Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Qalam : 29
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ۠ ۧ
قَاتِلُوا
: تم لڑو
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
لَا يُؤْمِنُوْنَ
: ایمان نہیں لائے
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَلَا
: اور نہ
بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ
: یومِ آخرت پر
وَلَا يُحَرِّمُوْنَ
: اور نہ حرام جانتے ہیں
مَا حَرَّمَ
: جو حرام ٹھہرایا
اللّٰهُ
: اللہ
وَرَسُوْلُهٗ
: اور اس کا رسول
وَلَا يَدِيْنُوْنَ
: اور نہ قبول کرتے ہیں
دِيْنَ الْحَقِّ
: دینِ حق
مِنَ
: سے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اُوْتُوا الْكِتٰبَ
: کتاب دئیے گئے (اہل کتاب)
حَتّٰي
: یہانتک
يُعْطُوا
: وہ دیں
الْجِزْيَةَ
: جزیہ
عَنْ
: سے
يَّدٍ
: ہاتھ
وَّهُمْ
: اور وہ
صٰغِرُوْنَ
: ذلیل ہو کر
جو لوگ اہل کتاب میں سے خدا پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخرت پر (یقین رکھتے ہیں) اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو خدا اور اس کے رسول ﷺ نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان سے جنگ کرو۔ یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔
اس میں پندرہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
۔ قولہ تعالیٰ : قاتلو الذین لا یومنون باللہ ولا بالیومر الاخر جب اللہ تعالیٰ نے کفار پر مسجد حرام کے قریب آنا حرام قرار دیا، تو مسلمانوں نے اپنے دلوں میں اس تجار کے بارے خوف سا محسوس کیا جو ان سے ختم کردی گئی (کیونکہ) مشرکین سے اپنائے ہوئے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وان خفتم عیلۃ، الآیہ، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ پھر اس آیت میں جزیہ کو حلال قرار دیا اور یہ اس سے پہلے نہیں لیا جاتا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے اس کا عوض بنا دیا جو انہیں مشرکین کے ساتھ تجارت میں شریک ہونے سے منع کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : قاتلو الذین لا یومنوں باللہ والا بالیوم الاخر الآ یہ اس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تمام کفار کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم ارشاد فرمایا کیونکہ اس وصف پر وہ تمام متفق ہیں اور اہل کتاب کا ذکر ان کی کتاب کی تکریم کے لیے خا ص طور پر علیحدہ کیا، کیونکہ وہ توحید و رسالت، شرائع اور ادیان کو جانتے تھے اور خصوصاً حضور نبی رحمت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ، آپ کی ملت اور آپ کی امت کے بارے میں علم رکھتے تھے۔ تو جب انہوں نے اس کا انکار کیا تو ان پر حجت موکد ہوگئی اور ان کا جرم بڑھ گیا۔ پس پہلے ان کے مقام و محل پر آگاہ فرمایا پھر قتال کے لیے غایت کو ذکر کیا اور وہ قتل کے بدلے جزیہ ادا کرنا ہے۔ اور یہی صحیح ہے۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : میں نے ایک مجلس نظر و فکر میں ابو الوفاء علی بن عقیل کو سنا ہے وہ یہ آیت پڑھتے تھے اور اس سے استدلال کرتے تھے۔ پس فرمایا : قاتلو یہ سزا کے بارے امر ہے۔ پھر فرمایا : الذین لایومنون یہ اس گناہ کا بیان ہے جس نے عقوبت ( سزا) کو واجب کیا ہے۔ اور قول باری تعالیٰ : ولا بالیوم الاخر یہ جانب اعتقاد میں گناہ کی تاکید ہے۔ پھر فرمایا : من الذین او و الکتب یہ حجت کے لیے تاکید ہے، کیونکہ وہ اپنے پاس تو رات و انجیل میں اسے لکھا ہوا پاتے تھے۔ پھر فرمایا : حتی یعطو الجزبۃ عن ید پس اس غایت کو بیان کردیا جس تک سزا ممتد ہو سکتی ہے اور اس بدل اور عوض کو معین کردیا جس کے سبب وہ سزا اٹھ سکتی ہے۔ مسئلہ نمبر
2
۔ جن لوگوں سے جزیہ لیا جاتا ہے ان کے بارے علماء کا اختلاف ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) نے کہا ہے : جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا مگر صرف اہل کتاب سے چاہے وہ عربی ہوں یا عجمی۔ دلیل یہی آیت ہے، کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں خاص طور پر علیحدہ ذکر کیا گیا ہے پس حکم صرف انہیں کی طرف متوجہ ہوگا ان کے سوا دوسروں کی طرف نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا رشاد گرامی ہے : فاقتلو المشرکین حیث وجد تموھم ( التوبہ :
5
) ( تو قل کرو مشرکین کو جہاں بھی تم پائو انہیں ( اور آگے یہ نہیں فرمایا : حتی یعطو الجزیۃ یہاں تک کہ وہ جزیہ ادا کریں جیسا کہ اہل کتاب کے بارے میں فرمایا ہے اور (امام شافعی (رح)) نے مزید یہ کہا ہے : جزیہ مجوسیون سے قبول کیا جائے اور یہ سنت سے ثابت ہے۔ اسی طرح امام احمد اور ابو ثور نے کہا ہے۔ اور یہی ثوری، امام ابوحنیفہ اور آپ کے اصحاب (رح) کا مذہب ہے۔ امام اوزاعی (رح) نے کہا ہے : بتوں کی عبادت کرنے والے، آتش پرست، منکر اور جھٹلانے والے سبھی سے ہی جزیہ لیا جائے گا اور اسی طرح امام مالک (رح) کا مذہب ہے ‘ کیونکہ ان کی رائے یہ ہے کہ شرک اور انکار کی تمام اجناس سے جزیہ لیا جائے گا چاہے وہ عربی ہو یا عجمی ‘ تغلبی ہو یا قریشی ‘ جو بھی ہو سوائے مرتد کے (سبھی سے جزیہ لیا جائے گا) ابن القاسم ‘ اشہب اور سخنون نے کہا ہے : جزیہ عرب کے مجوسیوں اور تمام امتوں سے لیا جائے گا۔ اور رہے عرب بت پرست تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں جزیہ کا تذکرہ نہیں کیا ‘ ان میں سے کوئی بھی زمین پر باقی نہیں رہے گا ‘ بلاشبہ ان کے لیے یا قتال ہے یا اسلام۔ اور ابن القاسم کا نظریہ بھی موجود ہے کہ ان سے جزیہ وصول کیا جائے گا ‘ جیسا کہ امام مالک (رح) فرماتے ہیں۔ اور یہ ابن جلاب کی تفریع میں ہے اور یہ احتمال نص نہیں۔ اور ابن وہب نے کہا ہے : عرب کے مجوسیوں سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا اور ان کے سوا سے قبول کرلیا جائے گا۔ فرمایا : کیونکہ عرب میں مجوسی کوئی نہیں ہے مگر یہ کہ ان تمام نے اسلام قبول کرلیا۔ پس ان میں سے کوئی خلاف اسلام پایا گیا تو وہ مرتد ہوگا ‘ ہر حال میں اسے قتل کیا جائے گا اگر وہ اسلامنہ لایا اور ان سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور ابن الجہم نے کہا ہے : جزیہ ہر اس سے قبول کیا جائے گا جو اسلام کے سوا کسی بھی دین پر ہو سوائے ایسی شی کے جس پر کفار قریش کا اجتماع ہو اور اس کی علت بیان کرتے ہوئے یہ ذکر کیا گیا ہے کہ یہ ذلت اور حقارت کے بدلے ان کی تکریم کے لیے ہے ‘ کیونکہ ان کا تعلق رسول اللہ ﷺ سے ہے۔ اور کسی اور۔ یہ کہا ہے کہ یہ اس لیے ہے کہ وہ تمام کے تمام فتح مکہ کے دن اسلام لائے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر
