
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: جن لوگوں نے کفر کیا (کافر)
لَوْ تَغْفُلُوْنَ
: کہں تم غافل ہو
عَنْ
: سے
اَسْلِحَتِكُمْ
: اپنے ہتھیار (جمع)
وَ
: اور
اَمْتِعَتِكُمْ
: اپنے سامان
فَيَمِيْلُوْنَ
: تو وہ جھک پڑیں (حملہ کریں)
عَلَيْكُمْ
: تم پر
مَّيْلَةً
: جھکنا
وَّاحِدَةً
: ایک بار (یکبارگی)
وَلَا
: اور نہیں
جُنَاحَ
: گناہ
عَلَيْكُمْ
: تم پر
اِنْ
: اگر
كَانَ
: ہو
بِكُمْ
: تمہیں
اَذًى
: تکلیف
مِّنْ مَّطَرٍ
: بارش سے
اَوْ كُنْتُمْ
: یا تم ہو
مَّرْضٰٓى
: بیمار
اَنْ تَضَعُوْٓا
: کہ اتار رکھو
اَسْلِحَتَكُمْ
: اپنا اسلحہ
وَخُذُوْا
: اور لے لو
حِذْرَكُمْ
: اپنا بچاؤ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
اَعَدَّ
: تیار کیا
لِلْكٰفِرِيْنَ
: کافروں کے لیے
عَذَابًا
: عذاب
مُّهِيْنًا
: ذلت والا
اور (اے پیغمبر ﷺ جب تم ان (مجاہدین کے لشکر) میں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو تو چاہیے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ مسلح ہو کر کھڑی رہے جب وہ سجدہ کر چکیں تو پرے ہوجائیں پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی (ان کی جگہ) آئے اور ہوشیار اور مسلح ہو کر تمہارے ساتھ نماز ادا کرے کافر اس گھات میں ہیں کہ تم ذرا اپنے ہتھیاروں اور سامانوں سے غافل ہوجاؤ تو تم پر یکبارگی حملہ کردیں اگر تم بارش کے سبب تکلیف میں ہو یا بیمار ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اتار رکھو مگر ہوشیار ضرور رہنا خدا نے کافروں کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے
صلوٰۃ الخوف کا بیان قول باری ہے ( واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوٰۃ فلتقم طائفۃ منھم معک۔ اور اے نبی ! جب تم مسلمانوں کے درمیان ہو اور ( حالت جنگ میں) انہیں نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہو تو چاہیے کہ ان میں سے ایک گروہ تمہارے ساتھ کھڑا ہو) تا آخر آیت۔ ابوبکر جصاص کہتےیں کہ حضور ﷺ سے صلوٰۃ الخوف مختلف صورتوں میں منقول ہے۔ اس لیے فقہاء امصار کا اس بارے میں اختلاف رائے ہوگیا ہے۔ امام اوب حنیفہ اور امام محمد کا قول ہے کہ ایک گروہ امام کے ساتھ کھڑا ہوگا اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کھڑا ہوگا۔ امام پہلے گروہ کو ایک رکعت دو سجدوں کے ساتھ پڑھائے گا اور اس کے بعد یہ لوگ اپنے دوسرے ساتھیوں کی جگہ چلے جائیں گے پھر دشمن کے سامنے کھڑا ہونے والا دوسرا گروہ آئے گا۔ امام اسے ایک رکعت دو سجوں کے ساتھ پڑھائے گا، امام تو سلام پھیر دے گا اور مقتدی واپس اپنی جگہ چلے جائیں گے۔ پھر دشمن کے مقابلے پر کھڑا ہونے والا گروہ آئے گا اور آ کر ایک رکعت قرأت کے بغیر ادا کرے گا اور تشہد کے بعد سلام پھیر دے گا۔ یہ گروہ پھر دشمن کے سامنے چلا جائے گا اور دوسرا آ کر قرأت اور دو سجدوں کے ساتھ ادا کرے گا۔ قاضی ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ اگر دشمن مسلمانوں کی صفوں اور قبلہ کے درمیان صف آرا ہو تو امام تمام لوگوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر دے گا۔ تمام لوگ امام کے ساتھ تکبیر کہیں گے اور رکوع کریں گے لیکن سجدہ کرتے وقت پہلی صف امام کے ساتھ سجدے میں جائے گی اور دوسری صف دشمن کے سامنے کھڑی رہے گی جب یہ لوگ سجدہ کر کے اٹھ کھڑے ہوں گے تو دوسری صف والے سکدے میں جائیں گے۔ جب یہ لوگ سجدے سے فارغ ہوجائیں گے تو سیدھے کھڑے ہوجائیں گے پھر اگلی صف والے پیچھے آ جائیں گے اور پچھلی صف والے آگے چلے جائیں گے۔ اس کے بعد امام سب کو دوسری رکعت اس طرح پڑھائے گا جس طرح پہلی رکعت پڑھائی تھی۔ اگر دشمن قبلے کی پچھلی طرف ہو تو امام کے ساتھ ایک صف ہوگی جس کا منہ قبلے کی طرف ہوگا دوسری صف کا رخ دشمن کی طرف ہوگا۔ امام کے ساتھ سب تکبیر کہیں گے اور رکوع کریں گے۔ پھر امام کے ساتھ والی صف دو سجدے کرے گی اور اس کے بعد یہ لوگ واپس جا کر دشمن کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوجائیں گے پھر دوسری صف والے آ کر دو سجدے کریں گے اس کے بعد امام سب کو دوسری رکعت پڑھائے گا۔ سب کے سب امام کے ساتھ رکوع میں جائیں گے اور امام کے ساتھ والی صف کے لوگ سجدہ کریں گے پھر یہ لوگ دشمن کے سامنے جا کھڑے ہوں گے اور دسورے لوگ آ کر امام کے ساتھ سجدہ کریں گے اور سجدے سے فارغ ہوجائیں گے پھر امام سب کے ساتھ سلام پھیر دے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ امام ابو یوسف سے صلوۃ الخوف کے بارے تین روایتیں منقول ہیں ایک روایت تو امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے قول کی مطابقت میں ہے۔ دوسری روایت ابن ابی لیلیٰ کے قول کے مطابق ہے جب دشمن قبلے کی سمت موجود ہو۔ اگر دشمن غیر قبلہ کی سمت میں موجود ہو تو اس صورت میں روایت کے مطابق امام ابوحنیفہ کے قول کے ساتھ ہے۔ امام ابو یوسف سے تیسری روایت ہے کہ حضور ﷺ کے بعد ایک امام صلوٰۃ الخوف نہیں پڑھائے گا بلکہ یہ نماز دوسری نمازوں کی طرح پڑھی جائے گی اور اسے دو امام پڑھائیں گے۔ سفیان ثوری سے امام ابوحنیفہ کے قول کی مطابقت میں روایت منقول ہے۔ ان سے ابن ابی لیلیٰ کے قول کی مطابقت میں بھی روایت منقول ہے، ثوری نے کہا ہے کہ اگر تم اس طرح بھی پڑھ لو تو جائز ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ امام ایک گروہ کی امامت کرے گا اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلے میں کھڑا رہے گا۔ امام پہلے گروہ کو دو سجدوں کے ساتھ ایک رکعت پڑھائے گا اس کے بعد امام کھڑا رہے گا اور اس کے ساتھ والا گروہ خود دوسری رکعت ادا کرے گا اور تشہد کے بعد سلام پھیر لے گا۔ پھر یہ لوگ دشمن کے سامنے چلے جائیں گے اور دوسرے گروہ کی جگہ کھڑے ہوجائیں گے۔ اس کے بعد دوسرا گروہ آ جائے گا امام انہیں دو سجدوں کے ساتھ ایک رکعت پڑھائے گا اس کے بعد یہ لوگ تشہد پڑھیں گے اور پھر امام سلام پھیر دے گا۔ یہ لوگ کھڑے ہو کر خود باقیماندہ دوسری رکعت پوری کرلیں گے۔ ابن قاسم کہتے ہیں کہ امام مالک کا قول ہے کہ امام اس وقت تک سلام نہیں پھیرے گا جب تک دوسرا گروہ اپنی رکعت پوری نہیں کرلے گا اس کے بعد امام ان کے ساتھ سلام پھیرے گا۔ امام مالک کا یہ قول یزید بن رومان کی روایت کی بنا پر تھا۔ پھر امام مالک نے قاسم بن محمد کی روایت کی طرف رجوع کرلیا۔ اس روایت کے مطابق امام سلام پھیرے گا پھر دوسرا گروہ قیام کرے گا اور اپنی رکعت پوری کرلے گا۔ امام شافعی نے امام مالک کی طرح قول کیا ہے البتہ انہوں نے یہ کا ہے کہ امام اس وقت تک سلام نہیں پھیرے گا جب تک دوسرا گروہ اپنی رکعت خود مکمل نہیں کرلے گا۔ اس کے بعد امام سب کے ساتھ سلام پھیرے گا۔ حسن بن صالح کا قول امام ابوحنیفہ کے قول کی طرح ہے البتہ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ دوسرا گروہ جب امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ لے گا اور اس کے بعد امام سلام پھیر لے گا تو یہ گروہ وہ خود اس رکعت کی ادائیگی کرے گا جو اس نے امام کے ساتھ نہیں پڑھا تھا اس کے بعد یہ گروہ واپس چلا جائے گا اور پہلا گروہ آ کر اپنی باقی ماندہ نماز کی ادائیگی کرے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں صلوٰۃ الخوف کی کیفیت کے متعلق درج بالا تمام اقوال میں ظاہر قرآن کی موافقت کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر اگر کوئی قول ہے تو وہ امام ابوحنیفہ اور امام محمد قول ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ قول باری ہے ( واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوٰۃ فلتقم طائفۃ منھم معک۔ اس ضمن میں یہ بات موجود ہے کہ دوسرا گروہ دشمن کے سامنے موجود رہے گا اس لیے کہ ارشاد ہے اولیاء خذوا اسلحتھم اور انہیں اپنا اسلحہ اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہیے) اس حکم سے وہ گروہ مراد لینا بھی درست ہے جو دشمن کے سامنے موجود رہتا ہے اور وہ گروہ بھی مراد ہوسکتا ہے جو نماز میں مصرف ہے۔ لیکن اولیٰ اور مناسب بات یہ ہ کہ اس سے مراد دشمن کے سامنے موجود گروہ مراد لیا جائے اس لیے کہ یہ گروہ تمام پڑھنے والے گروہ کی حفاظت پر مامور ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ تمام لوگ امام کے ساتھ نماز میں شامل نہیں ہوں گے اگر سب کے سب امام کے ساتھ ہوتے تو پھر قرآن کے بیان کے مطابق صرف ایک گروہ حضور ﷺ کے ساتھ نہ ہوتا بلکہ کے تمام لوگ آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہوتے۔ یہ بات آیت کے خلاف ہے۔ پھر ارشاد ہوا ( فاذا سجدو فکیکونوا من ورائکم، جب یہ سجدہ کرلیں تو تمہارے پیچھے پہنچ جائیں۔ امام مالک کے مسلک کے مطاق پہلے اپنی نماز پوری کریں گے اور نماز پوری کرنے کے بعد دوسروں کے پیچھے چلے جائیں گے جبکہ آیت میں اللہ کا حکم یہ ہے کہ سجدہ کرنے کے بعد ہی وہ دوسروں کے پیچھے پہنچ جائیں یہ بات ہمارے قول کے موافق ہے۔ پھر ارشاد ہوا ( ولتات طآئفۃ اخری لم یصلو فلیصلوا معک ۔ پھر دوسرا گروہ آ جائے جس نے نماز نہیں پڑھی تھی وہ آ کر تمہارے ساتھ نماز پڑھ لے) یہ بات دو معنوں پر دلالت کرتی ہے اول یہ کہ امام بنیادی طور پر تمام مسلمانوں کے دو گروہ بنائے گا۔ ایک گروہ تو اس کے ساتھ رہے گا اور ایک گروہ دشمن کے مقابلے میں کھڑا ہوگا جس طرح امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔ اس لیے کہ قول باری ہے ( ولتاب طآئفہ اخری) ہمارے مخالف کے مسلک کے مطابق یہ گروہ تو امام کے ساتھ ہوگا اس کے پاس نہیں آئے گا۔ دوسری وجہ یہ قول باری ہے ( کم یصلو فلیصلوا معک) یہ قول نماز کے ہر جز کی نفی کرتا ہے جب کہ ہمارے مخالف کا کہنا ہے کہ سب کے سب امام کے ساتھ نماز شروع کریں گے اس صورت میں وہ نماز کے کسی نہ کسی حصے کی ادائیگی کرلیں گے۔ جب کہ یہ بات آیت کے خلاف ہے۔ ہم نے آیت کے معنی کے یہ وجوہ جو ذکر کیے ہیں وہ امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے مسلک کے موافق ہیں۔ ہمارا یہ مسلک حضور ﷺ سے ثابت سنت کے موافق بھی ہے۔ نیز اصول کے بھی مطابق ہے۔ وہ اس طرح کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے ( انما جعل الامام لیوتم بہ فاذا رکع فارکعوا واذا سجد فاسجدوا، امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے اس لیے کہ جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جائو اور جب وہ سجدے میں جائے تو تم بھی سجدے میں جائو) نیز فرمایا ( انی امرئوقد بدنت فلا تبادرونی یا لرکوع ولا بالسجود۔ میں ایسا شخص ہوں جن کا جسم فربہی کی بنا پر بھاری ہوچکا ہے اس لیے رکوع اور سجدے میں مجھے سے سبقت کرنے کی کوشش نہ کرو) ہمارے مخالف کا مسلک یہ ہے کہ پہلا گروہ اپنی نماز پوری کر کے امام سے پہلے ہی نماز سے باہر ہوجائے گا جبکہ اصول کے لحاظ سے بات یہ ہے کہ مقتدی امام کی متابعت پر مامور ہے اس کے لیے امام سے پہلے نماز سے خروج درست نہیں ہے۔ نیز ممکن ہے کہ امام کو سہو لاحق ہوجائے جس کی بنا پر مقتدی کو بھی سہو لازم ہوجائے۔ اب جو لوگ امام سے پہلے نماز سے نکل چکے ہوں گے ان کے لیے سجدہ سہو کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ قول ایک اور جہت سے اصول کی مخالفت کر رہا ہے وہ یہ کہ مقتدی تو اپنی نماز کی ادائیگی میں مشغول رہے گا اور امام افعال صلوٰۃ چھوڑ کر قیام یا جلوس کی شکل میں ساکن رہے گا اور اس طرح افعال صلوٰۃ میں مقتدی امام کی مخالفت کا مرتکب ہوگا اور امام مقتدی کی خاطر افعال صلوٰۃ کو ترک کرنے کا مرتکب قرار پائے گا۔ یہ بات امامت اوراقتدا دونوں کے مفعہوم کی منافی ہے، امام کو مقتدی کی خاطر افعال صلوٰۃ سے باز رہنا پڑے گا۔ یہ دونوں وجوہ بھی خارج عن الاصول ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ صلوٰۃ الخوف میں جس طرح مشی یعنی چلنے کا جواز ہے اسی طرح امام سے قبل پہلے گروہ کی نماز سے فراغت بھی جائز ہوسکتی ہے اور ممکن ہے کہ نازک حالات کے پیش نظر صلوٰۃ الخفو کی یہ خصوصیت ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ نماز کے اندر مشی کی نظیر اصول میں موجود ہے وہ یہ کہ شکست کھا کر بھاگنے والا سوار بالاتفاق چلتے چلتے نماز پڑھ سکتا ہے۔ اس طرح ہماری اس بات کی اصل اور بنیاد ہے جس پر سب کا اتفاق ہے۔ اس لیے مشی کی بنا پر صلوٰۃ الخوف کے فاسد نہ ہونے کا جواز نکل آیا۔ نیز ہمارے نزدیک یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جس شخص کو نماز کے اندرحدوث لاحق ہوجائے، وہ نماز سے ہٹ کر وضو کرے گا اور نماز کے جس حصے میں اسے حدث لاحق ہوگیا وہیں سے اگلا حصہ ادا کرے۔ حضور ﷺ سے ان کی روایت آئی ہے حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عائشہ ؓ نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا۔ (من قاء اور عف فی صلوتہ فلینصرف ولیتوضاء ولیبن علی ما مضی من صلوتہ جس شخص کو نماز کے اندر قے آ جائے یا اس کی نکسیر پھوٹ جائے تو وہ نماز سے ہٹ کر وضو کرے اور اپنی نماز کا جس قدر حصہ مکمل کرچکا ہے اس سے آگے شروع کر دے۔ اسی طرح ایک انسان رکوع کرتا ہے اور پھر پائوں سے چلتے ہوئے صف میں داخل ہوجاتا ہے اس صورت میں اس کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ جماعت شروع ہوگئی، حضرت ابوبکر ؓ مسجد نبوی میں داخل ہوئے، اس وقت لوگ رکوع میں تھے آپ نے فوراً رکوع کیا اور چلتے ہوئے صف میں شامل ہوگئے۔ جب حضور ﷺ نماز پڑھا کر فارغ ہوئے تو آپ نے حضرت ابوبکر ؓ سے مخالف ہو کر فرمایا۔ ( رادک اللہ حرصاً ولا تعد اللہ تعالیٰ نماز کے لیے تمہارے شوق اور حرص کو زیادہ بڑھا دے ، تمہیں دوبارہ ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے) آپ ﷺ نے انہیں نئے سرے سے نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا، اس طرح اصول میں نماز کے اندر چلنے کے نظائر موجود ہیں لیکن امام سے پہلے نماز سے نکل آنے کی کوئی نظیر موجود نہیں ہے اس لیے یہ جائز نہیں ہوگا۔ نیز نماز میں چلنے پر ہمارے اور امام مالک نیز امام شافعی کے مابین اتفاق ہے اور جب مشی فی الصلوٰۃ پر دلالت قائم ہوگئی تو ہم نے اسے تسلیم کرلیا۔ اس کے علاوہ دوسری بات کو اصول کی موافقت پر اس وقت تک محمول کرنا واجب ہے جب تک امام سے پہلے مقتدی کے خروج عن الصلوٰۃ کے جواز پر دلالت قائم نہ ہوجائے۔ ہماری بیان کردہ بات پر سنت کی جہت سے بھی دلالت ہو رہی ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ہے، انہیں ابودائود نے، انہیں مسددد نے، انہیں یزید بن ذریع نے معمر سے ، انہوں نے زہری سے، انہوں نے سالم سے، انہوں نے اپنے والد سے کہ حضور ﷺ نے ایک گروہ کو ایک رکعت نماز پڑھائی اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کھڑا رہا۔ پھر پہلے گروہ کے لوگ پلٹ کر دوسرے گروہ کی جگہ آ گئے اور دشمن کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ دوسرا گروہ حضور ﷺ کے پیچھے پہنچ گیا اور آپ نے اسے دوسری رکعت پڑھائی پھر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر یہ لوگ کھڑے ہوگئے اور نماز پوری کرلی۔ پھر پہلے گرو نے اپنی نماز پوری کرلی۔ ابودائود نے کہا ہے کہ نافع اور خالد بن معدان نے بھی حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے اس کی روایت کی ہے۔ ابودائود نے مزید کہا ہے کہ مسروق اور یوسف بن مہران نے حضرت ابن عباس ؓ سے یہ قول نقل کیا ہے۔ اسی طرح یونس نے حسن سے اور انہوں نے حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے اسی طرح نماز ادا کی تھی۔ حضرت ابن عمر ؓ کا یہ قول کہ ان لوگوں نے ایک رکعت ادا کی اور ان لوگوں نے ایک رکعت ادا کی۔ یہ اس پر محمول ہے کہ انہوں نے اس طریقے پر ایک ایک رکعت ادا کی جس طرح پر ادا کرنا جائز تھا وہ اس طرح کہ دوسرا گروہ پہلے گروہ کی جگہ پر لوٹ آیا۔ پھر پہلا گروہ آیا اور اس نے ایک رکعت پڑھ لی اور سلام پھیرنے کے بعد واپس چلا گیا، پھر دوسرا گروہ آیا اور ایک رکعت ادا کر کے سلام پھیرلیا۔ اس بات کو خصیف کی روایت میں بیان کیا گیا ہے جو انہوں نے ابوعبیدہ سے نقل کی ہے، انہوں نے حضرت عبداللہ سے کہ حضور ﷺ نے بنو سلیم کی سیاہ پتھروں والی زمین میں صلوٰۃ الخوف ادا کی تھی، آپ قبلہ رخ کھڑے ہوگئے۔ دشمن کا رخ قبلے کی دوسری سمت تھا۔ آپ کے ساتھ ایک صف کھڑی ہوگئی۔ دوسری صف ہتھیار لے کر دشمن کے رخ کھڑی ہوگئی۔ آپ نے تکبیر کہی اور آپ کے ساتھ موجود صف والوں نے بھی تحریمہ باندھ لیا۔ پھر آپ رکوع میں گئے اور آپ کے ساتھ ان لوگوں نے بھی رکوع کیا، پھر یہ لوگ واپس ہوئے اور ہتھیار ہاتھوں میں لے کر دشمن کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ دوسری صف والے اپنی جگہ سے چل کر حضور ﷺ کے ساتھ آ کر قیام میں شامل ہوگئے۔ آپ نے ان کے ساتھ رکوع و سجود کیا اس کے بعد آپ نے سلام پھیر دیا۔ آپ کے ساتھ دوسری رکعت پڑھنے والے چلے گئے اور پہلی صف والے واپس آ گئے انہوں نے ایک رکعت پڑھ کر ہتھیار اٹھا لیے پھر دسورے گروہ کے لوگوں نے آ کر ایک رکعت پڑھ لی، اس طرح حضور ﷺ کی دو رکعتیں ہوئیں اور دونوں گروہوں کی ایک ایک رکعت ہوئی۔ اس روایت میں یہ بیان ہوا کہ دوسرا گروہ پہلی رکعت ادا کرنے سے پہلے واپس چلا گیا تھا یعنی دوسرے گروہ نے حضور ﷺ کے ساتھ دوسری رکعت ادا کی تھی اور پہلی رکعت ادا کرنے سے پہلے واپس محاذ پر چلا گیا تھا، یہ اس صورت میں وضاحت ہے جسے حضرت ابن عمر ؓ نے اپنی روایت میں اجمالاً بیان کیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے جسے ابن فضیل نے خصیف سے ، انہوں نے ابو عبیدہ سے اور انہوں نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کی اے یہ مذکور ہے کہ دوسرے گروہ نے پہلے گروہ کی طرف سے باقیماندہ ایک رکعت کی ادائیگی سے پہلے ہی خود ایک رکعت ادا کرلی تھی۔ لیکن درست بات وہی ہے جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے اس لیے کہ پہلے گروہ کو ابتدا ہی سے نماز باجماعت مل گئی تھی اور دوسرے گروہ کو نہیں ملی تھی اس لیے دوسرے گروہ کے لیے پہلے گروہ سے قبل نماز سے خروج جائز نہیں ہوا۔ نیز پہلے گروہ کے لیے جب یہ حکم تھا کہ وہ نماز دو جگہوں پر ادا کرے تو دوسرے گروہ کے لیے بھی یہی حکم ہوگا کہ وہ دو مقامات پر اپنی نماز مکمل کرے ایک مقام پر نہیں۔ اس لیے کہ صلوٰۃ الخوف کی صورت یہی ہوتی ہے کہ وہ دو گروہوں پر مساوی طور پر منقسم ہوتی ہے۔ امام مالک نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جو انہوں نے یزید بن رومان سے روایت کی ہے، انہوں نے اس کی روایت صالح بن خوات سے کی ہے اور صالح نے حضور ﷺ سے اسے ارسال کی صورت میں تقل کیا ہے۔ یعنی درمیان میں صحابی کا واسطہ موجود نہیں ہے۔ اس میں مذکور ہے کہ دوسرے گروہ نے دوسری رکعت حضور ﷺ سے پہلے ہی پڑھ لی تھی۔ اس بات کی روایت یزید بن رومان کے سوا اور کسی نے نہیں کی ہے۔ یزید کی اس روایت کے خلاف شعبہ نے عبدالرحمن بن القاسم سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے صالح بن خوات سے اور انہوں نے حضرت سہل بن ابی خثمہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے انہیں صلوٰۃ الخوف پڑھائی تھی، ایک صف آپ کے پیچھے کھڑی ہوگئی اور ایک صف دشمن کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ آپ نے انہیں ایک رکعت پڑھائی پھر یہ لوگ چلے گئے اور دسورے لوگ آ گئے آپ نے انہیں ایک رکعت پڑھائی پھر لوگوں نے کھڑے ہو کر ایک ایک رکعت پڑھ لی۔ اس حدیث میں یہ مذکور ہے کہ پہلے گروہ نے حضور ﷺ کے خروج عن الصلوٰۃ کے بعد دوسری رکعت ادا کی۔ یہ روایت اس بنا پر اولیٰ ہے کہ ہم نے گزشتہ سطور میں ان دلائل کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق اصول سے ہے اور جو اس روایت کے حق میں جاتے ہیں۔ یحییٰ بن سعید نے قاسم سے انہوں نے صالح سے یزید بن رومان کی نقل کردہ روایت بھی بیان کی ہے۔ امام مالک کی روایت میں جو انہوں نے یزید بن روامان سے نقل کی ہے یہ بھی مذکور ہے کہ حضور ﷺ نے یہ صلوٰۃ الخوف غزوہ ذات الرقاع کے موقعہ پر پڑھائی تھی۔ یحییٰ بن کثیر نے ابو سلمہ سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے جس میں حضرت جائر ؓ نے یہ فرمایا کہ ہم غزوہ ذات الرقاع میں حضور ﷺ کے ہمراہ تھے۔ آپ نے ان میں سے ایک گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں پھر یہ لوگ چلے گئے اور دوسرے لوگ آ گئے آپ نے انہیں بھی دو رکعتیں پڑھائیں۔ اس طرح حضور ﷺ نے چار رکعتیں پڑھیں اور ہر گروہ نے دو رکعتں پڑھیں۔ یہ بات یزید بن رومان کی روایت کے اضطراب کی نشاندہی کرتی ہے۔ حضور ﷺ نے صلوٰۃ الخوف کی کئی اور صورتیں بھی نقل ہوئی ہیں۔ حضرت ابن مسعود ؓ حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت حذیفہ (رح) اور حضرت زید بن ثابت کا اس پر اتفاق ہے کہ حضور ﷺ نے ایک گروہ کو ایک رکعت پڑھائی اس دوران دوسرا گروہ دشمن کی طرف رخ کیے کھڑا رہا پھر آپ نے دوسرے گروہ کو ایک رکعت پڑھائی۔ ان میں سے کسی نے بھی حضور ﷺ کی فراغت سے پہلے اپنی بقیہ نماز ادا نہیں کی۔ صالح بن خوات نے اس سلسلے میں جو روایت کی ہے اس کا ہم نے پہلے ذکر کردیا ہے، ان سے آگے روایت کرنے والوں کے الفاظ میں اختلاف ہے۔ ابو عیاش زرقی نے حضور ﷺ سے صلوٰۃ الخوف کے سلسلے میں جو روایت کی ہے وہ اس مسلک کی عکاسی کرتی ہے جس کی ہم نے قاضی ابن ابی لیلیٰ اور امام ابو یوسف سے حکایت کی ہے اس کا تعلق اس صورت سے ہے جبکہ دشمن کا قیام قبلے کی طرف ہو۔ ایوب اور ہشام نے ابو الزبیر سے، انہوں نے حضرت جابر ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے اسی مفہوم کی روایت کی ہے۔ اس طرح کی روایت دائود بن حصین نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے بھی کی ہے۔ اسی طرح عبدالمالک نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے۔ قتادہ نے حسن سے ، انہوں نے خطان سے انہوں نے حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے اسی طرح صلوٰۃ الخوف ادا کی تھی۔ عکرمہ بن خالد نے مجاہد سے انہوں نے حضور ﷺ سے یہی روایت کی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت جابر ؓ سے اس سلسلے میں ایک روایت کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے تا ہم اس بارے میں ان دونوں حضرات سے مختلف روایتیں منقول ہیں۔ اس بارے میں ایک اور نوعیت کی روایت بھی منقول ہے۔ ہمیں محمد ابن بکر نے یہ روایت سنائی ہے۔ انہیں ابودائود نے ، انہیں حسن علی نے ، انہیں ابوعبدالرحمن المقری نے ، انہیں حیوہ بن شریح اور ابن ابی لہمیعہ نے، انہیں ابوالاسود نے ، انہوں نے عروہ بن الزبیر کو مروان بن الحکم سے یہ روایت بیان کرتے ہوئے سنا تھا کہ کہ مروان نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہ پوچھا تھا کہ آیا انہوں نے حضور ﷺ کے ساتھ کبھی صلوٰۃ الخوف ادا کی تھی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے اثبات میں اس کا جواب دیا تھا۔ پھر مروان کے پوچھنے پر کہ کب ادا کی تھی۔ آپ نے فرمایا تھا ” غزوہ نجد کے سال “ ۔ حضور ﷺ عصر کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ ایک اروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کی طرف پشت کر کے کھڑا ہوگیا۔ جب حضور ﷺ نے تکبیر تحریمہ کہی تو دونوں گروہوں نے آپ کے ساتھ ہی تحریمہ باندھ لیا۔ پھر آپ نے ایک دفعہ رکوع کیا اور آپ کے ساتھ گروہ نے بھی رکوع کیا پھر آپ سجدے میں گئے آپ کے ساتھ والے لوگ بھی سجدے میں چلے گئے اور دوسرے گروہ میں شالم لوگ دشمن کے سامنے قیام کی حالت میں رہے پھر حضور ﷺ نے قیام کیا اور آپ کے ساتھ والے لوگ کھڑے ہوگئے اور دشمن کے بالمقابل جا کر صف آراء ہوگئے۔ جو گروہ دشمن کے سامنے تھا وہ آگیا اور اس نے رکوع و سجدہ کیا۔ اس دوران حضور ﷺ قیام کی حالت میں رہے، جب یہ لوگ سجدے سے فارغ ہو کر قیام کی حالت میں آ گئے تو آپ نے دوسری دفعہ رکوع کیا۔ یہ لوگ بھی آپ کے ساتھ رکوع میں چلے گئے، پھر آپ سجدے میں گئے اور یہ لوگ بھی آپ کے ساتھ ہی سجدے میں گئے۔ اس کے بعد دشمن کے مقابلے میں صف آرا لوگ آ گئے انہوں نے رکوع اور سجدہ کیا اسی دوران حضور ﷺ قعدہ میں بیٹھے رہے ، جب یہ لوگ قعدہ کی حالت میں آ گئے تو حضور ﷺ نے سلام پھیرا اور آپ کے ساتھ تمام لوگوں نے سلام پھیرلیا۔ اس طرح حضور ﷺ نے دو رکعتیں پڑھییں اور ہر ایک گروہ نے ایک ایک رکعت پڑھی۔ حضور ﷺ سے صلوٰۃ الخوف کی ایک اور صورت بھی مروی ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے اس کی روایت کی ہے، انہیں ابودائود نے، انہیں عبید الرحمن بن معاذ نے، انہیں ان کے والد نے، انہیں الاشعث نے حسن سے، انہوں نے حضرت ابوبکرہ ؓ سے انہوں نے فرمایا کہ حضور ﷺ نے ظہر کی نماز صلوٰۃ الخوف کی صورت میں پڑھائی۔ بعض لوگوں نے آپ کے پیچھے صف باندھ لی اور بعض نے دشمن کے بالمقابل صف سیدھی کرلی۔ آپ نے دو رکعتیں پڑھائیں اور سلام پھیرلیا۔ پھر یہ لوگ دشمن کے بالمقابل جا کر کھڑے ہوگئے اور دسورے لوگ آپ کے پیچھے پہنچ گئے ، آپ نے انہیں دو رکعتیں پڑھائیں اور سلام پھیر دیا۔ اس طرح آپ کی چار رکعتیں ہوئیں اور آپ کے اصحاب کی دو دو رکعتیں جن صلوٰۃ الخوف کی اسی صورت کا فتویٰ دیا کرتے تھے۔ ابودائود کہتے ہیں کہ یحییٰ بن کثیر نے ابو سلمہ سے ، انہوں نے حضرت جابر ؓ بن عبداللہ سے، اور انہوں نے حضور ﷺ سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ سلیمان الیشکری نے بھی حضرت جابر بن عبداللہ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ ابوبکر جصا ص کہتے ہیں ک ہ ہم نے اس سے پہلے یہ بیان کردیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت جابر ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے ہر گروہ کو ایک ایک رکعت پڑھائی تھی اور اس طرح آپ کی دو رکعتیں ہوئی تھیں اور ہر گروہ کی ایک ایک رکعت ہوئی تھی۔ ہمارے نزدیک یہ صورت اس پر محمول ہے کہ جماعت کی شکل میں ایک رکعت پڑھی گئی تھی اور اس کی ادائیگی حضور ﷺ کی اقتدا میں ہوئی تھی۔ قاضی ابن ابی لیلیٰ اور امام ابو یوسف نے، جبکہ دشمن قبلے کی طرف ہو، ابو عیاش زرقی کی روایت کو اختیار کیا جن کا ہم نے پہلے تذکرہ کیا ہے۔ اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ حضور ﷺ نے صلوٰۃ الخوف مختلف طریقوں سے پڑھائی ہو جن کا ذکر مذکورہ بالا روایات میں موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک نماز تو تھی نہیں کہ اس کے بارے میں روایات کے اندر تضاد بیانی اور منافات پیدا ہوجائے بلکہ مختلف مقامات پر صلوٰۃ الخوف کی صورت میں کئی نمازیں پڑھی گئی تھیں۔ ابوعیاش کی روایت میں عسفان کے مقام پر اور حضرت جابر ؓ کی روایت میں بطن النخل کے مقام پر اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں غزوہ نجد کے موقعہ پر ان نمازوں کی ادائیگی ہوئی تھی ۔ اس روایت میں بھی ہے کہ غزوہ ذات الرقاع کے موقعہ پر یہ نماز ادا کی گئی تھی۔ بنو سلیم کی سیاہ پتھروں والی زمین میں اس کی ادائیگی کا ذکر آیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض مقامات پر کئی نمازیں پڑھی گئیں۔ اس لیے کہ حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول روایات میں بعض کے اندر ان کا بیان ہے کہ حضور ﷺ نے ہر گروہ کو دو دو رکعتیں پڑھائی تھیں اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ یہ نماز آپ نے غزوہ ذات الرقاع میں پڑھائی تھی۔ ادھر صاحل بن خوات کی روایت میں بھی مذکور ہے کہ آپ نے اسی غزوہ کے موقعہ پر نماز پڑھائی تھی۔ یہ دونوں روایتیں اگرچہ ایک ہی مقام کا ذکر کرتی ہیں لیکن دونوں میں اس لحاظ سے اختلاف ہے کہ ایک میں نماز کی جس کیفیت کا ذکر ہے وہ دوسری روایت میں بیان کردہ کیفیت سے بالکل جدا ہے۔ اسی طرح ابو عیاش زرقی کی روایت میں ذکر ہے کہ آپ نے عسفان کے مقام پر یہ نماز پڑھائی تھی۔ دوسری طرف حضرت ابن عباس ؓ نے بھی عسفان ہی کے مقام پر اس نماز کا ذکر کیا ہے لیکن نماز کی کیفیت کا ذکر کبھی اس طرح کرتی ہیں جو ابو عیاش کی روایت میں مذکور ہے اور کبھی اس سے متخلف کیفیت کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ان آثار و روایات میں موجود اختلاف اس پر دلالت کرتا ہے کہ حضور ﷺ نے ان نمازوں کو مختلف طریقوں سے ادا کیا ہے جیسا کہ روایات کے اندر مذکور ہے آپ نے ان کی ادائیگی میں وقت کے تقاضے ، احتیاط اور دشمن کے مکرو فریب سے بچائوں کے پہلوئوں کو مد نظر رکھا ہے اور وہ طریقہ اختیار فرمایا ہے جو چوکنا اور خبردار رہنے سے قریب تر تھا جسے بروئے کار لانے کا اللہ نے اس آیت میں حکم دیا ہے۔ ( ولیاخذوا حذرھم واسلحتھم۔ ودالذین کفروا لو تفقلون عن اسلحتکم و امتعتکم فیملون علیکم میلۃ واحدۃ۔ اور وہ بھی چوکنا رہے اور اپنا اسلحہ لیے رہے کیونکہ کفار اس تاک میں ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان کی طرف سے ذرا غافل ہو تو وہ تم پر یکبارگی ٹوٹ پڑیں) اس بنا پر حضور ﷺ سے منقول ان روایات کے اندر فقہاء کے مختلف اقوال کے لیے اجتہاد کی گنجائش پیدا ہوگئی ہے تا ہم ہمارے نزدیک اولیٰ روایت وہ ہے جس میں ظاہر کتاب اللہ اور اصول کی موافقت پائی جاتی ہے ۔ یہ کہنا بھی درست ہے کہ ان تمام صورتوں میں ایک صورت کا حکم باقی اور ثابت ہے اور بقیہ تمام صورتیں منسوخ ہیں اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے تمام صورتیں ثابت اور غیر منسوخ ہیں تا کہ ان کا دائرہ وسیع ہوجائے ان میں آسانی پیدا ہوجائے اور اگر کوئی شخص ان میں سے کسی صورت کو بطور مسلک اختیار کرلے تو اس کے لیے کوئی تنگی نہ ہو۔ اس میں گفتگو کا دائرہ صرف افضل صورت تک محدود رہ جائے گا۔ اس کی مثال روایات کا وہ اختلاف ہے جو اذان میں ترجیع، اقامت اور تثنیہ، تکبیرات عیدین اور تکبیرات تشریق اور اسی قسم کے دوسرے امور کے اندر ہے۔ ان امور میں فقہا کی گفتگو اور بحث کا دائرہ صرف افضل صورت تک محدود ہوتا ہے اس لیے جو فقیہ بھی ان میں سے کوئی صورت بطور مسلک اختیار کرلیتا ہے اس کے خلاف سخت رویہ اپنایا نہیں جاسکتا۔ البتہ ہمارے نزدیک اولیٰ صورت وہ ہوتی ہے جو ظاہر کتاب اللہ اور اصول کے موافق ہو۔ حضرت جابر ؓ اور حضرت ابوبکرہ ؓ کی روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے ہر گروہ کو دو رکعتیں پڑھائی تھیں، اس کی یہ تاویل ہوسکتی ہے کہ آپ اس وقت مسافر نہیں تھے بلکہ مقیم تھے۔ اسی طرح ان دونوں حضرات کا یہ قول کہ آپ نے دو رکعتوں کے درمیان سلام پھیر دیا تھا اس سے یہ مراد لی جاسکتی ہے کہ تشہد کا سلام تھا قعدہ اخیرہ کا سلام نہیں تھا۔ اس لیے ظاہر روایت اس صورت کی جس طور پر مقتضی ہے ظاہر کتاب اللہ اس کی نفی کرتا ہے کیونکہ ارشاد باری ہے ( فلتقم طا ئفۃ منھم معک ولیاخذوا اسلحتھم فاذا سجدوا فلیکونوا من ورائکم۔ ان میں سے ایک گروہ تمہارے ساتھ کھڑا ہو اور اسلحہ لیے رہے ۔ پھر جب وہ سجدہ کرلے تو پیچھے چلا جائے جب کی ظاہر حدیث اس کا موجب ہے کہ یہ لوگ حضور ﷺ کے ساتھ سجدے کے بعد اسی حالت میں نماز پڑھیں جس حالت میں وہ سجدے سے پہلے تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ صحرا میں کس طرح مقیم ہوسکتے تھے، یہ ذات الرقاع کا مقام تھا، یہاں اقامت کی کوئی صورت نہیں تھی اور نہ ہی یہ جگہ مدینہ منورہ سے قریب تھی۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ ممکن ہے آپ جب مدینہ منورہ سے نکلے ہوں تو آپ نے تین دنوں کے سفر کا ارادہ نہ کیا ہو اور آپ جہاں بھی پہنچے ہوں وہاں ایک یا دو دنوں کے سفر ہی کا ارادہ کرتے ہوں۔ اس طرح ہمارے نزدیک آپ کی حیثیت مقیم کی ہے کیونکہ آپ نے تین دنوں کے سفر کا ارادہ نہیں کیا تھا اگرچہ آپ صحرا میں تھے۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ یہ اس وقت کی بات تھی جب فرض نماز دہرائی جاسکتی تھی اور ہمارے نزدیک اب یہ منسوخ ہے۔ علاوہ ازیں اگر حضور ﷺ نے روایت کے مطابق چار رکعتیں پڑھی ہوگی تو یہ صلوۃ الخوف نہیں ہوگی بلکہ یہ نماز بھی تمام دوسری نمازوں کی طرح ہوگی اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ صلوٰۃ الخوف حالت امن میں پڑھی جانے والی تمام نمازوں سے مختلف ہوتی ہے۔ امام ابو یوسف کا قول کہ حضور ﷺ کے بعد اب صلوٰۃ الخوف نہیں پڑھی جائے گی اور اگر کوئی ایسی صورت پیش آ جائے تو پھر ایک امام نہیں پڑھائے گا بلکہ دو امام پڑھائیں گے، تو دراصل ان کا ذہن ظاہر قول باری ( واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوٰۃ ) کی طرف گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس نماز کو اس صورت کے ساتھ مخصوص کردیا ہے جب کہ حضور ﷺ ان کے درمیان موجود ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس طریقے پر نماز کی ادائیگی کی اباحت اس لیے کردی تا کہ لوگوں کو آپ کی اقتدار میں نماز پڑھنے کی وہ سعادت اور فضیلت حاصل ہوجائے جو کسی اور کے پیچھے پڑھ کر کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس لیے آپ کے بعد اب دو اماموں کے ذریعے یہ نماز پڑھی جاسکتی ہے کیونکہ فضیلت کے اعتبار سے دوسرے امام کے پیچھے پڑھی ہوئی نماز کا جو درجہ ہوگا پہلے امام کے پیچھے پڑھی گئی نماز کا بھی وہی درجہ ہوگا اس لیے ایک امام کے پیچھے پڑھنے کے لیے آنے جانے، قدموں سے چلنے اور قبلے کی طرف پیٹھ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ یہ تمام افعال نماز کے منافی ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری ( واذا کنت فیھم) میں خطاب کی حضور ﷺ کے ساتھ تخصیص اس بات کی موجب نہیں ہے کہ اس کا دائرہ صرف آپ کی ذات تک محدود ہے اور دسورے لوگ اس سے خارج ہیں اس لیے کہ جس ذات نے ( واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوٰۃ) فرمایا اسی ذات کا یہ بھی ارشاد ہے۔ (فاتبعوہ، رسول کی اتباع کرو) اس لیے جب ہم نے حضور ﷺ کو ایک عمل کرتے ہوئے دیکھا تو اب ہم پر اس عمل میں آپ کی اتباع لازم ہوگئی اور اتباع بھی اسی طریقے کے مطابق جس طرقے پر آپ نے وہ عمل سرانجام دیا تھا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری ( خذ من اموالھم صدقۃ تطھر ھم) آپ ان کے اموال میں سے صدقہ یعین زکوٰۃ وصول کریں کہ اس کے ذریعے آپ انہیں پاک کردیں) نے یہ واجب نہیں کیا کہ زکوٰۃ کی وصولی کا حکم صرف آپ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے اور آپ کے بعد آنے والے آئمۃ المسلمین اس کی وصولی نہیں کرسکتے۔ اس طرح قول باری ہے ( مواذ جاء ک المومنات یبا یعنک جب ایمان لانے والی عورتیں آپ کے پاس بیعت کرنے کی غرض سے آئی) اسی طرح ( وان احکم بینھم بما انزل اللہ) اور پ ان کے درمیان اس کتاب کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے آپ پر نازل فرمائی ہے) اسی طرح ( فان جائو ک فاحکم بینھم ، اگر یہ تمہارے پاس آئیں تو ان کے درمیان فیصلہ کردیں) ان آیات میں خطاب کی حضور ﷺ کی ذات کے ساتھ تخصیص ہے لیکن آپ کے بعد آنے والے آئمۃ المسلمین اور خلفاء بھی آپ کے ساتھ اس حکم میں مراد ہیں۔ رہ گئی حضور ﷺ کے پیچھے نماز کی فضیلت کے حصول کی بات تو یہ نماز میں چلنے پھرنے ، قبلے کی طرف سے رخ موڑنے اور نماز کے بعض فرض افعال کو ترک کرنے کی اباحت کی علت نہیں بن سکتی ہے۔ اس لیے کہ جب یہ بات معلوم تھی کہ حضور ﷺ کے پیچھے نماز کی ادائیگی فرض نہیں ہے۔ تو پھر یہ کہنا درست نہیں ہوسکتا کہ لوگوں کو فضیلت کے حصول کی خاطر ترک فرض کا حکم دیا گیا تھا جب بات اس طرح ہے تو پھر ادراک فضیلت کو اس حکم کی علت بنانا درست نہیں ہے اور جس طرح حضور ﷺ کے ساتھ صلوٰۃ الخوف کی ادائیگی جائز تھی اسی طرح آپ کے بعد بھی آپ سے منقول طریقوں کے مطابق اس کی ادائیگی کا جواز درست ہے۔ صحابہ کی ایک جماعت سے حضور ﷺ کے بعد صلوٰۃ الخوف کی ادائیگی کا جواز منقول ہے۔ ان میں حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت زید بن ثابت ؓ ، حضرت ابو موسیٰ ؓ ، حضرت حذیفہ ؓ ، حضرت سعید بن العاص ؓ ، حضرت عبدالرحمن بن سمرہ ؓ اور دوسرے حضرات شامل ہیں۔ دوسری طرف کسی صحابی سے کوئی ایسی روایت مروی نہیں ہے جو اس مسلک کے خلاف جاتی ہو، اس جیسی صورت حال کے تحت اجماع کا انعقاد ہوجاتا ہے جس سے اختلاف کی کسی کو گنجائش نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم۔ مغرب کی نماز کے متعلق اختلاف رائے کا بیان امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام مالک، حسن بن صالح، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ اگر مغرب کی نماز صلوٰۃ الخوف کی صورت میں پڑھی جائے تو امام پہلے گروہ کو دو رکعتیں اور دوسرے گروہ کو ایک رکعت پڑھائے گا۔ البتہ امام مالک اور امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ دو رکعتیں پڑھا کر امام قیام کی صورت میں ٹھہرا رہے گا یہاں تک کہ لوگ تیسری رکعت پڑھ کر اپنی نماز مکمل کرلیں گے پھر جب دوسرا گروہ آ جائے گا تو امام انہیں تیسری رکعت پڑھا کر سلام پھیردے گا اور اس کے ساتھ ایک رکعت پڑھنے والے کھڑے ہو کر باقی ماندہ دو رکعتیں پڑھ لیں گے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر امام چاہیے تو قعدہ کی صورت میں بیٹھا رہے یہاں تک کہ پہلا گروہ وہ اپنی نماز مکمل کرلے اور اگر چاہے تو قیام کی حالت میں ٹھہرا رہے ۔ امام دوسرے گروہ کے اختتام صلوٰۃ پر ہی سلام پھیرے گا۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ ایک گروہ امام کے پیچھے صرف باندھ کر کھڑا ہوجائے گا اور دوسرا گروہ دشمن کے بالمقابل صف آرا رہے گا۔ امام انہیں ایک رکعت پڑھائے گا یہ لوگ محاذ پر چلے جائیں گے اور دسورے لوگ آ جائیں گے اور امام انہیں ایک رکعت پڑھائے گا۔ یہ لوگ قعدہ کریں گے۔ جب امام قیام کی حالت میں آ جائے گا تو یہ لوگ پہلے لوگوں کی جگہ مورچوں پر پہنچ جائیں گے۔ جو واپس آ کر رکوع اور سجدہ کریں گے اس دوران امام قیام کی حالت میں رہے گا اس لیے کہ امام کی قرأت ان کی قرأت ہوگی۔ پھر یہ لوگ قعدہ کریں گے پھر قیام کی حالت میں آ کر امام کے ساتھ تیسری رکعت پڑھیں گے جب قعدہ کرلیں اور امام سلام پھیرلے گا تو یہ لوگ مورچوں پر واپس پہنچ جائیں گے اور وہاں موجود لوگ واپس آ کر دو رکعتیں پڑھیں گے۔ اس مسلک کو اختیار کرتے ہوئے سفیان ثوری کا ذہن اس طرف گیا ہے کہ امام پر دو گروہوں کے درمیان نماز میں تعدیل یعنی مساوات قائم رکھنا ضروری ہے اس طرح امام ہر گروہ کو ا کی رکعت پڑھائے گا لیکن ثوری کے ذہن سے یہ بات اس وقت نکل گئی۔ جب انہوں نے پہلے گروہ کے لیے یہ گنجائش پیدا کردی کہ وہ امام کے ساتھ پہلی تیسری رکعت ادا کے گا جبکہ دوسرا گروہ امام کے ساتھ صرف دوسری رکعت ادا کرے گا۔ سفیان ثوری کا یہ بھی قول ہے کہ اگر امام مقیم ہو اور وہ ظہر کی نماز صلوۃ الخوف کی صورت میں پڑھائے تو اس صورت میں پہلے گروہ کو دو رکعتیں اور دسورے گروہ کو دو رکعتیں پڑھائے گا۔ انہوں نے نماز کو لوگوں میں اس طریقے سے تقسیم نہیں کیا کہ ہر گروہ کے بالمقابل امام کے ساتھ ایک ایک رکعت آ جائے۔ سفیان ثوری کا یہ مسلک ایک اور وجہ سے بھی اصول کے خلاف ہے وہ یہ کہ اس میں امام کے قیام کی صورت میں کھڑا رہنے کا حکم ہے تاوقتیکہ پہلا گروہ دوسری رکعت سے فارغ نہ ہوجائے۔ یہ باب اصول کے خلاف ہے جیسا کہ ہم نے سابقہ سطور میں امام مالک اور امام شافعی کے مسلک پر بحث کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ معرکہ کارزار گرم ہونے کے دوران نماز کی ادائیگی کے متعلق فقہا کے درمیان اختلاف رائے کا بیان امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد نیز زفر کا قول ہے کہ جب معرکہ کارزار گزم ہو تو اس دوران نماز نہیں پڑھی جائے گی۔ اگر نماز پڑھتے ہوئے نمازی نے قتال بھی شروع کردیا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ امام مالک اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ قتال کے دوران اگر رکوع اور سجود کی قدرت نہیں ہوگی تو اشارے سے نماز ادا کرے گا۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر قتال کی وجہ سے رکوع کی قدرت نہیں ہوگی تو اس صورت میں ہر رکعت کے بدلے ایک تکبیر کہے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ نماز کے دوران اگر تلوار سے ضرب یانیزے سے وار کرے گا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر مسلسل شمشیر زنی یا نیزہ بازی کرے گا یا کوئی طویل عمل کرے گا تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں قتال کی وجہ سے نماز کے باطل ہوجانے کی دلیل یہ ہے کہ حضور ﷺ نے متخلف مواقع پر صلوٰۃ الخوف ادا کی ہے جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ لیکن آپ نے غزوہ خندق کے موعق پر چار نمازیں نہیں پڑھیں یہاں تک کہ رات کافی گزر گئی۔ پھر آپ نے یہ فرمایا ( ملا اللہ بیوتھم و قبوراھم نارا کما شغلوناعن الصلوٰۃ الوسطیٰ ۔ اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگے سے اس طرح بھر دے جس طرح انوں نے ہمیں صلوٰۃ الوسطیٰ سے مشغول رکھا) پھر آپ نے ان نمازوں کی اسی ترتیب سے قضا دی جس ترتیب سے یہ قضا ہوئی تھیں۔ آپ نے یہ بتایا کہ قتال نے آپ کو نماز کی ادائیگی سے مشغول رکھا۔ اگر قتال کے دوران نماز کی اجازت ہوتی تو آپ انہیں ہرگز ترک نہ کرتے جس طرح آپ نے قتال نہ ہونے کی صورت میں خوف کی حالت کے اندر انہیں ترک نہیں کیا، غزوہ خندق سے پہلے ہی خوف کی حالت میں نماز فرض تھی کیونکہ حضور ﷺ نے غزوہ ذات الرقاع میں صلوٰۃ الخوف پڑھی تھی۔ محمد ابن اسحٰق اور واقدی دونوں نے بیان کیا ہے غزوہ ذات الرقاع غزوہ خندق سے پہلے ہوئی تھی۔ اس لیے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قتال نماز کے منافی ہے اور قتال کے ساتھ نماز درست نہیں ہوتی۔ نیز جب قتال ایسا فعل ہے جس کی وجہ سے خوف نہ ہونے کی حالت میں نماز درست نہیں ہوتی تو خوف کے اندر بھی اس کا حکم وہی ہونا چاہیے جو خوف نہ ہونے کی حالت میں ہے۔ جس طرح حدث ، گفتگو اور اکل و شرب اور نماز کے منافی دوسرے افعال کا حکم ہے خوف کی حالت میں نماز کے اندر قدموں سے چلنے کو صرف اس لیے مباح کردیا گیا ہے کہ نماز کے اندر چلنا کسی بھی حالت میں نماز کے منافی نہیں ہے جیسا کہ ہم نے اس پر سابقہ سطور میں روشنی ڈالی ہے۔ اس لیی نماز کے اندر چلنے کو جبکہ خوف کی حالت ہو، اس کے اصل پر محمول کیا جائے گا۔ قول باری ہے ( فلتقم طائفۃ منھم معک ولیا خذوا اسلحتھم) اس میں یہ احتمال ہے کہ اسلحہ اٹھانے کا حکم ان لوگوں کو دیا جا رہا ہے جو امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوں اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو دشمن کے بالمقابل صف آرا ہوں۔ اس لیے کہ آیت میں دشمن کے بالمقابل صف آرا ہونے والے گروہ کے لیے ضمیر موجود ہے اور آیت کے تسلسل میں اس کے لیے مذکورہ ضمیر قول باری ( طائفۃ اخری لم یصلوا فلیصلوا معک) میں ظاہر ہوگیا ہے۔ ہماری اس بات پر ایک اور وجہ سے بھی دلالت ہو رہی ہے وہ یہ کہ اللہ نے امام کے ساتھ نماز پڑھنے والے گروہ کو ہتھیار رکھنے کا حکم دیا ہے اور یہ نہیں فرمایا کہ یہ لوگ چوکنا رہیں اس لیے کہ دشمن کے بالمقابل ایک گروہ موجود ہے جو ان کی حفاظت کر رہا ہے اور اسی کا ہی چوکنا رہنا کافی ہے۔ پھر فرمایا ( ولتات طآئفۃ اخری لم یصلوا فلیصلوا معک ولیا خذوا خذرھم و اسلحتھم ) اس میں دو طرح سے اس بات کی دلیل موجود ہے کہ قول باری ( فلاتقم طآئفۃ منھم معک ولیاخذوا اسلحتھم) میں وہ گروہ مراد ہے جو امام کے ساتھ نماز میں مشغول ہو۔ ایک تو یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے دوسرے گروہ کا ذکر کیا تو فرمایا ( ولیاخذوا حذرھم واسلحتھم) اگر یہ لوگ اسلحہ رکھنے پر شروع ہی سے مامور ہوتے تو ان کے لیے شروع ہی میں اس کے ذکر پر اکتفا کرلیا جاتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ارشاد باری ہے ( ولیاخذوا حذرھم و اسلحتھم) اللہ تعالیٰ نے دوسرے گروہ کے لیے چوکنا رہنے اور اسلحہ اٹھائے رکھنے کے دونوں حکموں کو یکجا کردیا کیونکہ پہلا گروہ دشمن کے سامنے پنچ چکا تھا اور ابھی نماز کی حالت میں تھا۔ یہ صورت دشمن کو ان کے خلاف کارروئی کرنے کی ترغیب دینے کے لیے بہت موزوں تھی اس لیے کہ دونوں گروہ نماز کی حالت میں تھے۔ اس لیے یہ پوری صورت حالت اس پر دلالت کرتی ہے کہ قول باری ( ولیاخذوا اسلحتھم) میں پہلا گروہ مراد ہے۔ یہ بات اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ جو گروہ شروع سے دشمن کے سامنے صف آرا تھا وہ ابھی نماز میں داخل نہیں ہوا تھا۔ نماز میں اس کا دخول دوسری رکعت میں آ کر شامل ہون کے بعد ہوتا اسی لیے انہیں چوکنا رہنے اور اسلحہ اٹھائے رکھنے کے دونوں احکامات دئیے گئے۔ اب جو گروہ دشمن کے سامنے تھا وہ نماز کی حالت میں تھا اس لیے دشمن کے دل میں ان پر حملہ کرنے کی خواہش کا شدت اختیار کر جانا ایک قدرتی امر تھا کیونکہ دشمن کے علم میں یہ بات تھی کہ یہ لوگ نماز کے اندر ہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب حضور ﷺ عسفان کے مقام پر ظہر کی نماز سے فارغ ہوئے تو خالد بن الولید نے جو اس وقت مشرکوں کے سالار تھے اپنے آدمیوں سے کہا کہ ” ان مسلمانوں کو ابھی ان کی حالت پر چھوڑ دو کیونکہ اس کے بعد ایسی نماز آنے والی ہے، یعنی عصر کی نماز جو انہیں اپنی اولاد سے بھی زیادہ پیار ہے۔ جس یہ لوگ اس نماز میں مصروف ہوجائیں گے تو ہم ان پر حملہ کردیں گے “۔ اسی بنا پر حضور ﷺ نے عصر کی نماز صلوٰۃ الخوف کی صورت میں پڑھی تھی اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں چوکنا رہنے اور ہتھیار اٹھائے رکھنے کے دونوں احکامات دیے تھے۔ واللہ اعلم ۔ جب نماز میں ہتھیار اٹھائے رکھنے کا جواز ہوگیا اور یہ نماز کی حالت میں گو نہ عمل اور کام کی صورت تھی تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ نماز میں عمل قلیل قابل گرفت نہیں ہے۔ قول باری ہے ( ودالذین کفروا تو تغفلون عن اسلحتکم و امتعتکم فیمیلون علیکم میلۃ واحدۃ ، کافر تو اس تاک میں ہیں کہ تم ذرا اپنے ہتھیاروں اور سامان کی طرف سے غافل ہو جائو اور پھر وہ یکبارگی تم پر ٹوٹ پڑیں) ۔ اس میں اطلاع دی گئی ہے کہ مشرکین کس بات کا عزم کیے بیٹھے تھے یعنی وہ اسی موقعہ کی تاک میں تھے کہ مسلمان نماز میں مشغول ہوجائیں تو ان پر یکبارگی حملہ کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو مشریکن کی اس نیت سے آگاہ کردیا اور مسلمانوں کو ہشیار اور چوکنا رہنے کی ہدایت کردی۔ قول باری ہے ( ولا جناح علیکم ان کان بکم اذیً من مطر او کنتم مرضیٰ ان تضعوا اسلحتکم وخذو حذرکم۔ البتہ اگر تم بارش کی وجہ سے تکلیف محسوس کرو یا بیمار ہو تو اسلحہ رکھ دینے میں مضائقہ نہیں مگر پھر بھی چوکنے رہو۔ آیت میں اسلحہ رکھ دینے کی اباحت ہے کیونکہ بیماری کی حالت میں نیز کیچڑ اور گارے کی صورت میں اسلحہ اٹھائے رکھنے میں بڑی مشقت اور دقت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بارش کی وجہ سے تکلیف اور بیماری دونوں کو یکساں درجے پر رکھا ہے اور ان دونوں صورتوں میں اسلحہ رکھ دینے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص کیچڑ اور گارے کے درمیان ہو اور نماز کا وقت آ جائے اس کے لیے اشارے سے نماز ادا کرنا جائز ہے۔ جس طرح بیماری کی حالت میں اس کی اجازت ہے جبکہ اس کے لیے رکوع و سجود ممن نہ رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس صورت میں جس کا ہم نے ذکر کیا ہے بارش کی وجہ سے تکلیف اور بیماری دونوں کو یکساں درجے پر رکھا ہے لیکن اس کے باوجود دشمن سے چوکنا رہنے کی ہدایت بھی فرمائی ہے۔ نیز یہ کہ وہ اپنے ہتھیاروں سے غافل نہ ہوجائیں اس لیے ان کے ہتھیار ان کے قریب ہی ہونے چاہئیں کہ اگر دشمن حملہ کر دے تو وہ اپنے ہتھیار اٹھا سکیں۔ ( فاذا قضیتم الصلوٰۃ فاذکروا اللہ قیاماً و قعوداً وعلی جنوبکم۔ جب تم نماز سے فارغ ہو جائو تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے رہو۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر مطلقاً ذکر کے الفاف بیان فرمائے ہیں اور اس سے نماز مراد لی ہے۔ ارشاد ہے ( الذین یذکرون اللہ قیاماً و قعوداً وعلی جنوبھم ۔ جو لوگ اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے یاد کرتے ہیں) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے منقول ہے کہ انہوں نے لوگوں کو مسجد کے اندر اونچی آواز میں ذکر کرتے ہوئے دیکھا، تو فرمایا : یہ ناپسندیدہ حرکت کیسی ہے۔ “ لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ( الذین یذکرون اللہ قیامات و قعوداً و علی جنوبھم) یہ سب کر حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : بھلے لوگو ! اس سے مراد فرض نماز ہے۔ اگر تم فرض نماز کھڑے ہو کر پڑھ نہیں سکتے، تو بیٹھ کر پڑھ لو، اگر بیٹھ کر بھی نہیں پڑھ سکتے تو لیٹ کر پڑھ لو) اس آیت کے متعلق حسن سے منقول ہے کہ اس میں مریض کے لیے رخصت ہے کہ وہ بیٹھ کر نماز پڑھ لے اگر بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا تو اپنے پہلوں پر یعنی لیٹ کر پڑھ لے۔ اس لیے اس ذکر سے نفس نماز مراد ہے اس لیے کہ نماز بھی تو ذکر اللہ ہے اور نماز میں اذکار مسنونہ اور مفروضہ دونوں موجود ہیں۔ لیکن قول باری ( فاذا قضیتم الصلوٰۃ) میں جس ذکر کا بیان ہے اس سے نماز مراد نہیں ہے۔ اس ذکر کی دو میں سے ایک صورت ہے یا تو ذکر بالقلب ہے یعنی اللہ کی عظمت، اس کے جلال اور اس کی قدرت پر غورو فکر کرنا۔ نیز اس کی مخلوقات و مصنوعات میں اس کی ذات و صفات اور کمال و جمال صنعت کی نشاندہی کرنے والے دلائل کا بغور جائزہ لینا اور یا ذکر باللسان ہے۔ یعنی اس کی تسبیح و تقدیس اور تعظیم کے الفاظ اپنی زبان سے ادا کرنا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ترک ذکر کے سلسلے میں کی کی معذرت قبول نہیں کی جائے گی۔ البتہ جس شخص کی عقل ماری گئی ہو وہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ ذکر کی ان دونوں صورتوں میں سے پہلی صورت اعلیٰ و اشرف ہے۔ اس ذکر سے نماز مراد نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نماز سے فراغت کے بعد اس ذکر کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ( فاذا قضیتم الصلوٰۃ فاذکرواللہ قیاماً و قعودًا و علی جنوبکم)
Top