Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tawba : 102
وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا١ؕ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَاٰخَرُوْنَ : اور کچھ اور اعْتَرَفُوْا : انہوں نے اعتراف کیا بِذُنُوْبِهِمْ : اپنے گناہوں کا خَلَطُوْا : انہوں نے ملایا عَمَلًا صَالِحًا : ایک عمل اچھا وَّاٰخَرَ : اور دوسرا سَيِّئًا : برا عَسَى : قریب ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يَّتُوْبَ عَلَيْهِمْ : معاف کردے انہیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور کچھ اور لوگ ہیں کہ اپنے گناہوں کا (صاف) اقرار کرتے ہیں۔ انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو ملا جلا دیا تھا۔ قریب ہے کہ خدا ان پر مہربانی سے توجہ فرمائے۔ بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
102۔ 104۔ تفسیر ابن جریر ابن ابی حاتم ابن مردویہ اور ابو الشیخ میں جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جس گروہ صحابہ نے اپنے قصور کا اقرار کر کے آنحضرت ﷺ کے تبوک کے سفر سے مدینہ واپس آنے سے پہلے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ دیا پہلا ٹکڑا آیت کا اس شان میں ہے اور پھر جب ان لوگوں کی توبہ قبول ہوگئی اور انہوں نے آنحضرت کی خدمت میں اپنا مال لاکر عرض کیا کہ حضرت جس مال کے لینے سے انکار کیا تھا دوسرا ٹکڑا آیت کا اس مال کے حکم میں ہے اور جن لوگوں کی توبہ پونے دو مہینے کے بعد قبول ہوئی تیسرا آیت کا ٹکڑا ان کی شان میں نازل ہوا 1 ؎ ہے علماء سلف نے اس آیت کے حکم سے یہ بات بھی نکالی ہے کہ کوئی گنہگار شخص جب اپنے گناہوں سے توبہ کرے تو اس کو کچھ صدقہ دینا بھی مستحب ہے اگرچہ بعضے مفسروں نے اس صدقہ سے مراد زکوٰۃ لی ہے لیکن اکثر مفسرین کا قول یہ ہی ہے کہ اس آیت میں صدقہ سے مراد کفارہ کے طور پر نفلی صدقہ ہے اور خاص اس قصہ میں صحیحین کی کعب بن مالک ؓ کی جو حدیث 2 ؎ ہے اس سے اس آخری قل کی بڑی تائید ہوتی ہے کیونکہ اس روایت میں کعب بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ جب میری توبہ قبول ہوئی تو میں نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ میری توبہ کا جزیہ بھی یہی ہے کہ میں اپنا مال صدقہ میں دوں آپ نے فرمایا کسی قدر اپنا مال رہنے دو کہ تمہارے کام آویگا اس پر انہوں نے عرض کیا کہ خیبر کی لڑائی میں جو مجھ کو حصہ ملا ہے وہ میں رہنے دیتا ہوں اس سے معلوم ہوا کہ کعب بن مالک ؓ نے اپنا سارا مال نفلی صدقہ کے طور پر دینے کا ذکر کیا اور اس پر آنحضرت نے ان کو کسی قدر مال رہنے دینے کی نصیحت کی، زکوۃ کا ذکر ہوتا تو زکوٰۃ کی مقدار جس قدر مقرر ہے اسی قدر مقرر ہے اسی قدر مال کے دینے کا ذکر آتا سارے مال کے ذکر کی اور آنحضرت کی نصیحت پر صرف خیبر کے حصہ کے رہنے دینے کی کیا ضرورت تھی۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کوئی شخص گناہ کر کے فورا توبہ استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جبکہ میرے بندے کے دل میں اس قدر یقین ہے کہ گناہوں پر گرفت کرنے والا اور گناہوں کو معاف کرنے والا سوا اللہ کے اور کوئی نہیں ہے تو میں نے بھی اپنے بندے کی توبہ قبول کی اور اس کے گناہوں کو معاف کردیا 3 ؎۔ آیت کے ٹکڑے الم یعلموا ان اللہ ھو یقبل التوبۃ عن عبادہ کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے آیت ومن الاعراب من یومن باللہ کی تفسیر میں صدقہ خیرات کے سبب سے قربت الٰہی حاصل ہونیکی۔ ابوہریرہ ؓ کی حدیث صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے اوپر گذر چکی ہے وہ حدیث خذ الصدقات کی گویا تفسیر ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے ایک اور حدیث ابوہریرہ ؓ کی اس تفسیر میں ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے قسم کھا کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو گناہوں کے معاف کرنے کی صفت اس قدر پیاری ہے کہ دنیا کے موجود لوگ اگر گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ اور گنہگار مخلوقات کو زمین پر پیدا کرتا اور توبہ و استغفار کرنے سے ان کے گناہ معاف کردیتا 4 ؎ یہ حدیث وان اللہ ھوا لتواب الرحیم کی گویا تفسیر ہے۔ 1 ؎ تنقیح الرواۃ ص 17 ج 1 کتاب الایمان 2 ؎ صحیح بخاری ج 2 ص 634 باب حدیث کعب بن مالک ؓ 3 ؎ صحیح بخاری ج 2 ص 1117 باب قول اللہ یریددن ان یبدلوا کلام اللہ الخ والترغیب والترہیب ج 2 ص 220 الترغیب فی التوبۃ البادرۃ الخ 4 ؎ صحیح مسلم ج 2 ص 355 باب سقوط الذنوب بالاستغفار والتوبۃ۔
Top