3
: اور رہے مجوس ! تو ابن منذر نے کہا ہے : میں اس بارے کوئی اختلاف نہیں جانتا کہ ان سے جزیہ لیا جائے گا۔ اور مؤطا میں میں ہے : امام مالک (رح) نے جعفربن محمد سے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے مجوس کا معاملہ ذکر کیا اور فرمایا : میں نہیں جانتا میں ان کے بارے کیا کروں ؟ تو حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے فرمایا : میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : سنو بھم سنۃ اھل الکتاب (تم ان سے اہل کتاب جیسا برتائو کرو) ابو عمر نے کہا ہے : یعنی خاص طور پر جزیہ میں۔ اور رسول اللہ ﷺ کے ارشاد ‘ سنو ابھم سنۃ اھل الکتاب میں اس پر دلیل کہ وہ اہل کتاب نہیں ہیں۔ اور یہی مذہب جمہور فقہاء کا ہے۔ امام شافعی (رح) سے یہ مروی ہے کہ وہ اہل کتاب تھے پھر بدل دیئے گئے۔ اور میرا گمانیہ ہے کہ وہ اس بارے میں اس کی طرف گئے ہیں جو حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے ایک سند سے مروی ہے اور اس میں ضعف ہے ‘ اس کا دارو مدار ابو سعید البقال پر ہے۔ اسے عبدالرزاق وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : روایت ہے کہ مجوس کی طرف ایک نبی مبعوث کیے گئے جن کا نام زرادشت تھا۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر
4
: اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جزیہ کی وہ مقدار ذکر نہیں کی جو ان سے لی جائے گی۔ تحقیق علماء نے جزیہ کی اس مقدار میں اختلاف کیا ہے جو ان سے لی جائے گی۔ پس حضرت عطا بن ابی رباح ؓ نے کہا ہے : اس میں کوئی مقرر مقدار نہیں ‘ بلکہ یہ اتناہی ہوگا جس پر ان سے صلح کی گئی۔ اسی طرح یحییٰ بن آدم ‘ ابو عبید اور علامہ طبری رحمۃ اللہ علیہم نے کہا ہے ‘ مگر علامہ طبری (رح) نے یہ بھی کہا ہے : اس کی کم سے کم مقدار ایک دینار ہے اور زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ اور انہوں نے استدلال اس روایت سے کیا ہے جسے اہل الصحیح نے حضرت عمرو بن عوف ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل بحرین سے جزیہ پر صلح کی۔ اور امام شافعی رحمۃ اللہ نے فرمایا : غنی اور آزاد بالغ فقیر پر ایک دینار ہوگا اس سے کوئی شے کم نہیں کی جائے گی۔ اور انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جسے ابو دائود وغیرہ نے حضرت معاذ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں یمن کی طرف بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ ہر بالغ سے جزیہ میں ایک دینار وصول کریں (
1
