Ahsan-ut-Tafaseer - Ibrahim : 41
رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۠   ۧ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب اغْفِرْ لِيْ : مجھے بخشدے وَلِوَالِدَيَّ : اور میرے ماں باپ کو وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ : اور مومنوں کو يَوْمَ : جس دن يَقُوْمُ : قائم ہوگا الْحِسَابُ : حساب
اے پروردگار حساب (کتاب) کے دن مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور مومنوں کو مغفرت کیجئیو۔
41۔ شریعت میں ظلم کا لفظ شرک اور کبیرہ گناہ دونوں معنوں میں بولا جاتا ہے چناچہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، مسند امام احمد ترمذی اور نسائی میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جب سورت انعام کی آیت { الذین امنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم } [6: 82] نازل ہوئی تو صحابہ کرام کو بڑا اندیشہ ہوا اور صحابہ نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ حضرت ہم میں ایسا کون شخص ہے جو اپنے نفس پر ظلم نہیں کرتا اور طرح طرح کے گناہ نہیں کرتا آپ نے فرمایا اس آیت میں ظلم کے معنے شرک کے ہیں لیکن صحابہ نے ظلم کے معنے گناہ کے جو سمجھے تھے اس کی ایک طرح سے آپ نے تائید فرمائی کہ سورت لقمان کی آیت { ان الشرک لظلم عظیم } [31: 13] پڑھ کر صحابہ کو 1 ؎ سنائی جس سے معلوم ہوا کہ شرک بڑا ظلم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے کھانے پینے اور سب ضروریات کی چیزوں کو پیدا کیا اور انسان ظالم یہ ظلم کرتا ہے کہ بغیر کسی استحقاق کے غیروں کو اللہ کی عبادت میں شریک کرتا ہے۔ عبادت نام ہے نہایت درجہ کی تعظیم کرنا اس سے بڑھ کر کونسا ظلم دنیا میں ہوسکتا ہے اس طرح اپنے پیدا کرنے والے کے خلاف مرضی کوئی کام کرنا یہ بھی ظلم تو ہے مگر پہلے ظلم سے چھوٹا ہے اس واسطے شریعت میں یہ حکم رکھا گیا ہے کہ شرک بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتا اور اگر بغیر توبہ کے ایسا کوئی شخص مرجاوے جو مشرک تو نہ ہو لیکن کبیرہ گناہوں کا گنہگار ہو تو ایسے شخص کے گناہوں کے معانی کی امید شریعت میں اللہ کی ذات سے رکھی گئی ہے غرض اوپر کی صحیح حدیثوں کو ان آیتوں کی تفسیر قرار دینے سے حاصل معنے ان آیتوں کے یہ ہیں کہ مشرک کے شرک اور گنہگاروں کے گناہ کی سزا فوراً دنیا میں جو اللہ تعالیٰ نہیں دیتا اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے کاموں سے بیخبر ہے بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ سزا کا ایک دن اللہ نے ٹھہرا رکھا ہے اس دن جو ہونا ہے وہ ہوجاوے گا اس لئے اس دن کے آنے سے پہلے اے رسول اللہ ﷺ کے ذرا لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ کہ اس دن غافل لوگ دنیا کی فرصت اور فراغت کے وقت کو بہت یاد کریں گے اور وہ یاد کرنا ان کے کچھ کام نہ آوے گا جو شرک یا گنہگاری کے سبب سے حق اللہ میں فتور ڈال کر اپنے نفس پر ظلم کرتے اور اس ظلم کے سبب سے اپنے آپ کو عذاب الٰہی کا سزاوار ٹھہراتے ہیں یہ تو ان کا حال ہوا اب بعضے وہ لوگ ہیں جو شرک سے بچنے اور نماز روزہ کے ادا کرنے میں حق اللہ کے تو پابند ہیں مگر مخلوق الٰہی کو طرح طرح کی ایذا دیتے ہیں یہ حق العباد کا ظلم کہلاتا ہے اس طرح کے ظلم کی سزا کا ذکر جو صحیح حدیثوں میں ہے اس کے پڑھنے سے بڑا افسوس ہوتا ہے کہ اس طرح کے ظالم لوگ تمام عمر عقبیٰ کے لئے نیکیاں کمائیں گے اور پھر عقبیٰ میں خالی ہاتھ رہ جاویں گے۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک روز صحابہ ؓ سے پوچھا کہ مفلس کس شخص کو کہتے ہیں صحابہ نے عرض کیا کہ حضرت ہم لوگ تو مفلس اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس روپیہ پیسہ نہ ہو آپ نے فرمایا اصل مفلس وہ شخص ہے کہ جس کے نامہ اعمال میں قیامت کے دن نماز روزہ سب کچھ ہوگا لیکن اس شخص نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی کسی پر بہتان لگایا ہوگا کسی کو جان سے مارا ہوگا کسی کا مال دبا لیا ہوگا اس لئے اس کی نیکیوں کا ثواب مظلوموں کو مل جاوے گا اور نیکیوں کا ثواب کم رہے گا تو مظلوم لوگوں کی بدیاں اس کے ذمہ پڑجاویں گی اور یہ شخص خالی ہاتھ دوزخ میں جا پڑے گا۔ 2 ؎ 1 ؎ صحیح بخاری ص 666، 704 ج کتاب التفسیر و تفسیر ابن کثیر ص 152 ج 2۔ 2 ؎ الترغیب ص 30 ج 2 فصل نے ذکر الحساب۔
Top