Ahkam-ul-Quran - Al-A'raaf : 199
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ
خُذِ : پکڑیں (کریں) الْعَفْوَ : درگزر وَاْمُرْ : اور حکم دیں بِالْعُرْفِ : بھلائی کا وَاَعْرِضْ : اور منہ پھیر لیں عَنِ : سے الْجٰهِلِيْنَ : جاہل (جمع)
(اے محمد ﷺ عفو اختیار کرو اور نیک کام کرنے کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کرلو۔
دعوت الی اللہ کا صحیح طریق کار قول باری ہے خذالعفو وامر بالعرف۔ اے نبی ﷺ ! نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو اور معروف کی تلقین کیے جائو) ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے قول باری خذالعفو وامربالعرف واعرض عن الجاھلین، اے نبی ﷺ ! نرمی اور درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کئے ج اور اور جاہلوں سے نہ الجھو) کی تفسیر میں روایت کی ہے۔ انہوں نے فرمایا : بخدا اللہ تعالیٰ نے یہ آیت لوگوں کے اخلاق کے بارے میں نازل کی ہے “۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا اثقل شئی فی میزان المومن یوم القیامۃ الخلق الحسن، قیامت کے دن ایک مومن کے میزان عمل میں اس کے عمدہ اخلاق سب سے زیادہ وزن والے ہوں گے) عطا نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ سے سوال کیا کہ نسا مومن سب سے افضل ہے، آپ ﷺ نے جواب دیا، ” جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں گے “۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں معاذ بن المثنیٰ اور سعید بن محمد الاعرابی نے، انہیں محمد بن کثیر نے ، انہیں سفیان ثوری نے عبداللہ بن سعید بن ابی سعیدالمقبری سے، انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا انکم لاتسعون الناس باموالکم ولکن یسعھم منکم بسط الوجہ وحسن الخلق۔ تم اپنے مال و دولت کے ذریعے لوگوں سے بڑھ نہیں سکتے لیکن اپنی خندہ روئی اور حسن خلق کے ذریعے تم ان سے سبقت لے جاسکتے ہو) حسن اور مجاہد سے منقول ہے کہ حضور ﷺ نے حکم دیا تھا کہ لوگوں کے اخلاق و سیرت کے نرم گوشوں کو پذیرائی بخشی جائے۔ عفو، تسہیل اور تیسیہ یعنی آسان کرنے کو کہتے ہیں۔ آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ نرمی سے کام لیا جائے لوگوں کے اخلاق کے نرم گوشوں کو پذیرائی بخشی جائے اور ان کے ساتھ معاملات میں بال کی کھال نکالنے والا رویہ اختیار نہ کیا جائے تیز ان کا عذر قبول کرلیا جائے حضرت ابن عباس ؓ سے قول باری خذالعفو کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے لوگوں کے اموال میں ان کی ضرورت سے زائد مال مراد ہے۔ یہ بات زکواۃ کی فرضیت کا حکم نازل ہونے سے پہلے تھی۔ ضحاک اور سدی سے بھی یہی قول منقول ہے۔ ایک قول ہے کہ عفو کے اصل معنی ترک کے ہیں۔ اسی سے یہ قول باری ہے فمن عفی لہ من اخیہ شئی۔ جس شخص کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز چھوڑ دی جائے) یعنی ترک کردیا جائے گناہ معاف کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ اس پر ترک عقوبت کی جائے یعنی سزا نہ دیا جائے۔ قول باری وامربالمعروف کے متعلق قتادہ اور عروہ کا قول ہے کہ عرف معروف کو کہتے ہیں۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں ابراہیم بن عبداللہ نے انہیں سہل بن بکار نے انہیں عبدالسلام بن الخلیل نے عبیدہ الہجیمی سے، کہ ابوجری جابر بن سلیم نے کہا : میں اپنے جوان اونٹ پر سوار ہو کر مکہ چلا گیا، میں نے وہاں حضور ﷺ کو تلاش کیا۔ میں نے مسجد کے دروازے پر اپنا اونٹ بٹھا دیا۔ حضور ﷺ مسجد کے دروازے پر تھے۔ آپ کے جسم پر ایک اونی چادر تھی جس میں سرخ دھاریاں تھیں میں نے آپ ﷺ کو سلام کیا۔ آپ ﷺ نے سلام کا جواب دیا پھر میں نے عرض کیا ہم بادیہ نشین لوگ ہیں ہمارے اندر طبیعت کی سختی پائی جاتی ہے آپ مجھے ایسے کلمات سکھا دیجئے جن سے مجھے نفع ہو “۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے مجھے تین دفعہ قریب آجانے کو کہا۔ میں آپ ﷺ کے قریب ہوگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا :” اپنی بات دہرائو “۔ میں نے اپنی بات دہرا دی۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا :” اللہ سے ڈرتے رہو، اور کسی بھی نیکی کو حقیر نہ سمجھو، اور یہ کہ اپنے بھائی کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملو، نیز یہ کہ اپنے ڈول کا زائد پانی اس شخص کے برتن میں ڈال دو جو پانی کا طلبگار ہو۔ اگر کوئی شخص تمہارے کردار کے کسی ایسے عیب کی تمہیں گالی دے جس کا اسے علم ہو تو تم جواب میں اس کے کردار کے کسی عیب کو گالی کے طور پر استعمال نہ کرو جس کا تمہیں علم ہو۔ اس لئے اس شخص کی اس حرکت پر اللہ تمہیں اجر دے گا اور اس پر گناہ کا بوجھ ڈال دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں تمہیں عطا کی ہیں ان میں سے کسی چیز کو برا بھلا نہ کہو اور گالی نہ دو “۔ ابوجری کہتے ہیں : اس ذات کی قسم جس نے محمد ﷺ کو اپنے پاس بلالیا۔ میں نے پھر کبھی کسی چیز کو گالی نہیں دی۔ نہ کسی بکری کو اور نہ کسی اونٹ کو “۔ معروف اس چیز کو کہتے ہیں جس کو بروئے کار لانا عقلی طور پر مستحسن ہو اور عقلاء کے نزدیک وہ ناپسندیدہ نہ ہو۔ قول باری ہے واعرض عن الجاھلین اس میں جاہلوں اور نادانوں سے ان کی جہالت اور نادانی کی بنا پر الجھنے سے منع کردیا گیا ہے اور ان سے اپنا دامن بچانے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ بات شاید قتال کے حکم کے نزول سے پہلے کی تھی اس لئے کہ اس وقت حضور ﷺ کو یہ حکم تھا کہ لوگوں تک اللہ تعالیٰ کی بات پہنچا دیں اور ان پر اتمام حجت کردیں اس کی نظیر یہ قول باری ہے فاعرض عمن تولی عن ذکرنا ولم یردالا الحیوۃ الدنیا۔ جو لوگ ہمارے ذکر سے روگردانی کرتے ہیں اور جن کے پیش نظر صرف یہی دنیاوی زندگی ہے ان سے نہ الجھو) جب قتال کا حکم نازل ہوگیا تو باطل پرستوں اور فسادیوں سے نمٹنے کا طریق کار متعین ہوگیا وہ یہ کہ کبھی تلوار کے ذریعے ان کے افعال کی تردید کی جائے کبھی کوڑے کے ذریعے اور کبھی ان کی تذلیل اور انہیں قید کرنے کے ذریعے۔
Top