) ۔ امام شافعی (رح) نے کہا ہے کہ یہی ارشاد اللہ تعالیٰ کے مراد بہ کے لیے مبین اور اس کی وضاحت کرنے والا ہے اور یہی ابو ثور کا قول ہے۔ امام شافعی (رح) نے کہا : اور اگر ایک دینار سے زیادہ پر ان سے صلح کرلی گئی تو یہ بھی جائز ہے۔ اور اگر انہوں نے زیادہ دیا اور اس پر ان کے دل مطمئن اور خوش ہوں تو وہ ان قبول کرلیا جائے گا۔ اور اگر ان سے صلح تین دنوں کی ضیافت پر کی گئی تو یہ بھی جائز ہے ‘ بشرطیکہ ضیافت معلوم ہو مثلاً روٹی ‘ جو ‘ پنیر اور سالن وغیرہ۔ اور اس کا ذکر کرے جو ان میں سے متوسط پر ہوگا اور جو ان میں سے خوشحال اور دولت مند پر ہوگا اور سردی ‘ گرمی اترنے اور واپس لوٹنے کی جگہ کا بھی ذکر ہو۔ اور امام مالک (رح) نے اس روایت میں کہا ہے جو آپ سے ابن قاسم ‘ اشہب اور محمد بن حارث بن زنجویہ نے روایت کی ہے کہ جزیہ سونے والوں پر چاردینار ہوگا اور چاندی والوں پر چالیس درہم ‘ اس میں غنی اور فقیر برابر ہیں اگرچہ وہ مجوسی ہو۔ جو مقدار حضرت عمر ؓ نے مقرر کی دی ہے نہ اس پر اضافہ کیا جائے گا اور نہ اس میں کمی کی جائے گی ‘ ان سے اس کے سوا کچھ نہیں لیا جائے گا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کمزور اور ضعیف کو اتنی مقدار تخفیف کردی جائے گی جتنی امام وقت مناسب سمجھے۔ اور ابن القاسم نے کہا ہے : تنگی کی وجہ سے حضرت عمرؓ کی مقرر کردہ مقدار میں کمی نہیں جی جائے گی اور خوشحالی اور دولت کی وجہ سے اس پر اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ ابو عمر نے کہا ہے : ان کے فقراء سے اتنی مقدار میں لیا جائے گا جسے وہ برداشت کرسکتے ہوں اگرچہ وہ ایک درہم ہی ہو۔ اور اسی کی طرف امام مالک (رح) نے رجوع کیا ہے۔ امام اعظم ابو حنفیہ اور آپ کے اصحاب ‘ امام محمد بن حسن اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم نے کہا ہے : جزیہ کی مقدار بارہ ‘ چوبیس اور چالیس ہے۔ امام ثوری (رح) نے کہا ہے : حضرت عمر بن خطاب ؓ سے اس بارے میں مختلف مقداروں کا ذکر مروی ہے ‘ پس والی کو اختیار ہے کہ وہ چو چاہے لے لے ‘ جب کہ وہ اہل ذمہ ہوں۔ اور رہے اہل صلح تو ان پر اس کے سوا کچھ نہیں ہوگا جس پر صلح کی گئی ہو۔ مسئلہ نمبر
5
: ہمارے علماء رحمۃ اللہ علیہم نے کہا ہے : وہ جس پر قرآن کرمی دلالت کرتا ہے وہ یہ ہے کہ جزیہ جنگ لڑنے والے مردوں سے لیا جائے گا ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : قاتلو الذین لا یؤمنون باللہ ولا بالیوم الاخر ولا یحرمون ماحرم اللہ ورسولہ ولا یدینون دین الحق من الذیناوتوالکتب حتی یعطوا الجزیۃ پس یہ ارشاد ان پر جزیہ کے واجب ہونے کا تقاضا کرتا ہے جو قتال کرتے ہیں۔ اور یہ اس پر بھی دلیل ہے کہ غلام پر جزیہ نہیں ہے اگرچہ وہ جنگ لڑنے والا ہو ‘ کیونکہ اس کے پاس کوئی مال نہیں ہے اور اس لیے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : حتی یعطوا اور جو کسی شے کا مالک نہ ہو اس کے لیے حتی یعطی نہیں کہا جاسکتا۔ اور یہ کہ علماء کا اس پر اجماع ہے کہ جزیہ آزاد ‘ بالغ مردوں کے سروں پر لگا یا جائے گا اور وہ وہی ہیں جو قتال کرتے ہیں نہ کہ عورتیں ‘ بچے ‘ غلام ‘ ایسے مجنون افراد جن کی عقلیں مغلوب ہوں اور بوڑھے ‘ پیر فرتوت وغیرہ۔ اور راہبوں کے بارے میں اختلاف ہے۔ پس ابن وہب نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ ان سے جزیہ نہیں لیا جائے گا۔ مطرف اور ابن ماجشون نے کہا ہے : یہ تب ہے جب وہ جزیہ لگ جانے کے بعد راہب نہ بنا ہو اور اگر جزیہ پہلے لگا دیا گیا پھر وہ راہب بنا تو اس کی رہبا نیت جزیہ کو ساقط نہیں کرسکتی۔ مسئلہ نمبر
6
