Ashraf-ul-Hawashi - An-Naba : 55
فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِبْكَارِ
فَاصْبِرْ : پس آپ صبر کریں اِنَّ : بیشک وَعْدَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ حَقٌّ : سچا وَّاسْتَغْفِرْ : اور مغفرت طلب کریں لِذَنْۢبِكَ : اپنے گناہوں کے لیے وَسَبِّحْ : اور پاکیزگی بیان کریں بِحَمْدِ رَبِّكَ : اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ بِالْعَشِيِّ : شام وَالْاِبْكَارِ : اور صبح
تو اے پیغمبر کافروں کی تکلیف دینے پر صبر کئے رہ بیشک اللہ کا وعدہ کہ ایک دن پیغمبر ضرو رغالب ہوگا چاہے اور اپنے قصور کی بخشش مانگتا رہ4 اور صبح اور شام اپنے مالک کی تعریف کے ساتھ پاکی بیان کر5
4 قصور سے مراد امت کے قصور ہیں یا وہ چھوٹی چھوٹی لغزشیں ہیں جو بتقاضائے بشریت انبیاء ( علیہ السلام) سے سر زد ہوجاتی ہیں جیسے رائے اور اجتہاد کی غلطی یا شدید مخالفت کی فضاء میں کچھ نہ کچھ بےصبری کی کیفیت اور پھر انبیاء ( علیہ السلام) کو استغفار کا حکم اس لئے ہے کہ ان کے درجات زیادہ سے زیادہ بلند ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ عبادت میں مشقت اٹھاتے حتیٰ کہ آپ ﷺ کے پائوں ورم آلود ہوجاتے اور جب آپ ﷺ سے کہا جاتا تو آپ ﷺ فرماتے ( افلا اکون عبدا شکورا) کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ ( قرطبی وغیرہ) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حضرت رسول اللہ ﷺ دن میں سو سو بار استغفار کرتے گناہ سے ہر بندے سے قصور ہے، اس کے موافق ہر کسی کو استغفار ہے۔ ( موضح) عصمت انبیاء ( علیہ السلام) کے بارے میں حافظ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں ﷺ کو گناہ پر قائم رہنے سے بچایا ہے اور یہی قول ہے موافق ان آثار کے جو سلف (رح) سے منقول ہیں۔ ( تفسیر الایۃ الکریمہ)5 یعنی ہر آن اللہ تعالٰ کی تسبیح وبحمدہ کرتے رہے یا صبح و شام کے اوقات میں نماز پڑھئے مگر یہ حکم اس وقت تھا جب پنج وقتہ نماز فرض نہیں ہوئی تھی۔ پھر جب معراج کے موقع پر نماز پنجگانہ فرض ہوگئی تو ان کے اوقات کا بھی باقاعدہ تعین کردیا گیا۔ ( شوکانی)
Top