Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 69
وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًا١ؕ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ
وَلَقَدْ جَآءَتْ : اور البتہ آئے رُسُلُنَآ : ہمارے فرشتے اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم بِالْبُشْرٰي : خوشخبری لے کر قَالُوْا : وہ بولے سَلٰمًا : سلام قَالَ : اس نے کہا سَلٰمٌ : سلام فَمَا لَبِثَ : پھر اس نے دیر نہ کی اَنْ : کہ جَآءَ بِعِجْلٍ : ایک بچھڑا لے آیا حَنِيْذٍ : بھنا ہوا
اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔ ابھی کچھ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ (ابرہیم) بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔
69۔ 73۔ یہ ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ تمہید کے طور پر لوط (علیہ السلام) کے قصے سے پہلے ذکر کیا گیا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے ایک بھائی تھے جن کا نام ہاران تھا انہیں کے بیٹے حضرت لوط (علیہ السلام) تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر یہی سب سے پہلے ایمان لائے تھے۔ نوح (علیہ السلام) سے دو ہزار چھ سو بیالیس برس کے بعد یہ بھیجے گئے تھے ان کی عمر ایک سو پچھتر برس کی ہوئی ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے اسحاق (علیہ السلام) کی عمر ایک سو اسی برس کی ہوئی اور ابراہیم کے پوتے یعقوب بن اسحاق (علیہ السلام) کی عمر ایک سو پنتالیس سال کی ہوئی۔ ابراہیم (علیہ السلام) فلسطین ایک ملک ہے وہاں رہتے تھے اور لوط (علیہ السلام) ملک شام کے ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ فرشتوں کو خدا نے حکم دیا کہ لوط کی قوم پر عذاب لے کر جاؤ صحیح قول کے مطابق تین فرشتے تھے۔ جبرئیل، میکائیل، اسرافیل۔ یہ تنیوں خوبصورت لڑکوں کی صورت بن کر پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس اسحاق (علیہ السلام) کے پیدا ہونے کی خوشی سنانے کو آئے اور آتے ہی سلام کیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی سلام کا جواب دیا مگر ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو پہچانا نہیں۔ مہمان سمجھا اور اپنی عادت کے موافق کہ جب کوئی مہمان آجاتا تو خاطر تواضع کرتے تھے ان کے کھانے پینے کا بھی انتظار کرنے لگے اور ایک جوان گائے ذبح کر کے اس کے کباب لگائے۔ حنیذ کے معنے مفسروں نے یہ لکھے ہیں کہ گرم پتھر پر گوشت کے کباب لگانا جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے مہمانوں کے آگے کھانا رکھا تو ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھے کیونکہ فرشتوں کی غذا خدا کی تسبیح ہے دنیا کی کھانے پینے سے ان کو کچھ رغبت نہیں اور نہ دنیا کا کھانا پینا ان کے لئے مقرر کیا گیا ہے جب ان مہمانوں کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھے تو ابراہیم (علیہ السلام) دل میں بہت ڈرے کہ یہ کیسے مہمان ہیں جو کھانا نہیں کھاتے اور ان کی قوم میں یہ دستور بھی تھا کہ جب کوئی مہمان آئے اور کھانا نہ کھائے تو ڈرتے تھے کہ خدا خیر کرے یہ کسی برے ارادے سے آیا ہے کیوں کہ اس زمانہ کے لوگ جس کا نمک کھالیتے تھے اس کے ساتھ پھر کچھ دغا نہیں کرتے تھے اور جس کے ساتھ دغا کا ارادہ ہوتا تھا اس کا نمک نہیں کھاتے تھے اس لئے اس کے گھر کے کھانے سے بچتے تھے۔ غرض جب ابراہیم (علیہ السلام) کے دل میں خوف ہوا تو قیاس یا خدا کے حکم سے ان فرشتوں نے سمجھ لیا اور کہا کہ اے ابراہیم (علیہ السلام) تم ڈرو نہیں ہم خدا کے بھیجے ہوئے ہیں۔ لوط (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب لے کر بھیجے گئے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک کنیز تھیں ہاجرہ نام جن سے اسمعیل (علیہ السلام) پیدا ہوئے تھے اور ان کی بیوی جن کا نام سارہ تھا جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے چچا ہارون کی بیٹی تھیں ان کے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی یہ پردے کی آڑ میں کھڑی تھی کہ مہمانوں کی تواضع جو مجھ سے متعلق ہوگی وہ میں بھی کروں گی جب انہوں نے یہ سنا کہ یہ فرشتے ہیں اور لوط کی قوم پر عذاب لے کر چلے ہیں تو ہنسیں۔ اب مفسروں نے کئی سبب ان کی ہنسی کے بیان کئے ہیں۔ قتادہ کہتے ہیں کہ اس بات پر ہنسی تھیں کہ جس قوم پر یہ عذاب لے کر جارہے ہیں انہیں اب تک اس کی خبر بھی نہیں ہے کسی نے کہا ہے کہ ان کے اور ابراہیم (علیہ السلام) کی گفتگو پر ہنس پڑیں کسی نے کہا ہے کہ اپنے شوہر کے خوف پر ہنسی تھیں کہ یہ مہمان تو صرف تین ہی شخص ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ تو بہت سے آدمی ہیں کوئی کہتا ہے کہ بڑھاپے میں اولاد کی بشارت سن کر تعجب سے ہنس دیں۔ غرض کہ ان کو بشارت دی گئی کہ تمہارے بطن سے حضرت اسحاق (علیہ السلام) پیدا ہوں گے اور ان کے بعد یعقوب (علیہ السلام) تمہارے پوتے پیدا ہوں گے یہ سن کر ان کو بہت تعجب ہوا اور کہا یہ تو بڑی خرابی کی بات ہے۔ میں بوڑھی ہوگئی میری عمر قریب نوے بانوے برس کی ہوگئی اور میرے شوہر بالکل بو ڑھے سو برس کی عمر کے ہیں اس عمر میں لڑکا ہونا بہت ہی اچنبے کی بات ہے ان فرشتوں نے جواب دیا کیا تم خدا کی باتوں سے تعجب کرتی ہو خدا کے کارخانہ میں سب کچھ ہے اس کی قدرت تو اس سے بھی زیادہ ہے۔ یہ تو کوئی تعجب کی بات نہیں 1 ؎ اے گھر والو خدا کی رحمت تم پر ہے اور برکت بھی ہے کہ اسحاق کے بعد تم اپنے پوتے اسحاق کے بیٹے کو بھی دیکھو گے وہ خدا بڑا تعریف اور بزرگی کے قابل ہے تفسیر ابن منذر وغیرہ میں عمرو بن دینار ؓ اور عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ جب فرشتوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے پوچھا کیا بات ہے انہوں نے جواب دیا کہ ہم کھانا بلا قیمت نہیں کھاتے ہیں جس کا جواب ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دیا کہ اس کھانے کی یہی قیمت ہے اور ان کے پوچھنے پر بتلایا کہ اس کی قیمت یہ ہے کہ کھانے سے پہلے بسم اللہ کی جائے اور کھانے کے بعد خدا کا شکر اس جواب کو سن کر جبرئیل نے میکائیل (علیہ السلام) کی طرف دیکھ کر کہا کیوں نہ ہو ایسے شخص کو خدا کا خلیل بنایا جائے۔ بالکل برحق 2 ؎ ہے۔ یہ روایت تفسیر ابن ابی حاتم میں بھی تفسیر سدی کے حوالہ سے ہے۔ ان اسمعیل بن عبد الرحمن سدی کو امام احمد نے ثقہ کہا ہے۔ ان اسمعیل سدی کی تفسیر اسباط بن نصر ہمدانی نے جمع کی ہے اور ان کو ابن معین نے ثقہ کہا ہے غرض یہ روایت معتبر ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابی شریح خزاعی سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہر ایماندار شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے اور یہ بھی فرمایا کہ دعوت کی حد تین دن تک ہے جن میں ایک رات دن کے کھانے میں زیادہ خاطر داری کی جاوے ان ابی شریح کا مشہور نام خویلد بن عمرو ہے۔ مدنی صحابی ہیں۔ 68 میں انہوں نے وفات پائی اوپر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مہمان نوازی کا جو تذکرہ تھا یہ حدیث انس کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن شریف میں آنحضرت ﷺ نے شرع محمدی میں اس مسئلہ کو ایمان کی نشانی قرار دیا۔ 1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 452 ج 2۔ 2 ؎ تفسیر الدرالمنثور ص۔ 34 ج 3۔
Top