: جب اہل جزیہ جزیہ ادا کردیں تو پھر ان کے پھلوں ‘ سامان تجارت اور ان کی فصلوں کی پیداوار میں سے کوئی شے ان سے نہ لی جائے ‘ مگر یہ کہ وہ ان شہروں کی علاوہ دوسرے شہروں میں تجارت اور ان کی فصلوں کی پیداوار میں سے کوئی شے ان سے نہ لی جائے ‘ مگر یہ کہ وہ ان شہروں کے علاوہ دوسرے شہروں میں تجارت کریں جن میں انہیں ٹھہرایا گیا اور جن پر ان سے صلح کی گئی پس اگر وہ تجارت کی غرض سے اپنے مقیمی شہروں سے دوسرے شہروں کی طرف نکلے تو ان سے (محصول ‘ عشر ‘ ٹیکس) لیا جائے گا جس وہ سامان پیچیس اور اس کے ثمن نقد ان کے پاس موجود ہوں ‘ اگرچہ سال میں ان کا گزر کئی بارہو ‘ مگر یہ کہ وہ طعام گندم اور زیتون وغیرہ لے کر مدینہ طیبہ اور مکہ مکرمہ کی طرف خاص طور پر لے جائیں ‘ تو اس صورت میں ان سے نصف العشر لیا جائے گا حضرت عمر فاروق ؓ نے اسی طرح کیا ہے۔ اور اہل مدینہ میں سے بعض کی رائے یہ ہے کہ اہل ذمہ سے ان کے سامان تجارت کا محصول ٹیکس سال میں صرف ایک بار لیا جائے گا ‘ جس طرح مسلمانوں سے لیا جاتا ہے۔ یہی حضرت عمر بن عبد العزیز (رح) اور ائمہ فقہاء کی جماعت کا مذہب ہے۔ پہلا قول امام مالک (رح) اور ان کے اصحاب کا ہے۔ مسئلہ نمبر
7
: جب اہل جزیہ نے اپنا وہ جزیہ ادا کردیا جو ان پر لگایا گیا یا جس پر ان سے صلح کی گئی تو پھر انہیں ان کے تمام مالوں ‘ ان کی انور کی بیلوں اور ان کے اس عصیر (نچوڑ) کو جس کی شرابوں کو انہوں نے چھپا رکھا ہو اور وہ انہیں کسی مسلمان کو بیچنے کا اعلان نہ کریں تو ان سب کو چھوڑ دیا جائے (اور درمیان میں کوئی رکاوٹ کھڑ نہ کی جائے) اور انہیں شراب (خمر) اور خنز یر کو مسلمانوں کے بازاروں اور ظاہراً لا نے سے منع کیا جائے ‘ پس اگر وہ ان سے کوئی شے ظاہراً لائیں تو شراب کو ان پر انڈیل دی جائے اور جو خنزیر کو لے کر آئے اسے تادیب سزا دی جائے۔ اور اگر کسی مسلمان نے شراب کے اظہار کے بغیر اسے بہاد یا تو یہ تعدی اور زیادتی ہے ‘ لہٰذا اس پر ضمان واجب ہوگی۔ اور یہ قول بھی ہے کہ ضمان نہیں ہوگی۔ اور اگر کسی نے شراب غصب کرلی تو اس پر اسے واپس لوٹانا واجب ہے۔ ان کے احکام میں اور ان کے آپ میں سودی کا روبار میں ان سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا۔ پس اگر وہ اپنا کوئی مقدمہ ہمارے پاس فیصلہ کے لیے پیش کریں تو پھر حاکم کو اختیار ہے ‘ اگر چاہے تو ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ کردے اور اگر چاہے تو اعراض کرلے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے باہمی مظالم کے بارے میں ہر چال میں ان کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا او ان کے طاقتوروں سے ان کے کمزروں کا حق لیا جائے گا ‘ کیونکہ یہ ان سے دفع مضرت کے باب سے ہے۔ اور امام وقت پر لازم ہے کہ وہ ان کی طرف سے ان کے دشمنوں کے خلاف جنگ لڑے اور دشمنوں سے جنگ لڑنے میں ان سے مدد بھی طلب کرے۔ مال فے (غنیمت) میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا اور عبادت گاہوں میں جن پر صلح کی گئی ہے وہ ان پر اضافہ نہیں کرسکتے ( یعنی مزید ان کی تعمیر کو بڑھا نہیں سکتے) البتہ ان میں ان سے جو بوسیدہ ہو جاء اس کی اصلاح اور مرمت سے انہیں نہ روکا جائے۔ اور ان کے لیے ان کے علاوہ نئی تعمیر کرنا قطعاً جائز نہیں۔ اور وہ ایسا لباس اور ہیئت اختیار کریں گے جس کے ساتھ وہ خود مسلمانوں سے الگ اور جدا ہوجائیں اور اہل اسلام کے ساتھ مشاہبت کو اختیار کرنے سے انہیں روکا جائے گا۔ اور ان سے دشمن کے بچوں کو خریدنے میں کوئی حرج نہیں۔ بشرطیکہ ان کے لیے ذمہ نہ ہو۔ اور جزیہ ادا کرنے میں جس کسی نے جھگڑا کیا تو اسے اس جھگڑے نے پر تادیبی سزادی جائے گی۔ اور اس سے جزیہ لیا جائے گا اس حال میں کہ وہ مغلوب ہو۔ مسئلہ نمبر
