Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 51
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ وَ یَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا هٰۤؤُلَآءِ اَهْدٰى مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يُؤْمِنُوْنَ : وہ مانتے ہیں بِالْجِبْتِ : بت (جمع) وَالطَّاغُوْتِ : اور سرکش (شیطان) وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) هٰٓؤُلَآءِ : یہ لوگ اَهْدٰى : راہ راست پر مِنَ : سے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) سَبِيْلًا : راہ
کیا نہیں دیکھا آپ نے ان لوگوں کی طرف جن کو دیا گیا کچھ کتاب سے وہ ایمان رکھتے ہیں جبت اور طاغوت پر اور وہ کہتے ہیں ان لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا کہ یہ زیادہ ہدایت والے ہیں ان لوگوں سے جو ایمان لائے
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی قباحتوں کا تذکرہ کر کے ان کی مذمت بیان فرمائی تھی۔ آج کی آیات بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہیں ، یہاں بھی ان کی ایک سازش کا ذکر ہے جو انہوں نے کفار کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف کی۔ جھوٹ ، مکر اور فریب ان کی سرشت میں داخل تھا۔ اللہ کے نبی کے ساتھ دشمنی اور پھر آپ کی توہین کرنا ان کا روزمرہ کا معمول تھا۔ سورۃ نساء کے بعد اگلی سورة مائدہ میں بھی یہ ذکر موجود ہے کہ اہل اسلام کے سب سے بڑے دشمن یہودی ہیں ، اور ان کے بعد پھر مشرک اور نصاریٰ درجہ بدرجہ آتے ہیں۔ قرآن پاک میں موجود ہے ” لتجدن اشد الناس عداوۃً للذین امنوا الیہود والذین اشرکوا “ یعنی اسلام دشمنی میں یہود سب سے بڑھے ہوئے ہیں ، ان کے بعد مشرکین کا نمبر ہے اور پھر نصاریٰ کا۔ بہرحال آج کی آیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی شرارتوں کا ذکر کیا ہے۔ شان نزول مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لانے کے بعد حضور ﷺ نے مدینے کے قبائل ، جن میں یہودی بھی شامل تھے ، کے ساتھ میثاق مدینہ کے نام سے ایک معاہدہ کیا تھا جس کے مطابق یہ طے پایا کہ اہل اسلام اور مدینہ کے گرد و نواح میں رہنے والے تمام قبائل اپنے اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے آپس میں اتفاق و اتحاد کی فضا برقرار رکھیں گے اور اگر مدینہ پر باہر سے حملہ ہوا تو سب مل کر اس کا دفاع کریں گے۔ یہودیوں کا ایک بڑا عالم کعب بن اشرف تھا۔ مدینہ کے قریب ہی اس کا اپنا قلعہ اور گاؤں تھا۔ صاحبِ علم اور دولت مند تاجر تھا۔ اس کی تجارت اور سودی کاروبار پورے عرب میں پھیلا ہوا تھا۔ چونکہ یہ بااثر آدمی تھا اس لیے یہودیوں کی طرف سے میثاق مدینہ پر اس نے بھی دستخط کیے تھے اور اس معاہدہ کی پابندی کا عہد کیا تھا۔ اس کے باوجود یہ شخص دل سے مسلمانوں کے ساتھ بغض رکھتا تھا اور ہمیشہ انہیں درپردہ نقصان پہنچانے کی کوشش میں رہتا تھا۔ اس سے پہلے جنگ بدر میں مسلمان کامیاب ہوچکے تھے مگر احد پر کفار کا پلہ بھاری رہا۔ اس شخص نے موقع غنیمت جانا اور سترآدمیوں کا ایک وفد لیکر مکہ پہنچا۔ ابوسفیان سے ملاقات کر کے اسے یہ عندیہ دیا کہ ہم محمد اور اہل اسلام سے فیصلہ کن جنگ کرنا چاہتے ہیں ، آپ ہماری مدد کریں ، ہم مدینہ کے معاہدہ کو ختم کرنا چاہتے ہیں ابو سفیان کو کعب بن اشرف کی بات پر یقین نہ آیا۔ اس نے کہا میں تمہاری بات کو اس صورت میں سچا ماننے کے لیے تیار ہوں جب کہ تم ہمارے بتوں کے سامنے سجدہ کرو۔ اسلام دشمنی کے غیظ و غضب میں اس نے سجدہ بھی کردیا۔ اس کے بعد مشرکین مکہ نے کہا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ ہمارا دین اچھا ہے یا مسلمانوں کا ہم بیت اللہ شریف کے متولی ہیں طواف کرتے ہیں۔ جانور ذبح کرتے ہیں ، حاجیوں کی خدمت کرتے ہیں ، مگر محمد اپنے اباؤ اجداد کے دین کو ترک کرچکے ہیں۔ بہرحال انہوں نے کعب بن اشرف سے یہ تصدیق کر والی کہ ان کا طریقہ مسلمانوں کی نسبت اچھا ہے اپنی مزید تسلی کے لیے انہوں نے کہا کہ اچھا اب ایسا کرتے ہیں کہ تیس آدمی ہمارے اور تیس آدمی تمہارے کعبۃ اللہ کے ساتھ چمٹ کر قسمیں اٹھائیں اور عہد کریں کہ دونوں فریق مسلمانوں کے خلاف جنگ میں پوری پوری کوشش اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ چناچہ کعب بن اشرف نے مشرکین کی یہ شرط قبول کرلی اور فریقین کے تیس تیس آدمیوں نے بیت اللہ کے روبرو مسلمانوں کے خلاف معاہدہ کرلیا۔ آج کی آیات میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ کر کے یہودیوں کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ جِبت اور طاغوت فرمایا الم تر الی الذین اوتو نصیباً من الکتب کیا آپ نے نہیں دیکھا ان لوگوں کی طرف جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ مکمل تورات تو ان کے پاس نہیں ہے۔ انہوں نے تو اس کو خلط ملط کردیا ہے ، تاہم اس کا کچھ نہ کچھ اصل حصہ موجود ہے ، ان یہودیوں کا حال یہ ہے کہ یومنون بالجبت والطاغوت یہ لوگ جبت اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں۔ جبت کا لفظ پورے قرآن پاک میں صرف ایک اسی جگہ استعمال ہوا ہے ، البتہ طاغوت کا لفظ مختلف سورتوں میں سات مرتبہ آیا ہے۔ عام مفسرین جبت کا معنی بت اور طاغوت کا معنی شیطان کرتے ہیں لہٰذا مطلب یہ ہوا کہ یہودی بتوں اور شیطان کے پجاری ہیں۔ جیسا کہ ان آیات کے شان نزول میں بیان ہوا کہ کعب بن اشرف اور اس کے ساتھیوں نے اسلام دشمنی کی بنا پر مشرکین مکہ کے کہنے پر بتوں کو بھی سجدہ کیا۔ طاغوت طغویٰ کے مادہ سے ہے جس کا معنی سرکش ہو کر د سے بڑھ جانا ہے۔ اور یہ شیطان پر ہی صادق آتا ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ حبشی زبان میں طاغوت شیطان ہی کو کہتے ہیں۔ مفسرین نے جبت کا معنی سحر بھی کیا ہے۔ اس ضمن میں یہودیوں کا حال سورة بقرہ میں بیان ہوچکا ہے کہ انہوں نے اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال کر سحر یعنی جادو حاصل کیا ” واتبعوا ماتتلوا الشیطین علی ملک سلیمن “ اس لحاظ سے جبت کا معنی جادو بھی ہے۔ سیرت کی معروف کتاب کے مؤلف امام ابن ہشام (رح) فرماتے ہیں الجبت عندالعرب ماعبد من دون اللہ یعنی عربوں کے نزدیک ہر وہ چیز جبت ہے کہ اللہ کے سوا جس کی پوجا کی جائے اور ہر وہ چیز طاغوت ہے کل ما اضل منالحق جو راہ حق سے گمراہ کرنے والی ہو۔ جبت کی جمع جبوت اور طاغوت کی جمع طواغیت آتی ہے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق امام ابن ہشام (رح) فرماتے ہیں کہ جبت کا معنی سحر اور طاغوت کا معنی شیطان ہے۔ سورة بخل میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی پر یہ حکم نازل فرمایا ان اعبدواللہ واجتنبوا الطاغوت “ یعنی اللہ کی عبادت کرو او طاغوت کی پرستش سے باز آ جاؤ ۔ گویا ہر سرکش اور حق سے گمراہ کرنے والا طاغوت ہے خواہ وہ شیطان ہو یا کوئی دوسری شخصیت ملوک اکثر طاغوت کی نمائندگی کرتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے حکم کی بجائے اپنا حکم چلاتے ہیں اور لوگوں کو راہ راست سے ہٹاکر غلط بات ماننے پر مجبور کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں لا تحلفوا باباء کم ولا بالطواغیت یعنی اپنے اباؤ اجداد یا کسی طاغوت کے نام کی قسم مٹ اٹھاؤ بہرحال گمراہ کرنے والی تمام طاقتیں طاغوت ہیں اور شیطان ان کا سرغنہ ہے۔ حق پر کون اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، دیکھو ! یہ اہل علم کا حال ہے کہ طاغوت اور جبت پر یقین رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے سچے نبی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ مشرکین کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رکھا ہے ویقولون للذین کفروا کفار کے متعلق کہتے ہیں۔ ہؤلاء اہدی من الذین امنوا سبیلاً کہ اہل ایمان کی نسبت یہ زیادہ راہ راست پر ہیں ، یعنی مکہ کے کافروں اور مشرکوں کا دین مسلمانوں کے دین سے بہتر ہے۔ یہ کعب بن اشرف ولاے واقعہ کی طرف ہی اشارہ ہے کہ اس نے مشرکین کے استفسار پر بتایا تھا کہ تمہارا دین محمد ﷺ کے طریقے سے اچھا ہے۔ اس شخص کے متعلق میں نے پہلیعرض کیا کہ بڑا ظالم آدمی تھا۔ خودشاعر تھا اور دوسروں سے بھی حضور ﷺ کی مذمت میں شعر کہلواتا تھا۔ اس کی ضلالت کی انتہا یہ تھی کہ سودی قرضے دیتا تھا اور عام چیزوں کے علاوہ لوگوں کی عورتوں کو بھی رہن رکھ لیتا تھا۔ بہرحال اس شخص نے میثاق مدینہ کو توڑا تو حضور ﷺ کی اجازت سے محمد ابن مسلمہ ؓ اور ان کے ساتھیوں نے اسے قتل کردیا۔ خدا کی لعنت گزشتہ آیات میں گزر چکا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے یہودیوں کو فرمایا تھا یا معشرالیہود ! اے یہودیو ! تم جانتے ہو کہ میں خدا کا سچا نبی ہوں اور جو کچھ میں لے کر آیا ہوں ، وہ برحق ہے لہٰذا تم ایمان لے آؤ تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو مگر ان بدبختوں نے کفر پر اصرار کیا ، جس کا نتیجہ یہ ہوا اولیک الذین لعنہم اللہ اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی و من یلعن اللہ فلن تجدلہ نصیراً اور جس پر اللہ تعالیٰ لعنت کر دے ، اس کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ لعنت کا مفہوم لعنت کا لفی معنی بعد ہوتا ہے اور اصطلاحاً اسے اللہ کی رحمت سے دوری پر محمول کیا جاتا ہے۔ یہ لفظ جب کافر کے حق میں استعمال ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسا شخص اللہ کی رحمت سے ابدی طور پر دور یعنی محروم ہوگیا اور سزا کا مستحق ٹھہرا جیسے سورة بقرہ میں کفار کے متعلق آیا ہے ” اولیک علیہم لعنۃ اللہ والملکۃ والناس اجمعین “ ایسے لوگوں پر اللہ کی اس کے فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ البتہ جب لعنت کا لفظ گنہگار مومن کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ سزا کا مستحق ٹھہرا اگرچہ ابدی طور پر نہیں مگر گناہ کی سزا بھگتنے کے بعد جنت میں داخلہ مل جائیگا بہرحال ایسے شخص کا درجہ کم ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سے بُرے کاموں پر لعنت کا لفظ استعمال کیا ہے جیسے ” الا لعنۃ اللہ علی الظلمین “ یعنی ظلم کرنے والوں پر خدا کی لعنت ہو۔ حضور ﷺ کے ارشادات میں بھی بعض کاموں پر لعنت آئی ہے جیسے فرمایا لعن اللہ من لعن والدیہ یا فرمایا لعن اللہ من سب والدیہ یعنی اس شخص پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو جو اپنے والدین پر لعنت کرتا ہے یا انہیں گالی دیتا ہے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا لعن اللہ الواصلۃ والمسترصلۃ اس عورت پر بھی لعنت ہے جو اپنے سر کے بال دوسری عورت کو دیتی ہے تاکہ وہ بھی اپنے بال لمبے کرے اور جو عورت ایسا کرتی ہے وہ بھی معلون ہے۔ ایشم یادھاگے کا پر اندہ بنا کر ان کو لمباکر لینا جائز ہے ، مگر دوسری عورت کے بال لے کر اپنے بالوں کو لمبا کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح گودنے گدوانے والوں یا جسم پر نیل کے داغ لگوانے والوں پر بھی لعنت کی گئی ہے۔ آپ 1 ؎ قرطبی ص 238 ج 14 و احکام القرآن للحصاص ص 273 ج 3 (فیاض نے لعن اللہ المصورین بھی فرمایا یعنی فوٹو کھینچنے والے بھی ملعون ہیں۔ لعن اللہ من عمل عمل قوم لوطٍ جس نے قوم لوط کا عمل کیا وہ بھی لعنت کا مستحق ہوا۔ اس بات کی وضاحت ہوجائے کہ کسی شخص معین پر اس وقت تک لعنت کا اطلاق نہیں کرنا چاہیے جب تک کہ اس کے متعلق صریحاً علم نہ ہو کہ اس کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے جیسے ابوجہل ، ابولہب یا شیطان لعین وغیرہ ۔ ایک شخص واقعی کافر ہے ، مگر کیا معلوم کہ مرنے سے پہلے وہ ایمان اختیار کرلے ، لہٰذا اس پر بھی لعنت درست نہیں جب تک کہ اس کا خاتمہ علی الکفر نہ ہوجائے۔ اسی لیے امام ابوحنیفہ (رح) یزید پر لعنت بھیجنے کو جائز قرار نہیں دیتے کیونکہ اس کا کفر پر مرنا ثابت نہیں۔ البتہ بعض افعال پر لعنت بھیجی جاسکتی ہے جیسے حضور ﷺ نے فرمایا لعن اللہ السارق اللہ چور پر لعنت کرے۔ ” لعنۃ اللہ علی الکذبین “ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو۔ بہرحال فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر ان کے افعال قبیحہ کی وجہ سے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ لعنت کر دے ، وہ ذلیل و خوار ہو کر رہے گا اور اس کا کوئی حامی و ناصر نہیں ہوگا۔ یہودی ایسے خبیث لوگ ہیں جو اپنی نفسانی اغراض ، ضد اور عناد کی وجہ سے اسلام کو باطل اور کفر کو حق قرار دیتے ہیں ، ان کو اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت دونوں جگہ ذلیل و خوار کرے گا اور وہ اللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکیں گے۔ خدائی میں حصہ آگے اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے متعلق فرمایا امر لہم نصیبٌ من الملک کیا ان کا خدا کی خدائی میں کچھ حصہ ہے ، کیا انہیں یہ اختیار حاصل ہے کہ حق کو باطل اور باطل کو حق قرار دے دیں۔ ہرگز نہیں ، انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی بادشاہت میں کوئی حصہ عطا نہیں کیا اور نہ انہیں کوئی اختیار دیا ہے البتہ اگر ان کے پاس کوئی اختیار بھی ہوتا۔ فاذ الا یوتون الناس نقیراً اگر کوئی چیز ان کے پاس ہوتی بھی تو یہ اس قدر بخیل واقع ہوئے ہیں کہ کسی کو ایک تِل بھی نہ دیتے۔ سورة بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے عام لوگوں کے بخل کا ذکر فرمایا ہے قل لو انتم تملکون خزائن رحمۃ ربی اے پیغمبر (علیہ السلام) ! آپ ان سے فرما دیں کہ اگر تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانے بھی ہوتے ” اذا لا مسکتم خشیۃ الانفاق تو تم انہیں خرچ ہونے کے خوف سے روک رکھتے۔ وکان الانسان قتوراً کیونکہ انسان تنگ دل واقع ہوا ہے یہاں پر بھی فرمایا کہ اگر خدا کی بادشاہ میں بہت کچھ حصہ ہوتا تو تم کسی کو ایک تِل کے برابر یعنی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی دینے کے لیے تیار نہ ہوتے۔ سلسلہ نبوت دراصل یہودی حسد کا شکار ہوچکے تھے۔ ان کو امید تھی کہ نبی آخر الزمان نبی اسحاق میں سے آئے گا ، مگر جب آخر میں سلسلہ نبوت بنی اسماعیل میں آ گیا تو یہ لوگ حسد کی آگ میں جل گئے۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ ” حسداً من عند انفسہم “ کے الفاظ آتے ہیں۔ نبوت کا سلسلہ ہزاروں سال تک بنی اسرائیل میں جاری رہا مگر یہ انعام ہمیشہ کے لیے تو انکے لیے مخصوص ہو کر نہیں رہ گیا تھا بلکہ ” واللہ یختص برحمتہ من یشائ “ اللہ جسے چاہے اپنی رحمت کے لیے خاص کر دے۔ اس نے اپنی رحمت سے حضور ﷺ کو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں مبعوث فرما دیا تو اس میں حسد کی کون سی بات ہے۔ انہیں تو چاہیے کہ اپنی کتابوں کے مطابق آپ کی نشانیاں دیکھ کر فوراً ایمان لے آتے۔ یہ لوگ صاحب علم اور اہل کتاب تھے ، ان کو انکار نہیں کرنا چاہیے تھا مگر یہ حسد کی وجہ سے انکار کر گئے۔ بہرحال فرمایا کہ ان کے پاس کچھ ہوتا تو یہ ایک نقیر یعنی تل کے برابر بھی کسی کو کچھ نہ دیتے۔ نقیر دراصل اس باریک دھاگے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی کے سوراخ پر ہوتا ہے جس سے پودا پھوٹ کر نکلتا ہے۔ مقصد یہ کہ نقیر بہت معمولی چیز پر بولا جاتا ہے۔ اناج کے دانوں میں سے تِل بھی ایک بہت چھوٹا سا دانہ ہوتا ہے ، اس لیے اس کا ترجمہ تل کردیا گیا ہے۔ بعض اوقات چھوٹی چیز کو خردل یعنی رائی کے دانے سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔
Top