Ahsan-ut-Tafaseer - Yunus : 8
اُولٰٓئِكَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ مَاْوٰىھُمُ : ان کا ٹھکانہ النَّارُ : جہنم بِمَا : اس کا بدلہ جو كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : وہ کماتے تھے
ان کا ٹھکانا ان (اعمال) کے سبب جو وہ کرتے ہیں دوزخ ہے۔
8۔ 10۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ خواہشات دنیا سے اللہ تعالیٰ نے دوزخ کو اور تکلیفات شرعیہ سے جنت کو ڈھانک رکھا ہے۔ 1 ؎ جس کے حاصل معنے یہ ہیں کہ جس طرح پردہ کے اندر کوئی چیز ڈھکی اور چھپی ہوتی ہے اسی طرح جنت تکلیفات شرعیہ کے پردہ کے اندر اور دوزخ خواہشات دنیا کے پردہ کے اندر چھپی ہوئی ہیں اس لئے جس کسی کی تمام ہمت اور کوشش اور عمر خواہشات دنیا کے پورا کرنے اور آخرت سے غافل رہنے میں گزری اس نے گویا دوزخ کے دروازہ کا پردہ اٹھایا اور دوزخ میں جانے کا قصد کیا اور جس کسی کی عمر تابمقدور تکلیفات شرعیہ کی برداشت میں بسر ہوئی اس نے جنت کے دروازہ کا پردہ اٹھایا اور جنت میں جانے کا قصد کیا غرض جو معنے اس حدیث کے ہیں وہی معنی ان آیتوں کے ہیں واسطے اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر کہنا چاہیے اور خواہشات دنیا رحمت الٰہی اور جنت سے روکنے والی چیزیں ہیں اسی واسطے معتبر سند سے طبرانی اور مستدرک حاکم میں ابو سعید خدری ؓ وغیرہ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ اپنے جس بندے کی عقبی کی بھلائی چاہتا ہے اس کو دنیا اور خواہشات دنیا سے ایسا بچاتا ہے جس طرح کوئی آدمی اپنے بیمار کو بد پرہیزی کی چیزوں سے بچاتا ہے۔ 2 ؎ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اپنی محبت اور دین کے کاموں کا شوق اور دنیا کی دلدل میں پھنسنے سے نفرت نصیب کرے۔ جنتی لوگ جنت کی نعمتیں دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کریں گے اور جب آپس میں ملیں گے تو السلام علیکم کہیں گے اسی کا ذکر ان آیتوں میں ہے جو لوگ رات دن خواہشات دنیا میں گرفتار وہ عقبے سے غافل اور اللہ کو منہ دکھانے کا خیال کبھی ان کے دل میں نہیں گزرتا اور جو لوگ عقبی کی بہبودی چاہتے ہیں وہ اعتقاد اور نیک عملوں کی درستی میں ہر وقت لگے رہتے ہیں۔ انہی دونوں گروہوں کا ذکر ان آیتوں میں فرما کر اول گروہ کا انجام دوزخ اور دوسرے گروہ کا انجام جنت کو فرمایا۔ ابوہریرہ ؓ کی حدیث جو اوپر گزری وہ ان دونوں انجاموں کی پوری تفسیر ہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری 960 ج 2 باب حجبت النار بالشہوات۔ 2 ؎ الترغیب والترتیب ص 227 ج 2 باب الترغیب فی الفقر الخ۔
Top