8
: جس کے سبب جزیہ واجب ہے اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے ‘ پس علماء مالکیہ نے کہا ہے : یہ اس قتل کے بدل کے طور پر واجب ہے ‘ جو کفر کے سبب لازم ہے۔ اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : یہ جان کی حفاظت اور دار کی سکونت کے بدل کے طور پر واجب ہے ‘ جو کفر کے سبب لازم ہے۔ اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : یہ جان کی حفاظت اور دار کی سکونت کے بدل کے طور پر واجب ہوتا ہے۔ اس اختلاف کا فائدہ یہ ہے کہ جب ہم نے یہ کہا کہ یہ قتل کے بدلے واجب ہے پھر وہ اسلام لے آیا تو اس سے گزری ہوئی مدت کا جزیہ ساقط ہوجائے گا ‘ اگرچہ اس نے سال مکمل ہونے سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد اسلام قبول کیا۔ یہ امام مالک (رح) کے نزدیک ہے۔ اور امام شافعی (رح) کے نزدیک یہ ہے کہ یہ جزیہ ایک دین (قرض) ہے جو اس کے ذمہ پختہ ہوچکا ہے پس اسلام اسے ساقط نہیں کرسکتا جیسا کہ دار کی اجرت (ساقط نہیں ہوتی) اور بعض حنفیہ نے ہمارے قول کی مثل ہی کہا ہے۔ اور بعض نے یہ کہا ہے کہ جزیہ مدد و نصرت اور جہاد کے بدل کے طور پر واجب ہے۔ اور قاضی ابو زید نے اسے ہی اختیار کیا ہے اور ان کا گمان یہ ہے کہ یہ اس مسئلہ میں اللہ تعالیٰ کا سر اور راز ہے۔ اور امام مالک (رح) کا قول واضح ہے ‘ کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے :” کسی مسلمان پر کوئی جزیہ نہیں ہے “ (
1
) ۔ حضرت سفیان (رح) نے کہا : اس کا معنی ہے ذمی اپنے اوپر جزیہ واجب ہونے کے بعد جب اسلام لے آئے تو اس سے جزیہ باطل ہوجائے گا۔ اسے ترمذی اور ابودائود نے نقل کیا ہے۔ ہمارے علماء نے کہا ہے : اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے : حتی یعطوالجزیۃ عن یدوھم صغرون کیونکہ اسلام کے سبب یہ معنی زائل ہوجاتا ہے۔ اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جب وہ اسلام قبول کرلیں تو وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا نہیں کریں گے اس حال میں کہ وہ مغلوب ہوں۔ اور امام شافعی (رح) اسلام کے بعداس وجہ اور سبب کی بنا پر نہیں لیتے جسے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ بیشک وہ یہ فرماتے ہیں کہ جزیہ ایک دین ہے ‘ جو اس پر سبب سابق کے ساتھ واجب ہوا ہے اور وہ سبب سکنیٰ (رہائش) یا قتل کے شر سے بچنا اور حفاظت ہے ‘ پس یہ تمام قرضوں کی مثل ہوگیا۔ مسئلہ نمبر
9
