Mazhar-ul-Quran - At-Tawba : 102
وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا١ؕ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَاٰخَرُوْنَ : اور کچھ اور اعْتَرَفُوْا : انہوں نے اعتراف کیا بِذُنُوْبِهِمْ : اپنے گناہوں کا خَلَطُوْا : انہوں نے ملایا عَمَلًا صَالِحًا : ایک عمل اچھا وَّاٰخَرَ : اور دوسرا سَيِّئًا : برا عَسَى : قریب ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يَّتُوْبَ عَلَيْهِمْ : معاف کردے انہیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور کچھ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا ہے انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو ملا جلا دیا ہے، قریب ہے کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرے بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے
صدقہ خیرات کا حکم شان نزول : جس کا حاصل یہ ہے کہ جس گروہ صحابہ نے اپنے قصور کا اقرار کر کے آنحضرت ﷺ کے تبوک کے سفر سے مدینہ واپس آنے سے پہلے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ دیا، جب حضور ﷺ تشریف لائے اور انہیں ملاحظہ کیا تو فرمایا یہ کون ہیں۔ عرض کیا گیا یہ وہ لوگ ہیں جو جہاد میں حاضر ہونے سے رہ گئے تھے، انہوں نے اللہ سے عہد کیا ہے کہ یہ اپنے آپ کو نہ کھولیں گے جب تک حضور ﷺ ان سے راضی ہو کر انہیں خود نہ کھولیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں انہیں نہیں کھولوں گا نہ ان کا عذر قبول کروں گا، جب تک کہ مجھے اللہ کی طرف سے ان کے کھولنے کا حکم نہ دیا جائے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی اور حضور ﷺ نے انہیں کھولا تو انہوں نے عرض کیا : ” یا رسول اللہ ! ﷺ یہ مال ہمارے رہ جانے کا باعث ہوا، اس مال کو لیجئے اور صدقہ کیجئے اور ہمیں پاک کیجئے اور ہمارے لئے دعا مغفرت فرمایئے “۔ حضور ﷺ نے فرمایا : ” مجھے تمہارے مال لینے کا حکم نہیں دیا گیا “ اس پر دوسری آیت نازل ہوئی اس آیت سے ظاہر ہوا کہ کوئی گنہگار شخص جب اپنے گناہوں سے توبہ کرے تو اس کو کچھ صدقہ دینا بھی مستحب ہے۔ اور جن لوگوں کی توبہ پونے دو مہینے کے بعد قبول ہوئی اس پر یہ تیسری آیت نازل ہوئی۔ جس میں توبہ کرنے والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ ان کی توبہ اور ان کے صدقات قبول ہوئے۔ توبہ و استغفار کرنے سے اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف کردیتا ہے۔
Top