Al-Qurtubi - At-Tawba : 102
وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا١ؕ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَاٰخَرُوْنَ : اور کچھ اور اعْتَرَفُوْا : انہوں نے اعتراف کیا بِذُنُوْبِهِمْ : اپنے گناہوں کا خَلَطُوْا : انہوں نے ملایا عَمَلًا صَالِحًا : ایک عمل اچھا وَّاٰخَرَ : اور دوسرا سَيِّئًا : برا عَسَى : قریب ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يَّتُوْبَ عَلَيْهِمْ : معاف کردے انہیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور کچھ اور لوگ ہیں کہ اپنے گناہوں کا (صاف) اقرار کرتے ہیں۔ انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو ملا جلا دیا تھا۔ قریب ہے کہ خدا ان پر مہربانی سے توجہ فرمائے۔ بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
آیت نمبر : 102۔ یعنی اہل مدینہ میں سے اور تمہارے آس پاس رہنے والوں میں سے کچھ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار واعتراف کرلیا ہے اور دوسروں کے لیے اللہ تعالیٰ کا امر مؤخر کردیا گیا ہے وہ ان کے بارے میں وہی فیصلہ فرمائے گا جو چاہے گا۔ پس پہلی قسم یہ احتمال رکھتی ہے کہ وہ منافق تھے اور نفاق پر پختہ نہ ہوئے تھے۔ اور یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ وہ مومن ہوں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے : یہ آیت ان دس افراد کے بارے میں نازل ہوئی جو غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے اور ان میں سے سات آدمیوں نے اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں کے ساتھ باندھ دیا تھا۔ حضرت قتادہ (رح) نے بھی اسی طرح کہا ہے۔ اور یہ بھی کہا ہے : اور ان کے بارے میں (آیت) ” خذ من اموالھم صدقۃ “۔ نازل ہوئی۔ اسے مہدوی نے ذکر کیا ہے۔ اور زید بن اسلم نے کہا ہے : وہ آٹھ افراد تھے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ چھ تھے، اور یہ قول بھی ہے کہ وہ پانچ تھے۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : یہ آیت حضرت ابو لبابہ انصاری ؓ کے بارے میں خاص کر بنی قریضہ کے ساتھ ان کے معاملہ کے بارے میں نازل ہوئی (3) (تفسیر طبری، جلد 11، صفحہ 20) اور وہ یہ کہ انہوں نے ان سے اللہ تعالیٰ اور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے حکم پر قلعے سے نیچے اترنے کے بارے میں گفتگو کی تو آپ نے ان کے لیے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا مراد یہ تھی کہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ انہیں ذبح کردیں گے اگر وہ نیچے اترے، پھر جب غلطی کا احساس ہوا تو توبہ کی، ندامت ہوئی اور اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور یہ قسم کھائی کہ وہ کوئی چیز نہ کھائے گا نہ پئے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے یا وہ مر جائے۔ پس وہ اسی حالت پر رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا اور یہ آیت نازل ہوئی اور رسول اللہ تعالیٰ نے اسے کھولنے کا حکم فرما دیا۔ اسے علامہ طبری نے حضرت مجاہد (رح) سے ذکر کیا ہے۔ اور اشہب نے امام مالک (رح) سے سے روایت کیا ہے کہ وآخرون حضرت ابو لبابہ ؓ اور ان کے ساتھیوں کی شان میں نازل ہوئی اور اس وقت کہا جب ان سے گناہ صادر ہوا : یا رسول اللہ ﷺ کیا میں آپ کے پڑوس میں رہوں گا اور اپنے مال سے علیحدہ ہوجاؤں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا ” اس سے ثلث تیرے لیے کافی ہوگا۔ (1) (تفسیر طبری، جلد 11، صفحہ 20) تحقیق رب کریم نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” خذ من اموالھم صدقۃ تطھرھم وتزکیھم بھا “۔ ترجمہ : (اے حبیب ! ) وصول کیجئے ان کے مالوں سے صدقہ تاکہ آپ پاک کریں انہیں اور بابرکت فرمائیں انہیں) اسے ابن قاسم اور ابن وہب نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے۔ اور جمہور کا نظریہ یہ ہے کہ یہ آیت غزوہ تبوک کے پیچھے رہنے والوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور انہوں نے اپنے آپ کو اسی طرح باندھ دیا تھا جیسے حضرت ابو لبابہ ؓ نے کہا تھا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ وہ اپنے آپ کو نہیں کھولیں گے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ ہی انہیں کھولیں گے اور آپ ان سے راضی ہوں گے، تو حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے فرمایا :” میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں میں انہیں نہیں کھولوں گا اور نہ میں انہیں معذور قرار دوں گا یہاں تک کہ انہیں کھولنے کا حکم دیا جائے۔ انہوں نے مجھ سے اعراض کیا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ میں جانے سے پیچھے رہے ہیں “ (2) (اسباب النزول، صفحہ 135) پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، پس جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ ان کی طرف تشریف لے گئے، اور آپ نے انہیں کھولا اور ان کا عذر قبول فرمالیا، جب وہ کھول دیئے گئے تو انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ یہ ہمارے وہ اموال ہیں جنہوں نے ہمیں آپ سے پیچھے رکھا، پس آپ ہماری طرف سے انہیں صدقہ کر دیجئے اور ہمیں پاک کیجئے اور ہمارے لیے مغفرت لیے طلب کیجئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” مجھے حکم نہیں دیا گیا ہے کہ میں تمہارے مالوں میں سے کوئی شے لوں “ (3) (اسباب النزول، صفحہ 135) تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” خذ من اموالھم صدقۃ “۔ الآیہ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : وہ دس افراد تھے ان میں سے حضرت ابو لبابہ ؓ بھی تھے تو آپ ﷺ نے ان کے مالوں سے تیسرا حصہ لیا اور یہ ان کے ان گناہوں کا کفارہ تھا جن کا انہوں نے ارتکاب کیا، پس ان کا برا عمل پیچھے رہنا ہے اس پر اس بارے گفتگو کرنے کی اہلیت رکھنے والوں کا اجماع ہے۔ اور عمل صالح کے بارے میں انہوں نے اختلاف کیا ہے، پس علامہ طبری وغیرہ نے کہا ہے : (اپنے گناہ کا) اعتراف کرنا، توبہ کرنا اور اس (گناہ) پر نادم ہونا) (تفسیر طبری، جلد 11، صفحہ 17) اور کہا گیا ہے کہ ان کا وہ عمل صالح جو انہوں نے کیا وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ملے اور انہوں نے اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں کے ساتھ باندھ دیا اور انہوں نے کہا : ہم نہ اپنی بیویوں کے قریب جائیں گے اور نہ اپنی اولاد کے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہمارے عذر کے بارے حکم نازل فرما دے، اور ایک جماعت نے کہا ہے : بلکہ عمل صالح ان کا ان عزوات میں شریک ہونا ہے جو حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے غزوات میں سے گزر چکے تھے، اور یہ آیت اگرچہ اعراب کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن یوم قیامت تک ہر اس آدمی کے حق میں عام ہے جس کے اعمال صالحہ بھی ہوں اور اعمال سیئہ بھی، پس یہ امید دلالتی ہے، علامہ طبری نے حجاج بن ابی زینب سے ذکر کیا ہے انہوں نے کہا میں نے ابو عثمان کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے : میرے نزدیک اس امت کے لیے قرآن کریم میں اس آیت سے بڑھ کر زیادہ امید افزا کوئی آیت نہیں : (آیت) ” واخرون اعترافوا بذنوبھم خلطوا عملا صالحا واخرسیئا “۔ (التوبہ : 102) (1) (تفسیر طبری، جلد 11، صفحہ 21) اور بخاری میں حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا : ” آج کی رات میرے پاس دو آنے والے آئے اور وہ مجھے لے گئے پس ہم ایک ایسے شہر کے پاس رکے جس کے مکانات سونے چاندی کی اینٹوں کے ساتھ بنے ہوئے تھے ہمیں تھے کچھ لوگ ملے جن کی خلقت میں نصف اتنا زیادہ حسین تھا کہ تو نے اس کی مثل نہ دیکھا ہوگا اور نصف اتنا زیادہ قبیح تھا کہ تو نے اس کی مثل نہ دیکھا ہوگا ان دونوں نے انہیں کہا : تم جاؤ اور اس نہر میں کود جاؤ پس ہو اس میں داخل ہوگئے پھر ہماری طرف واپس لوٹ کر آئے تو ان سے وہ بدصورتی اور سیاہی دور ہوچکی تھی اور وہ انتہائی حسین و جمیل صورت میں بدل چکے تھے، تو ان دونوں نے مجھ بتایا : یہ جنت عدن ہے اور یہی آپ کی منزل اور مقام ہے، پھر ان دونوں نے کہا : رہی وہ قوم جن کا نصف حصہ حسین اور خوبصورت تھا اور ان کا نصف قبیح اور بدصورت تھا (تو اس کی وجہ یہ ہے) کہ انہوں نے عمل صالح اور برے عمل کو ملا جلا دیا اللہ تعالیٰ نے ان سے درگزر فرمالی ہے “ (2) (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، جلد 2، صفحہ 674) علامہ بہیقی (رح) نے ربیع بن انس (رح) کی حدیث سے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ سے حدیث اسراء ذکر کی ہے اور اس میں آپ نے فرمایا ہے : ” پھر مجھے آسمان کی طرف لے جایا گیا۔ پھر انہوں نے یہاں تک حدیث ذکر کی کہ آپ ﷺ نے ساتویں آسمان کی طرف اپنے بلند ہونے اور چڑھنے کا ذکر فرمایا تو انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھائی اور خلیفہ کے نام سے سلام فرمایا ہے پس کتنا اچھا بھائی اور کتنا اچھا خلیفہ ہے اور آنے والا کتنا اچھا ہے، پس اچانک دیکھا سام نے جنت کے دروازے کے پاس کرسی پر ایک آدمی بیٹھا ہوا ہے جس کے سر کے بال سیاہ وسفید ہیں اور اس کے پاس ایک قوم ہے ان کے چہرے سفید ہیں اور ایک قوم ہے ان کے چہرے سیاہ ہیں اور ان کے رنگوں میں کوئی شے ہے، پس وہ نہر کے پاس آئے اور اس میں غسل کیا، پس اس سے نکلے تو ان کے رنگوں کی مثل ہوچکے تھے پھر وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا : اے جبرئیل ! یہ سفید چہروں والے کون لوگ ہیں اور یہ لوگ جن کے رنگوں میں کوئی شے تھی پھر وہ نہر میں داخل ہوئے تو ان کے رنگ صاف ہوگئے ؟ تو انہوں نے بتایا : یہ آپ کے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں یہ پہلے آدمی ہیں سطح زمین پر جن کے بال سیاہ اور سفید ہے، اور سفید اور چمکتے چہروں وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا اور رہے وہ لوگ جن کے رنگوں میں کوئی شے تھی انہوں نے عمل صالح اور برے عمل کو ملا جلا دیا اور پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی، اور رہی پہلی نہر تو وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور رہی دوسری نہر تو وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ اور رہی تیسری نہر تو ان کے رب نے انہیں شراب طہور کے ساتھ سیراب فرمایا “۔ اور آگے حدیث ذکر کی۔ اور قول باری تعالیٰ : (آیت) ” واخر سیئا “۔ میں واؤ کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بمعنی با ہے اور یہ بھی کیا گیا ہے کہ یہ بمعنی مع ہے، جیسے کہ تیرا قول ہے : استوی الماء والخشبۃ “۔ (پانی لکڑی کے ساتھ برابر ہوگیا) کو فیوں نے اس کا انکار کیا ہے اور انہوں نے کہا ہے : کیونکہ خثبہ کو الماء پر مقدم کرنا جائز نہیں ہے اور آیت میں آخر کو پہلے پر مقدم کرنا جائز ہے لہذا یہ خلطت الماء باللبن کے قائم مقام ہے
Top