: اگر امام وقت کسی شہر یا قلعہ کے باسیوں کے ساتھ معاہدہ کرے پھر وہ اپنا عہد توڑ دیں اور جزیہ وغیرہ میں سے جوان کے ذمہ لازم ہوتا ہے اسے ادا کرنے سے رک جائیں (انکار کردیں) اور وہ اسلام کے حکم سے بھی انکار کردیں بغیر اس کے کہ ان پر کوئی ظلم و زیادتی کی جائے اور امام وقت بھی ان پر جبر اور زیادتی کرنے والا نہ ہو تو مسلمانوں پر اپنے امام کی معیت میں ان کے ساتھ جنگ اور قتال کرنا واجب ہے ‘ پس اگر وہ قتال کریں اور مغلوب ہوجائیں تو ان کی بارے میں بال کی اسی طرح حکم ہوگا جو دار الحرب والوں کے بارے حکم ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اور ان کی عورتیں مال فے ‘ ہوگا اور ان میں خمس نہیں ہوگا۔ اور یہ ایک مذہب ہے۔ مسئلہ نمبر
10
: اور اوہ چوریاں کرتے ہوئے اور ڈاکے ڈالتے ہوئے خروج کریں تو وہ لوٹ مار کرنے والے مسلمانوں کے قائم مقام ہوں گے جب کہ وہ جزیہ دینے سے انکار نہ کریں اور اگر وہ ظلم زیادتی کی شکایت کرتے ہوئے نکلیں تو ان کے معاملہ میں غور و کفر کیا جائے گا اور انہیں اصل ذمہ اور معاہدہ کی طرف لوٹا دیا جائے اور انہیں انکے ساتھ ظلم کرنے والوں سے انصاف دلایا جائے اور ان میں سے کسی کو غلام نہیں بنایا جائے گا اور روہ آزاد ہوں گے۔ اور اگر ان میں سے بعض نے معاہدہ توڑدیا تو جنہوں نے نہیں توڑ اوہ اپنے معاہد پر باقی رہیں گے اور انہیں کسی دوسرے کے توڑ نے کے سبب نہیں پکڑا جائے گا اور انہیں معاہدہ پر قائم رہنے کو اسی طرح پہچانا چائے گا کہ وہ توڑ نے والوں کے خلاف ہوں اور ان کا انکار کرتے ہوں۔ مسئلہ نمبر
11
: الجزیۃ یہ فلعۃ کے وزن پر ہے۔ اور جزی یجذی سے ہے جس کوئی بدلہ دے اس احسان کا جو اس پر کیا گیا ہو (تو اس کو جزی یجزی بدلہ دینا کہا جاتا ہے) تو گویا انہوں نے جزیہ اس جزا اور بدلے کے طور پر دیا جو انہیں امن و سلامتی عطا گئی اور یہ لفظ القعدہ اور الجلسۃ کی طرح ہے۔ اور اس معنی میں شاعر کا قول بھی ہے : یزک اوثنی علیک وان من اثنی علیک بما فعلت کمن جزی مسئلہ نمبر
12
: مسلم نے ہشام بن حکیم بن حزام سے روایت نقل کی ہے کہ وہ شام کے کسانوں میں سے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے اس حال میں کہ انہیں دھوپ میں کھڑا کیا گیا تھا۔ اور ایک روایت میں ہے : اور ان کے سروں پر تیل انڈیلا گیا تھا۔ تو انہوں نے پوچھا : ان کا کیا معاملہ ہے ؟ تو بتانے والے نے کہا : انہیں جزیہ میں گرفتار کیا جارہا ہے۔ تو ہشام نے کہا : میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے :” بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں “۔ اور ایک روایت میں ہے ان دنوں ان کا امیر عمیز بن سعد فلسطین میں تھا ‘ پس وہ اس کے پاس گیا اور اس سے بات کی تو اس نے ان کے بارے حکم دیا اور انہیں چھوڑ دیا گیا۔ ہمارے علماء نے کہا ہے : رہی ان کی سزا ! تو جب وہ جزیہ دذینے کی قدرت رکھنے کے باوجود جزیہ ادا کرنے سے انکار کردیں تو انہیں سزادینا جائز ہے ‘ لیکن جب ان کا عجز ظاہر ہو تو پھر انہیں سزا دینا حلال نہیں ‘ کیونکہ جو جزیہ دینے سے عاجز آجائیان سے جزیہ ساقط ہوجاتا ہے۔ اور امیر لوگوں کو فقراء کی طرف سے جزیہ ادا کرنے کا پابند نہیں بنایا جاسکتا۔ اور ابودائود نے صفوان بن سلیم سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کے متعدد بیٹوں سے اور انہوں نے اپنے آباء سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جس نے کسی معاہدہ کرنے والے کے ساتھ ظلم کیا یا اسے نقصان پہنچایا یا اس کی طاقت سے بڑھ کر اسے کام کا مکلف بنایا یا اس کی رضا مندی کے بغیر اس سے کوئی چیز لے لی تو میں قیامت کے دن اس کا حجیج ہوں گا “ (
