Taiseer-ul-Quran - Al-Israa : 199
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ
خُذِ : پکڑیں (کریں) الْعَفْوَ : درگزر وَاْمُرْ : اور حکم دیں بِالْعُرْفِ : بھلائی کا وَاَعْرِضْ : اور منہ پھیر لیں عَنِ : سے الْجٰهِلِيْنَ : جاہل (جمع)
(اے نبی ! ) درگزر کرنے کا رویہ اختیار کیجئے، معروف کاموں کا حکم دیجئے۔ اور جاہلوں 197 سے کنارہ کیجئے
197 داعی حق کے لئے ہدایات۔ 1۔ عفو و درگزر 2۔ اچھی باتوں کا حکم 3۔ بحث میں پرہیز۔ 4۔ جوابی کارروائی سے اجتناب :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہایت مختصر الفاظ میں تین نصیحتیں بیان فرمائی ہیں جو ہر داعی حق کے لیے نہایت اہم ہیں گویا داعی حق کو درپیش مسائل کا حل چند الفاظ میں بیان کر کے دریا کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہے اور وہ یہ ہیں۔ 1۔ پچھلی چند آیات میں مشرکین کے معبودان باطل پر اور خود مشرکوں پر سنجیدہ الفاظ میں تنقید کی گئی ہے۔ جس کا یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ وہ آپ کے خلاف زہر اگلنا یا آپ کو برا بھلا کہنا شروع کردیں۔ اندریں صورت آپ کو درگزر کرنے کی روش اختیار کرنا چاہیے، حوصلہ اور برداشت سے کام لینا چاہیے۔ اپنے رفقاء کی کمزوریوں پر بھی اور اپنے مخالفین کی اشتعال انگیزیوں پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے کیونکہ دعوت حق کے دوران اشتعال طبع سے بسا اوقات اصلی مقصد کو نقصان پہنچ جاتا ہے اور یہ صفت آپ میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت (فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَھُمْ 159۔ ) 3 ۔ آل عمران :159) 2۔ صاف اور سادہ الفاظ میں ایسی بھلائیوں کی طرف دعوت دینا چاہیے جن کو عقل عامہ تسلیم کرنے کو تیار ہو اور اس انداز میں دینا چاہیے جسے لوگ گران بار محسوس نہ کریں اس کی بہترین مثال یہ واقعہ ہے کہ جب آپ نے معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو یہ ہدایات فرمائیں۔ سب سے پہلے لوگوں کو ایک اللہ کی طرف دعوت دو پھر جب وہ اسلام لے آئیں تو انہیں بتلاؤ کہ تمہارے پروردگار نے تم پر دن بھر میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں پھر جب وہ اس پر عمل کرنے لگیں تو پھر بتلانا کہ تمہارے اموال پر اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ فرض کی ہے اور دیکھو زکوٰۃ وصول کرتے وقت ان کے عمدہ عمدہ مال لینے سے اجتناب کرنا اور مظلوم کی بددعا سے بچتے رہنا، کیونکہ اللہ اور مظلوم کی بددعا کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ (بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب لاتؤخَذَ کرائم اموال الناس فی الصدقۃ ) اس حدیث میں دعوت کی ترتیب اور خطاب کا جو انداز بیان کیا گیا ہے اس میں داعی حق کے لیے بیشمار اسباق موجود ہیں نیز آپ جب بھی کسی داعی کو روانہ فرماتے تو انہیں ارشاد فرماتے (بَشِّرُوْا وَلاَتُنَفِّرُوْا وَیَسِّرُوْا وَلاَ تُعَسِّرُوْا) (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب بعث ابی موسیٰ و معاذ الیٰ یمن) یعنی جہاں تم جاؤ تمہاری آمد لوگوں کے لیے خوشی کا باعث بنے نفرت کا باعث نہ بنے اور تم لوگوں کے لیے سہولت کا موجب بنو تنگی اور سختی کا موجب نہ بنو۔ 3۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ اعتراض برائے اعتراض اور بحث برائے بحث کرنے والوں سے کنارہ کش رہنے کی کوشش کرو اگر تم ان کی ہی باتوں میں الجھ گئے تو دعوت حق کے فروغ کا کام وہیں رک جائے گا لہذا ایسے لوگوں کے اعتراضات اور طعن وتشنیع کا جواب دینے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان سے بےنیاز ہو کر اپنا سفر جاری رکھنا چاہیے۔
Top