Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 53
قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا لَّنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْكُمْ١ؕ اِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَنْفِقُوْا : تم خرچ کرو طَوْعًا : خوشی سے اَوْ : یا كَرْهًا : ناخوشی سے لَّنْ يُّتَقَبَّلَ : ہرگز نہ قبول کیا جائے گا مِنْكُمْ : تم سے اِنَّكُمْ : بشیک تم كُنْتُمْ : تم ہو قَوْمًا : قوم فٰسِقِيْنَ : فاسق (جمع)
کہہ دو کہ تم (مال) خوشی سے خرچ کرو یا ناخوشی سے تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائیگا۔ تم نافرمان لوگ ہو۔
قول باری ہے (قل انفقوا طوعاً اوکرھاً لن یتقبل منکم۔ ان سے کہہ دو ” تم اپنے مال خواہ راضی خوشی خرچ کردیا بکراہت، بہرحال وہ قبول نہیں کیے جائیں گے) “ آیت کے الفاظ کو امر۔ کے صیغے کی صورت میں لایا گیا ہے لیکن مراد اطاعت اور معصیت پر تمکین یعنی قدرت و اختیار کا بیان ہے جس طرح یہ قول باری ہے (فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر۔ جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر کرلے) ایک قول کے مطابق امر کا یہ صیغہ یعنی جملہ انشائیہ اس جملہ خبریہ کے معنوں میں ہے جس میں ” ان “ شرطیہ داخل ہوتا ہے اور اس کی جزا ہوتی ہے جس طروح کثیر کا شعر ہے۔ اسیئی بنا او احسنی لا ملومۃ لدینا ولا مقلیۃ ان تقلت اے محبوبہ ! خواہ تو ہمارے ساتھ برائی سے پیش آ، یا بھلائی سے، بہرصورت تو ہماری نظروں میں قابل ملامت نہیں ٹھہرے گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اگر تم سے نفرت کا اظہار کرے گی تو بھی تو ہمارے نزدیک قابل نفرت نہیں ہوگی۔ شعر میں امر کے دو صیغوں کا مفہوم ہے۔ ” اگر تو نیکی کرے یا بدی، تم پر کوئی ملامت نہیں۔ “
Top