Ahsan-ut-Tafaseer - Yunus : 62
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ
اَلَآ : یاد رکھو اِنَّ : بیشک اَوْلِيَآءَ اللّٰهِ : اللہ کے دوست لَا خَوْفٌ : نہ کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ ھُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
سُن رکھو کہ جو خدا کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے۔
62۔ 63۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اولیاء اللہ کا حال بیان فرمایا ہے کہ اور لوگوں کو دنیا کے چھوٹ جانے کا اور دنیا میں بےفائدہ عمر بسر کرنے کا آخرت میں غم اور رنج ہوگا اللہ کے ولی لوگ جو کامل ایمان داری اور تقوی میں اپنی دنیا اس طرح بسر کرتے ہیں کہ ان کا حال دیکھنے سے دیکھنے والوں کو خدا یاد آتا ہے ان کو آخرت میں کچھ غم اور رنج نہیں ہے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے مسند بزار و تفسیر ابن جریر میں ابو مالک اشعری ؓ سے مسند امام احمد بن حنبل میں اور سنن ابوداؤد میں حضرت عمر ؓ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اولیاء اللہ وہ لوگ ہیں جن کے دیکھنے سے خدایاد آتا ہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری میں ابوہریرہ ؓ کی روایت سے حدیث قدسی ہے جس میں اولیاء اللہ کی یہ نشانی ہے کہ علاوہ فرضی عبادت کے وہ لوگ اکثر نفلی عبادت میں اور ان کے کان آنکھیں ہاتھ پیر سب اعضاء مرضی الٰہی کے کاموں میں لگے رہتے ہیں۔ 2 ؎ اس صحیح روایت سے اوپر کی روایتوں کی پوری تائید ہوتی ہے کیوں کہ جو لوگ ہر وقت عبادت الٰہی میں لگے رہیں گے ان کے دیکھنے سے ضرور خدا یاد آوے گا مستدرک حاکم کی ابن عمر ؓ کی صحیح روایت میں یہ بھی ہے کہ بغیر روپے کے لالچ اور بغیر رشتہ داری کے وہ آپس میں اللہ کے واسطے بڑی گہری محبت رکھتے ہیں قیامت کے دن جب اور لوگوں کو خوف ہوگا تو یہ لوگ بےخوف اور خوش حال ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کی بڑی عزت فرماوے گا۔ ان کو نور کے ممبر بیٹھنے کو ملیں 3 ؎ گے اگرچہ عام لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ جس شخص میں کوئی بات خلاف عادت ہو مثلاً بےموسم کی چیز کا پیدا کردینا یا آئندہ کی کوئی خبر بتلا دینا یا تھوڑی دیر میں دنوں کا راستہ طے کرلینا تو وہ شخص ولی ہے اور وہ خلاف عادت بات کرامت ہے لیکن علماء اہل سنت کا مذہب ایسا نہیں ہے بلکہ ان کا مذہب یہ ہے کہ جس شخص میں خلاف عادت کوئی بات نظر پڑی اگر وہ شخص متقی اور شریعت کا پابند ہے تو وہ خلاف عادت بات کرامت ہے اور وہ شخص ولی ہے ورنہ وہ خلاف عادت بات استدراج ہے اور وہ شخص ولی نہیں ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ولی آیت میں ولی کی نشانی یہ فرمائی ہے۔ { الذین امنوا وکانوا یتقون } پھر غیر پابند شریعت شخص کو پورا ایماندار اور متقی کیوں کر کہہ سکتے ہیں اور بغیر اس ولایت کی نشانی کے جس کو خود خدا نے ولی کی علامت ٹھہرایا ہے کسی کو ولی خلاف مرضی خدا کے زبردستی کیوں کر کہا جاسکتا ہے اسی طرح خدا کے رسول ﷺ نے ولی کی علامت یہ بتلائی ہے کہ ولی کے دیکھنے سے خدا یاد آتا ہے کیوں کہ ولی اکثر یاد الٰہی میں لگا رہتا ہے اور یہ ظاہر بات ہے کہ بےشرع آدمی کے دیکھنے سے اور اس کی صحبت سے جو کچھ نشہ پانی یا اور کوئی خلاف شریعت بات مثلاً راگ رنگ جو کچھ وہ بےشریعت کرتا ہے وہ یاد آتا ہے خدا ایسے آدمی کے دیکھنے سے کب یاد آتا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ عام لوگوں کے نزدیک کرامت سے ولی پہچانا جاتا ہے اور علماء اسلام کے نزدیک پیروی شریعت سے ولی پہچانا جاتا ہے اور پھر ولی سے کرامت پہچانی جاتی ہے۔ ابن عساکر میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا دنیا میں اولیاء اللہ کے چند گروہ ہیں تین سو آدمیوں کا ایک گروہ ایسا ہے جن کا ولایت میں وہ مقام ہے جو نبوت میں حضرت آدم (علیہ السلام) کا تھا اور چالیس آدمیوں کا ایک گروہ ایسا ہے جن کا مقام حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا سا ہے اور سات آدمیوں کا ایک گروہ ایسا ہے جن کا مقام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا سا ہے اور سات آدمیوں کا ایک گروہ ایسا ہے جن کا مقام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا سا ہے اور پانچ آدمیوں کا ایک گروہ ایسا ہے جن کا مقام ولایت وہ ہے جو ملائکہ میں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کا مقام ہے اور تین آدمیوں کا ایک گروہ ایسا ہے جن کا مقام حضرت میکائیل کا ہے اور فقط ایک شخص ایسا ہے جس کا مقام حضرت اسرافیل کا ہے ان اولیاء اللہ کی دعا کی برکت کے سبب سے طرح طرح کی بلائیں دفع ہوتی رہتی ہیں قحط کے وقت ان کی دعا سے مینہ برستا ہے لڑائی کے وقت ان کی دعا سے دشمن پر فتح ہوتی ہے ان لوگوں سے کبھی دنیا خالی نہیں رہتی نیچے کے گروہ والوں کو خدا ترقی دیتا رہتا ہے مثلاً چالیس آدمیوں کے گروہ میں سے کسی شخص کے فوت ہوجانے سے ایک آدمی کی جگہ خالی ہوجاتی ہے تو تین سو آدمیوں کے گروہ میں سے ایک شخص اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے اور عام مسلمانوں میں سے ایک شخص تین سو کے گروہ میں مامور ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ہر گروہ کا حال ہے۔ 4 ؎ اور مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت علی ؓ وہ ذکر سن کر خاموش ہو رہے اور لوگوں نے حضرت علی ؓ سے کہا آپ اپنے دشمن اور دشمن کے لشکر کا ذکر سن کر خاموش رہ جاتے ہیں کچھ ان کو برا نہیں کہتے آپ نے فرمایا اہل شام کو میں کیوں کر برا کہوں میں نے حضرت سے سنا ہے کہ ملک شام میں چالیس آدمیوں ابدال کا گروہ ایسا ہے کہ جن کے سبب سے اہل شام کی ہر طرح کی بلا دفع ہوتی ہے جن کی دعاء سے قحط کے وقت مینہ برستا ہے لڑائی کے وقت دشمن پر فتح ہوتی ہے۔ 5 ؎ اسی طرح حلیہ ابی نعیم میں روایت ہے کہ اہل صفہ میں مغیرہ بن شعبہ ؓ کا ایک غلام تھا اس کو آحضرت ﷺ نے فرمایا یہ سات میں کا ایک ہے 6 ؎ سوا اس کے جن حدیثوں میں ادا تا واقطاب نقباء نجبا کی گنتی کا ذکر ہے ان حدیثوں کو اہل حدیث نے ضعیف کہا ہے۔ 7 ؎ ہاں خاص نام لے کر ولایت کی شان سے بعض صحابہ اور تابعین کا ذکر صحیح حدیثوں میں آیا ہے۔ چناچہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ پہلی امتوں میں ایسے لوگ تھے جن کو خدا کی طرف سے الہام ہوتا تھا اس امت میں اسی طرح کے لوگ ہیں تو وہ عمر فاروق ہیں 8 ؎ اور صحیح مسلم میں حضرت عمر ؓ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یمن سے ایک شخص تمہارے پاس آوے گا جس کا نام اویس ہے اس سے دعا کرانا 9 ؎ اور کرامت کے خیال سے صحابہ اور تابعین کے حال پر حدیث کی کتابوں میں نظر ڈالی جاوے تو ہزار کرامتوں سے کم نہیں نکلتی ہیں مثلاً حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے تین مہمانوں کا قصہ صحیحن میں ہے جس میں کھانا بڑھ گیا تھا 10 ؎ اور حضرت عمر ؓ کا مدینہ میں خطبہ کے وقت اپنے لشکر کو پہاڑ پر چڑھ کر لڑنے کی ہدایت کا دینا اور منزلوں کے فاصلہ پر اس کا عمل ہوجانا 11 ؎ اور حسن بصری ؓ کا حجاج کی نگاہ سے غائب ہوجانا اور سعید بن مسیب ؓ کو یزید ؓ کے جھگڑے کے زمانہ میں اذان کی آواز کا مسجد نبوی میں آنا 12 ؎ وغیرہ لیکن شریعت میں کہیں ایسے اولیاء اللہ کا ذکر نہیں ہے جن کو شریعت کا حکم معاف ہو یا ظاہر میں وہ شریعت کے پابند ہوں اور باطنی احکام الہامی میں ان کو شریعت کی پابندی ضرور نہ ہو یا ولایت کو وہ نبوت سے بڑھ کر گنتے ہوں یا کسی کو خاتم الاولیاء کہتے ہوں یا احکام شریعت کے وہ ایسے معنے بتلاتے ہوں جن کی روایت صاحب شریعت سے صحیح مروجہ کتابوں میں کہیں نہیں پائی جاتی اس قسم کی جس قدر باتیں فتوحات و خصوص الحکم وغیرہ میں لکھی ہیں وہ سب شریعت کے مخالف ہیں کیوں کہ یہ تو ظاہر بات ہے کہ وحی شرعی میں جب ان باتوں کا پتہ نہیں ہے تو امت میں سے جس کسی کو یہ باتیں معلوم ہوئی ہوں گی خواہ مخواہ الہام کے ذریعہ سے معلوم ہوئی ہوں گی کس لئے کہ وحی تو خاتم الانبیاء پر ختم ہوچکی اور الہام ایسی ایک چیز ہے کہ بدوں شہادت شریعت کے صرف الہام کے ذریعہ سے کوئی بات ثابت کی جاسکتی ہے نہ خالی الہام حجت ہوسکتا ہے چناچہ مشائخ اسلام مثلاً فضیل بن عیاض ؓ و ابراہیم ادہم و ابو سلیمان و ارانی و معروف کرخی وجنید بغدادی ; وغیرہ نے اس کی صراحت کردی ہے کہ سوائے انبیاء کے اور کسی کا الہام اس وقت تک صحیح نہیں قرار پاسکتا جب تک وہ الہام ظاہر شریعت کے موافق نہ ہو۔ اور یہ ہی مذہب حق ہے ورنہ سلف صالحین کے رحمانی اور القاء شیطانی میں فرق ہے تو اتنا ہی ہے کہ الہام رحمانی کی تائید شریعت سے ہوا کرتی ہے چناچہ چند باتوں میں حضرت عمر ؓ کی خلافت میں اور حارث و مشقی عبد الملک بن مروان کی خلافت میں اسی وجہ سے قتل کئے گئے کہ ان کے القاء شیطانی کی تصدیق شریعت سے نہیں ہوتی تھی۔ 1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 422۔ 423 ج 2۔ و تفسیر الدرالمنثور 309۔ 310 ج 3۔ 2 ؎ صحیح بخاری ص 963 ج 2 باب التواضع۔ 3 ؎ تفسیر الدرا لمنثور ص۔ 31 ج 3۔ 4 ؎ حافظ سیوسی ؓ اللالی المصنوعہ (ص 512 طبع لکھنو 1) میں بحوالہ طبرانی یہ روایت لاکر کہتے ہیں کہ اس کی سند میں بہت سے مجہول راوی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ روایت کس یکام نہیں چناچہ حافظ ذہبی نے اس کو موضوع قرار دیا ہے۔ میزان ص 187 ج 2 ع۔ 5 ؎ مشکوۃ باب ذکر الیمن والشام بحوالہ مسند احمد ص 171 ج 2 طبع احمد شاکر ؓ یہ روایت منقطع ہے لہٰذا ضعیف اور ناقبل حجت (ع، ر) 6 ؎ صوفیوں کے ان اصطلاحی القاب کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ابدال کے متعلق جتنی روایات ہیں ان کو اگرچہ حافظ سیوطی نے ٹھیک بنانے کی کوشش کی ہے لیکن حافظ طخاوی ؓ کے نزدیک ہ سب ضعیف ہیں (المقاصد المسز ص 8 طبع جدید، اور یہی رائے حافظ شوکانی ی ہے (الفوائد المجموعہ ص 246۔ 249 طبع مصر۔ ) ۔ ہ، ر۔ 7 ؎ مشکوۃ ص 556 باب مناقب عمر ؓ ۔ 8 ؎ صحیح مسلم ص 311 ج 2 باب من فضائل اویس القرنی ؓ ۔ 9 ؎ مشکوۃ ص 544 باب الکرامات۔ 10 ؎ مشکوۃ ص 546 باب الکرامات۔ 11 ؎ ایضا 545 باب الکرامات۔ 12 ؎ صحیح بخاری ص 1037 ج 2 باب رؤیۃ النساء۔
Top