Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 76
وَ لَئِنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُ١ؕ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ۠   ۧ
وَلَئِنْ : اور البتہ اگر سَاَلْتَهُمْ : تم ان سے پوچھو مَّنْ : کس نے نَّزَّلَ : اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مَآءً : پانی فَاَحْيَا : پھر زندہ کردیا بِهِ : اس سے الْاَرْضَ : زمین مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَوْتِهَا : اس کا مرنا لَيَقُوْلُنَّ : البتہ وہ کہیں گے اللّٰهُ ۭ : اللہ قُلِ : آپ کہہ دیں الْحَمْدُ لِلّٰهِ ۭ : تمام تعریفیں اللہ کے لیے بَلْ : لیکن اَكْثَرُهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْقِلُوْنَ : وہ عقل سے کام نہیں لیتے
اور بیشک وہ قریب تھے کہ تجھے ضرور ہی اس سرزمین سے پھسلا دیں، تاکہ تجھے اس سے نکال دیں اور اس وقت وہ تیرے بعد نہیں ٹھہریں گے مگر کم ہی۔
وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ۔۔ :”اِسْتَفَزَّ“ کا معنی کسی کو گھبراہٹ میں ڈال کر پھسلا دینا ہے۔ ”اَلْاَرْضَ“ میں الف لام عہد کا ہے، مراد ارض مکہ ہے، یعنی جب قریش کی نبی ﷺ کو توحید سے روکنے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں تو انھوں نے آپ کو سخت تنگ اور پریشان کرنا شروع کردیا، تاکہ آپ گھبرا جائیں اور مکہ سے نکل جائیں۔ وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا : چناچہ ایسا ہی ہوا کہ بعد میں جب آپ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ چلے آئے تو ڈیڑھ سال کے بعد ان کے بڑے بڑے سردار بدر میں مارے گئے، آپ کی بددعا سے اہل مکہ قحط اور خوف کا شکار ہوگئے، حتیٰ کہ آٹھ (8) ہجری میں خود مکہ بھی فتح ہوگیا، جس سے ان کی شان و شوکت اور حکومت خاک میں مل گئی۔ ایک مغرور قوم کے لیے یہ عذاب ہی کیا کم ہے کہ وہی شخص جسے انھوں نے نکالا تھا، ان پر فتح پا کر شہر کا مالک بن جائے۔
Top