1
) ۔ (یعنی دلیل سے اس پر غالب آئوں گا) مسئلہ نمبر
13
: قولہ تعالیٰ : عن ید حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : وہ بذات خود جزیہ دے گا اس میں کسی کو نائب نہیں بنائے گا۔ الوالبختری نے سلمان سے روایت کیا ہے کہ اس نے کہا : اس کا معنی ہے انتہائی مذموم حالت میں دے گا۔ اور معمر نے حضرت قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : اس سے مراد ہے عن قھر ( مغلوب اور مجبور ہو کر دے گا) اور بعض نے کہا ہے : عن ید یعنی تمہاری طرف سے ان پر جو انعام سے اس کے عوض دے گا ‘ کیونکہ جب ان سے جزیہ لیا گیا تو تحقیق ان پر اس سے انعام کیا گیا۔ حضرت عکرمہ نے کہا ہے : وہ جزیہ دے گا اس حال میں کہ وہ کھڑا ہوگا اور لینے والا بیٹھا ہوا ہوگا۔ اور یہ حضرت سعید بن جبیر ؓ نے کہا ہے۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : یہ قول باری تعالیٰ عن ید سے ثابت نہیں ہوتا بلکہ وھم صغرون سے ثابت ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر
14
: ائمہ نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ علیہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا مانگنے والا ہے “۔ اور یہ بھی روایت ہے ‘ ” اور اوپر والا ہاتھ ہی عطا کرنے والا ہے “۔ پس آپ نے صدقہ میں دینے والے ہاتھ کو علیا (اوپر والا ہاتھض قرار دیا ہے اور جزیہ میں دینے والے ہاتھ کو سفلیٰ ( نیچے والا ہاتھ) قرار دیا ہے۔ اور لینے والے ہاتھ کو علیا قرار دیا ہے۔ اور یہ اس لیے ہے کیونکہ وہی بلند کرنے والا اور پست کرنے والا ہے ‘ جسے چاہتا ہے بلند کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے پست کردیتا ہے ‘ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر
15
: حبیب بن ابی ثابت نے کہا ہے : ایک آدمی حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور عرض کی : بیشک خراج والی زمین سے اس کے باسی عاجز آرہے ہیں کیا میں اسے آباد کرسکتا ہوں اور اسے کاشت کر کے اس کا خراج ادا کرسکتا ہوں ؟ تو آپ نے فرمایا : نہیں۔ اور پھر ایک دوسرا آیا تو اس نے بھی آپ کو اسی طرح کہا ‘ تو آپ نے فرمایا : نہیں اور آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : قاتلوا الذین لایؤمنون باللہ ولا بالیوم الاخر ولا یحرمون ما حرم اللہ ورسولہ ولا یدینون دین الحق من الذین اوتوا الکتب حتی یعطوا الجزیۃ عن ید و ھم صغرون۔ کیا تم میں سے کوئی اس ذلت و حقارت کا قصد کرتا ہے جو ان میں سے کسی کی گردن میں ہے کہ وہ اسے اتار لے اور اسے اپنی گردن میں ڈال لے۔ اور کلیب بن وائل نے کہا ہے : میں نے حضرت ابن عمر ؓ کو کہا : میں نے زمین خریدی ہے۔ انہوں نے فرمایا : خرید نا اچھی شے ہے۔ میں نے کہا : پس میں زمین کی ہر جریب کے بدلے ایک درہم اور ایک قفیز اناج دوں گا۔ تو آپ نے فرمایا : تو اپنی گردن میں ذلت اور حقارت کو نہ ڈال۔ اور میمون بن مہران نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : میرے لیے یہ باعث مسرت نہیں کہ میرے لیے ساری زمین پانچ درہم جزیہ کے بدلے ہو میں اس میں اپنے نفس کے لیے ذلت و رسوائی کا اقرار کرتا ہوں۔
Top