Anwar-ul-Bayan - Ibrahim : 15
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ
مَنْ : جو كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت نُوَفِّ : ہم پورا کردیں گے اِلَيْهِمْ : ان کے لیے اَعْمَالَهُمْ : ان کے عمل فِيْهَا : اس میں وَهُمْ : اور وہ فِيْهَا : اس میں لَا يُبْخَسُوْنَ : نہ کمی کیے جائیں گے (نقصان نہ ہوگا)
جو شخص دنیا کو اور اس کی زینت کو چاہتا ہے ہم اس کے اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں پورا پورا دے دیں گے۔ اور اس میں ان پر ظلم نہ ہوگا۔
کافروں کے اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں دے دیا جاتا ہے آخرت میں کوئی ثواب نہ ملے گا ان آیات میں اول تو ان لوگوں کی مذمت فرمائی جو دنیا کے طالب ہیں دنیا ہی ان کا مقصود ہے اور دنیا کو مقصود بنا لینے کی وجہ سے آخرت کے طلب گار نہیں وہ ایمان لانے کے روا دار نہیں ‘ دنیا اور دنیا کی زینت ہی ان کے نزدیک سب سے بڑی چیز ہے ایسے لوگ جو کچھ ایسے اعمال کرلیتے ہیں جو نیکی کے دائرے میں آسکتے ہیں مثلاً صلۂ رحمی یا فقراء و مساکین پر خرچ کرنا وغیرہ ‘ دنیا ہی میں ان کا بدلہ دے دیا جائے گا ‘ اور جب یہ اعمال آخرت میں حبط ہوجائیں گے یعنی ان کے عوض کچھ نہ ملے گا۔ اور دنیا داری کے اصول پر جو کام کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ان میں ہماری کامیابی ہے وہ بھی وہاں بےفائدہ اور ناکارہ ثابت ہوں گے۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کسی مؤمن کی ایک نیکی کے عوض میں بھی کمی نہ فرمائے گا اس کی وجہ سے دنیا میں بھی عطا فرماتا ہے اور آخرت میں بھی دے گا لیکن کافر نے جو نیکیاں کیں جن میں اللہ کی رضا کا دھیان رکھا ان نیکیوں کے عوض اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں دے دیتا ہے یہاں تک کہ وہ جب آخرت میں پہنچے گا تو اس کے پاس ایک نیکی بھی نہ ہوگی۔ جس پر اسے ثواب دیا جائے۔ (رواہ مسلم) کافر جو دنیا میں کچھ ایسے عمل کرتے ہیں جو نیکی کی فہرست میں آسکتے ہیں مثلاً مریضوں کا مفت علاج کردیا۔ شفا خانے بنوا دئیے ‘ سڑکیں تیار کردیں پانی کی سبیلیں لگا دیں ان کی وجہ سے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں آخرت میں ان چیزوں کا ثواب ملے گا بلکہ مسلمانوں کی زبان سے جو یہ سنتے ہیں کہ جو مسلمان نہیں اسے آخرت میں دائمی عذاب ہوگا تو کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ کو مانتے ہیں اور اللہ کی رضا کے لئے ایسے ایسے کام کرتے ہیں پھر ہمیں عذاب کیوں ہوگا ؟ ان لوگوں کو واضح طور پر بتادیا کہ دنیا میں جو نیک عمل ہیں ان کا بدلہ تمہیں دنیا ہی میں دے دیا جائے گا اور کفر اور معصیت کی وجہ سے تمہارے لئے عذاب ہی عذاب ہے۔ ایک جاہلانہ اعتراض کا جواب : اس سے بہت سے مسلمانوں کی اس غلط فہمی کا بھی جواب ہوگیا کہ کافر تو مزے اڑاتے ہیں اور ہم تکلیف میں ہیں ‘ اول تو نہ سارے مسلمان تکلیف میں ہیں اور نہ سارے کافر راحت میں ہیں دوسرے کافر کو آخرت میں آرام ملتا ہی نہیں اس کے اعمال کا بدلہ یہیں دیا جا رہا ہے اور تمہارے اعمال کا بدلہ محفوظ کرلیا گیا ہے۔ پھر جو تکلیفیں ہیں ان پر بھی ثواب ملے گا پھر کس چیز کا واویلا ہے ‘ اللہ تعالیٰ کے قانون کو سمجھو ‘ کافروں کو دیکھ کر کیوں رال ٹپکاتے ہو ‘ بعض جاہل کہہ دیتے ہیں جو بجلی گرتی ہے وہ مسلمان ہی کے آشیانہ کو تلاش کرتی ہے اور بعض جاہل کہتے ہیں کہ غیروں کے لئے محلات اور قصور اور مسلمانوں سے صرف وعدہ حور یہ گمراہی کی باتیں ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے قانون پر اعتراض ہے ‘ قصداً اعتراض کرے تو کفر عائد ہوجاتا ہے ‘ ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کے سامنے حاضر ہوئے اس وقت آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے آپ کے نیچے کوئی بچھونا نہیں تھا اور آپ کے جسم میں چٹائی کی بناوٹ کے نشان پڑگئے تھے اور تکیہ بھی چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ اللہ سے دعا کیجئے تاکہ وہ آپ کی امت کو مالی وسعت عطا فرما دے۔ کیونکہ فارس و روم کے لوگوں کو مالی وسعت دی گئی ہے حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے آپ ﷺ نے فرمایا اے خطاب کے بیٹے تم ابھی تک ان ہی خیالات میں مبتلا ہو ؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کی مرغوب چیزیں انہیں دنیا میں دے دی گئی ہیں۔ ایک اور روایت میں یوں ہے کہ کیا تم لوگ اس پر راضی نہیں ہو کہ مرغوب چیزیں ان کے لئے دنیا میں ہوں اور ہمارے لئے آخرت میں ہوں۔ (رواہ البخاری کما فی المشکوٰۃ ص 447)
Top