Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 58
وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ اتَّخَذُوْهَا هُزُوًا وَّ لَعِبًا١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ
وَاِذَا : اور جب نَادَيْتُمْ : تم پکارتے ہو اِلَى : طرف (لیے) الصَّلٰوةِ : نماز اتَّخَذُوْهَا : وہ اسے ٹھہراتے ہیں هُزُوًا : ایک مذاق وَّلَعِبًا : اور کھیل ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لیے کہ وہ قَوْمٌ : لوگ لَّا يَعْقِلُوْنَ : عقل نہیں رکھتے ہیں (بےعقل)
اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو تو یہ اسے بھی ہنسی اور کھیل بناتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ سمجھ نہیں رکھتے۔
اذان کا بیان قول باری ہے واذا نادیتم الی الصلوٰۃ اتخذو ھا ھزوا وکعب اور جب تم نماز کے لیے منادی کرتے ہو تو وہ اس کا مذاق اڑاتے اور اس سے کھیلتے ہیں یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ نماز کے لیے اذان دی جائے جس کے ذریعے لوگوں کو نماز کے لیے بلایاجائے۔ اسی طرح یہ قول باری ہے اذا نو دی للصلوٰۃ من یوم الجمعۃ فاسعور الی ذکر اللہ وذروا البیع جب جمعہ کے دن نمازجمعہ کے لیے ندا دی جائے تو اللہ کی یاد کی طرف ڈور پڑو اور خرید چھوڑ دو ۔ عمرو بن مرہ نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے اور انہوں نے حضرت معاذ ؓ سے روایت کی ہے کہ لوگ نماز کے لیے ایک وقت پر اکٹھے ہوجاتے جس کا سب کو علم ہوتا ۔ لوگ ایک دوسرے کو اس کی آمد سے آگاہ کرے حتیٰ کہ ناقوس بجایا یا شایدناقوس بجانے کی تیاری ہوچکی تھی کہ حضرت عبد اللہ زید ؓ انصاری نے آ کر اذان کا ذکر کیا ۔ یہ سن حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ رات مجھے بھی کوئی اذان سکھا گیا تھا جس طرح اس نے انہیں یعنی حضرت عبد اللہ ؓ کو اذان سکھائی تھی لیکن عبد اللہ اس بات کے ذکر میں مجھ سے سبقت لے گئے ۔ زہری نے سالم سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے صحابہ کرام سے مسلمانوں کو نماز کے لیے اکٹھا کرنے کے طریقے کے بارے میں مشورہ کیا تھا، لوگوں نے ناقوس بجانے کی تجویز پیش کی حضور ﷺ نے اس تجویز کو اس لیے ناپسند فرمایا کہ یہودی بھی نا قوس بجایا کرتے تھے۔ اس روایت میں حضرت عبد اللہ بن زید ؓ انصاری کے واقعے کا ذکر ہے نیز یہ کہ حضرت عمر ؓ نے بھی اس جیسا خواب دیکھا تھا اس طرح ہجرت سے پہلے اذان مسنون نہ ہونے کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ہجرت کے بعد اذان مسنون ہوئی تھی۔ امام ابویوسف نے محمد بن بشرہمدانی سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن علی سے اذان کے متعلق دریافت کیا اور یہ پوچھا کہ اس کی ابتداء کیسے ہوئی تھی اور اس نے موجودہ صورت کیسے اختیار کی ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اذان کا معاملہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ حضور ﷺ جب معراج پر تشریف لے گئے تو تمام انبیاء اکٹھے ہوگئے ، پھر آسمان سے ایک فرشتہ اترا جو اس سے پہلے کبھی نہیں اترا تھا اس نے اس طریقے سے اذان دی جس طرح تم دیتے ہو اس نے تمہاری طرح اقامت بھی کہی پھر حضور ﷺ نے انبیاء کرام کو نماز پڑھائی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ معراج کا واقعہ حضور ﷺ کی مکی زندگی میں پیش آیا تھا جبکہ آپ نے صحابہ میں اذان کے بغیر نماز پڑھی تھی اور صحابہ کرام سے لوگوں کو نماز کے لیے اکٹھا کرنے کے طریقے کے متعلق مشورہ لیا تھا ۔ اگر اذان کی ابتداء ہجرت سے پہلے ہوتی تو آپ کو صحابہ کرام سے مشورہ لینے کی ضرورت پیش نہ آتی ۔ دوسری طرف حضرت معاذ ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ نے اذان کی ابتداء کے متعلق جو کچھ بیان کیا تھا اس کا ہم نے درج بالا سطور میں ذکر کردیا ہے۔ اذان ہر فرض نماز کے لیے مسنون ہے خواہ کوئی شخص یہ فرض نماز تنہا ادا کر رہا ہو یا جماعت کے ساتھ تا ہم ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ مقیم شخص اگر تنہاء نماز پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے اذان کہے بغیر نماز جائز ہے اس لیے کہ مسجدوں میں ہونے والی اذانیں اس شخص کو نماز کی طرف بلانے کے لیے کافی ہوں گی اس لیے وہ ان پر اکتفا کر کے اذا ن دیئے بغیر نماز پڑھ لے گا ۔ مسافر شخص اذان اور اقامت دونوں کہے گا ، لیکن اگر صرف اقامت پر اکتفا کرے گا تو یہ بھی جائز ہوگا ۔ البتہ اذان و اقامت کے بغیر اس کا نماز پڑھ لینا مکروہ ہوگا اس لیے اس مقام پر کوئی اور اذان تو ہوگی نہیں جو اسے نماز کی طرف بلانے کا ذریعہ بن جائے۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا من صلی فی ارض باذان واقامۃ صلی خلفہ صف من الملائکہ کی ایک پوری صف نماز ادا کرتی ہے وہ صف اس قدر طویل ہوتی ہے کہ اس کے دونوں کنارے نظر نہیں آتے۔ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ تنہا نماز پڑھنے والے کے لیے اذان دینا سنت ہے۔ ایک اور روایت میں آپ نے فرمایا اذا ساقوتمافاذنا واقیما جب تم دونوں سفر کرو تو نماز کے لیے اذان دو اور اقامت کہو ہم نے اذان اور اقامت کی کیفیت اور اس بارے میں فقہاء کے اختلاف رائے پر اس کتاب کے سوا دوسری کسی کتاب میں روشنی ڈالی ہے۔
Top