Maarif-ul-Quran - Hud : 95
وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْ١ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ
وَعَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے اسے سکھائی صَنْعَةَ : صنعت (کاریگر) لَبُوْسٍ : ایک لباس لَّكُمْ : تمہارے لیے لِتُحْصِنَكُمْ : تاکہ وہ تمہیں بچائے مِّنْ : سے بَاْسِكُمْ : تمہاری لڑائی فَهَلْ : پس کیا اَنْتُمْ : تم شٰكِرُوْنَ : شکر کرنے والے
برابر نہیں بیٹھ رہنے والے مسلمان جن کو کوئی عذر نہیں امور وہ مسلمان جو لڑنے والے ہیں اللہ کی راہ میں اپنے مال سے اور جان سے، اللہ نے بڑھا دیا لڑنے والوں کا اپنے مال اور جان سے بیٹھ رہنے والوں پر درجہ اور ہر ایک سے وعدہ کیا اللہ نے بھلائی کا اور زیادہ کیا اللہ نے لڑنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں سے اجر عظیم
جہاد سے متعلقہ چند احکام۔ دوسری آیت یعنی لایستوی القعدون من المومنین میں چند احکام جہاد کو بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ بغیر کسی معذوری کے شریک جہاد نہیں ہوتے وہ ان لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جو اللہ کی راہ میں اپنے جان و مال سے جہاد کرتے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو غیر مجاہدین پر درجہ میں فضیلت اور برتری دی ہے، ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں فریق یعنی مجاہدین وغیر مجاہدین سے اچھی اجزاء کا وعدہ کیا ہوا ہے، جنت و مغفرت دونوں کو حاصل ہوں گی، فرق درجات کا رہے گا۔
علماء تفسیر نے فرمایا کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے کہ بعض لوگ اس کو ادا کریں تو باقی مسلمان سبکدوش ہوجاتے ہیں، بشرطیکہ جو لوگ جہاد میں مشغول ہیں وہ اس جہاد کے لئے کافی ہوں اور اگر وہ کیا نہیں تو ان کے قرب و جوار کے مسلمانوں پر فرض عین ہوجائے گا کہ مجاہدین کی مدد کریں۔
فرض کفایہ کی تعریف۔ فرض کفایہ شریعت میں ایسے ہی فرائض کو کہا جاتا ہے جن کی ادائیگی ہر فرد مسلم پر ضروری نہیں بلکہ بعض کا کرلینا کافی ہے اور عموماً قومی اور اجتماعی کام اسی درجہ میں ہیں، علوم دینیہ کی تعلیم و تبلیغ بھی ایسا ہی فرض ہے کہ چھ لوگ اس میں مشغول رہیں اور وہ کافی بھی ہوں تو دوسرے مسلمان اس فریضہ سے سبکدوش ہوجاتے ہیں لیکن جہاں کوئی بھی مشغول نہ ہو تو سب گنہگار ہوتے ہیں۔
نماز جنازہ اور تجہیز و تکفین بھی ایک قومی چیز ہے کہ ایک بھائی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کا حق ادا کرتا ہے اور اس کا حکم بھی یہی ہے مساجد اور مدارس بنانا اور دوسرے رفاہ عامہ کے کام سر انجام دینا اسی حکم میں داخل ہیں، یعنی بعض مسلمان کرلیں تو باقی سبکدوش ہوجاتے ہیں۔
عام طور پر وہ احکام جو اجتماعی اور قومی ضرورتوں سے متعلق ہیں ان کو شریعت اسلام نے فرض کفایہ ہی قرار دیا ہے، تاکہ تقسیم عمل کے اصول پر تمام فرائض کی ادائیگی ہو سکے، کچھ لوگ جہاد کا کام انجام دیں، کچھ تعلیم و تبلیغ کا، کچھ دوسری اسلامی یا انسانی ضروریات مہیا کرنے کا۔
اس آیت میں وکلاً وعد اللہ الحسنی فرما کر ان لوگوں کو بھی مطمئن فرما دیا ہے جو جہاد کے علاوہ اسلام کے دشمنوں کی مدافعت کے لئے کافی ہو اور اگر ان کا جہاد کافی نہ رہے ان کو مزید کمک کی ضرورت ہو تو اول قرب و جوار کے مسلمانوں پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے وہ بھی کافی نہ ہو تو ان کے آس پاس کے لوگوں پر فرض عین ہوجاتا ہے اور وہ بھی کافی نہ رہیں تو دوسرے مسلمانوں پر یہاں تک کہ مشرق و مغرب کے ہر مسلمان کا یہ فرض ہوجاتا ہے کہ اس میں شریک ہو۔
Top