Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 57
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ الْكُفَّارَ اَوْلِیَآءَ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَتَّخِذُوا : نہ بناؤ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا : جو لوگ ٹھہراتے ہیں دِيْنَكُمْ : تمہارا دین هُزُوًا : ایک مذاق وَّلَعِبًا : اور کھیل مِّنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ۔ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دئیے گئے مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے قبل وَالْكُفَّارَ : اور کافر اَوْلِيَآءَ : دوست وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اے ایمان والو ! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتابیں دی گئی تھی ان کو اور کافروں کو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے دوست نہ بناؤ اور مومن ہو تو خدا سے ڈرتے رہو۔
قول باری ہے یا یھا الذین امنوا لاتتخذو الذین اتخذوادینکم ھزوا والعبا ًمن الذین اوتوا الکتاب من قبلکم والکفار اولیاء اے ایمان لانے والو ! تمہارے پیش رو اہل کتاب میں جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنا لیا ہے، انہیں اور دور سے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بنائو۔ آیت میں کافروں سے مدد لینے کی نہی ہے اس لیے اولیاء یعنی دوست اور رفیق وہ لوگ ہوتے ہیں جو مدد کرتے ہیں حضور ﷺ سے مروی ہے کہ جب آپ نے احد کے معرکے پر نکلنے کا ارادہ کا ارادہ کیا تو یہودیوں کا ایکگروہ آ کر کہنے لگا کہ ہم بھی آپ کے ساتھ جائیں گے ۔ آپ نے انہیں جو اب دیتے ہوئے فرمایا :” ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے “ حضور ﷺ کے ساتھ منافقین کی ایک بڑی تعداد مشرکین سے نبردآزما ہوتی تھی۔ ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے ، انہیں ابو مسلم نے ، انہیں حجاج نے ، انہیں حماد نے محمد بن اسحاق سے ، انہوں نے زہری سے کہ کچھ یہودیوں نے حضور ﷺ کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا تھا آپ نے مال غنیمت میں سے مسلمانوں کے حصوں کی طرح انہیں بھی حصہ دیا تھا۔ حضور ﷺ سے یہ بھی ایک روایت ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے سنائی ہے۔ انہیں ابو دائود نے ، انہیں مسدو اور یحییٰ بن معین نے ، انہیں یحییٰ نے مالک سے ، انہوں نے فضل سے ، انہوں نے عبد اللہ بن نیار سے ، انہوں نے عرو ہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے یحییٰ بن معین کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ایک کافر حضور ﷺ کے پاس آگیا اور کہنے لگا کہ میں بھی آپ کے ساتھ مل کر دشمنوں کا مقابلہ کروں گا ۔ آپ نے اسے واپس جانے کا کہہ دیا ۔ اس کے بعد روایت کے الفاظ میں مسدد اور یحییٰ بن معین دونوں کا اتفاق ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا انا لا نستعین بمشرک ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ مشرکین کے مقابلے کے لیے مشرکین سے مدد لینے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ کامیابی کے بعد اسلام کو غلبہ حاصل ہوجائے لیکن اگر صورت حال یہ ہو کہ فتحیابی کے بعد شرک کو غلبہ حاصل ہونے کا امکان ہو تو پھر مسلمانوں کو ان کے ساتھ مل کر قتال نہیں کرنا چاہیے ۔ اصحاب سیر و مغازی نے کثرت سے یہ بات نقل کی ہے کہ حضور ﷺ کے ساتھ بعض اوقات یہودیوں کا کوئی نہ کوئی گروہ جنگ پر جایا کرتا تھا اور بعض اوقات مشرکین کا گروہ بھی آپ کے ساتھ ہوتا تھا۔ رہ گئی وہ حدیث جس میں آپ نے فرمایا ہے انا لا نستعین بمشرک یعنی ہم ایسے مشرک سے مد د نہیں لیتے جس کی اس جیسی کیفیت ہو ۔ قول باری ہے لو لا ینھاھم الربا نیون والا حبار عن قولھم الاتم و اکلھم الحست کیوں ان کے علماء اور مشائخ انہیں گناہ پر زبان کھولنے اور حرام کھانے سے نہیں روکتے۔ ایک قول ہے کہ یہاں لولا کا لفظ ھلا کے معنوں میں ہے یہ ماضی اور مستقبل دونوں صیغوں پر داخل ہوتا ہے۔ اگر یہ مستقبل کے لیے ہو تو پھر امر کے معنوں میں ہوتا ہے جس طرح یہ قول ہے۔ الم لا تفعل تم ایسا کیوں نہیں کرتے ؟ یعنی ایسا کرلو اس مقام پر یہ لفظ مستقبل کے لیے ہے۔ یعنی ھلا ینھاھم اور لم لا ینھاھم کے معنوں میں ہے۔ اگر یہ لفظ ماضی کے لیے ہو تو اس سے بیخ مراد ہوتی ہے یعنی پھر یہ جھڑکنے اور دھمکانے کے معنی ادا کرتا ہے۔ مثلاً یہ قول باری ہے لولا جاء کم علیہ باربعۃ شھدا انہوں نے اپنی اس بات پرچار گواہ کیوں نہیں پیش کیے۔ نیز فرمایا لو لا اذا سمعتموہ فلن المومنون والمومنات بانفسھم خیراً ، جب تم نے یہ بات سنی تو کیوں نہ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنوں کے حق میں نیک گمان کیا ۔ ربانیکے بارے میں ایک قول ہے کہ یہ اس شخص کو کہا جاتا ہے جو رب کے دین کا عالم ہو اس کی نسبت رب کی طرف کردی جاتی ہے جس طرح روحانی میں روح کی طرف نسبت ہے اور بحرانی میں بحر یعنی سمندر کی طرف نسبت ہے۔ حسن کا قول ہے کہ اہل انجیل کے علماء کو ربانیون اور اہل تورات کے علماء کو احبار کہا جاتا ہے۔ حسن کے علاوہ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ یہ سب یہود کے بارے میں ہے اس لیے کہ یہ ان یہود کے ذکر کے ساتھ متصل ہے۔ ہمیں ثعلب کے غلام ابو عمر نے ثعلب سے بیان کیا ہے کہ ربانی اس عالم کو کہتے ہیں جو عامل بھی ہو ۔ آیت اس بات کی مقتضی ہے کہ منکر یعنی غلط بات کی تردید واجب ہے، اس سے روکنا اور اسے دور کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ آیت میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو ایسا نہیں کرتے۔
Top