Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Kahf : 99
وَ تَرَكْنَا بَعْضَهُمْ یَوْمَئِذٍ یَّمُوْجُ فِیْ بَعْضٍ وَّ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَجَمَعْنٰهُمْ جَمْعًاۙ
وَتَرَكْنَا : اور ہم چھوڑ دیں گے بَعْضَهُمْ : ان کے بعض يَوْمَئِذٍ : اس دن يَّمُوْجُ : ریلا مارتے فِيْ بَعْضٍ : بعض (دوسرے) کے اندر وَّنُفِخَ فِي الصُّوْرِ : اور پھونکا جائے گا صور فَجَمَعْنٰهُمْ : پھر ہم انہیں جمع کرینگے جَمْعًا : سب کو
(اس روز) ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ (روئے زمین پر پھیل کر) ایک دوسرے میں گھس جائیں گے اور صور پھونکا جائے گا تو ہم سب کو جمع کرلیں گے
99۔ 102 یہ ہر ایک ایماندار آدمی کا اعتقاد ہے کہ دنیا کی کوئی چیز ہمیشہ رہنے والی نہیں اسی اعتقاد کے موافق ذوالقرنین نے وقت مقررہ پر اس دیوار کے گر جانے کا ذکر کیا اب اس دیوار کے گرجانے کے بعد جو کچھ ہوگا وہ ایک غیب کی بات تھی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ اس دیوار کے گرتے ہی یاجوج ماجوج اپنی کثرت کے سبب سے دریا کہ موج کی طرح تمام زمین پر پھیل جائیں گے صحیح مسلم کی نواس بن سمعان کی جس روایت 1 ؎ کا تذکرہ اوپر گزرا اس میں یاجوج ماجوج کے زمین پر پھیل جانے سے لے کر پہلے صور تک کا حال یوں ہے۔ کہ یاجوج ماجوج کے زمین پر پھیل جانے سے پہلے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا کہ تم اپنے ساتھ کے ایمان دار لوگوں کو لے کر کوہ طور پر چڑھ جاؤ کیونکہ زمین پر اب اللہ کی ایک ایسی مخلوق پھیلنے والی ہیں جس کے مقابلہ کی تمہیں طاقت نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے موافق عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے ساتھیوں کو لے کر کوہ طور پر چڑھ جائیں گے اور یاجوج ماجوج زمین پر پھیل کر طرح طرح کی دھوم مچادیں گے جس کا ذکر اوپر کی آیتوں کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔ کوہ طور پر عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو کھانے کی چیزوں کی اس قدر تکلیف ہوگی کہ ایک گائے کی سری کی قدر اشرفیوں سے بھی زیادہ ہوجائے گی اس تکلیف سے تنگ آن کر عیسیٰ (علیہ السلام) یاجوج ماجوج کے حق میں بددعا کریں گے اور اللہ کے رسول کی بددعا سے جس طرح یاجوج ماجوج ہلاک ہوجائیں گے اس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے یاجوج ماجوج کی ہلاکت کے بعد اللہ تعالیٰ ایک طرح کے جانور پیدا کرے گا جو جانور یاجوج ماجوج کی لاشوں کو اٹھا کر جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا وہاں پھینک دیں گے اور اللہ کے حکم سے پھر خوب مینہ برسے گا جس سے زمین پر ان لاشوں کے سبب سے بدبو جو پھیل گئی تھی وہ سب جاتی رہے گی اس کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی زمین پر رہیں گے اگرچہ نواس بن سمعان ؓ کی روایت میں ان سات کا ذکر نہیں ہے لیکن صحیح مسلم کی اور روایتوں میں یہ ذکر صاف آیا ہے 2 ؎۔ اس نواس بن سمعان ؓ کی وایت کے موافق اس کے بعد ایک ٹھنڈی ہوا ایسی چلے جس کے اثر سے سب لوگ مرجائیں گے جن کے دل میں کچھ بھی ایمان ہے۔ صحیح مسلم کی انس بن مالک کی روایت کے مطابق تمام دنیا فنا ہوجائے گی اس کے چالس برس کے بعد دوسرا صور پھونکا جائے گا اور سب لوگ قبروں سے اٹھ کر حساب و کتاب کے لیے میدان محشر میں جمع ہوجائیں گے 3 ؎۔ اسی دوسرے صور کا اور سب لوگوں کے میدان محشر میں جمع ہوجانے کا ذکر اس آیت میں ہے۔ دوسرے صور کے بعد جو کچھ ہونے والا ہے اس کے مشرکین مکہ منکر تھے اسی واسطے خاص طور پر اسی کا ذکر فرمایا یاجوج ماجوج کے نکلنے کے بعد سے دوسرے صور تک جن باتوں کا ذکر اوپر گزرا ان باتوں کا کچھ ذکر آیت میں نہیں فرمایا اس تفسیر میں کئی جگہ اس بات کا ذکر آیا ہے کہ ہجرت سے پہلے مسلمانوں کی کمزوری کے زمانہ میں درگزر کا جو حکم تھا ہجرت کے بعد مسلمانوں میں قوت آجانے اور جہاد کا حکم نازل ہوجانے سے وہ درگزر کا حکم منسوخ نہیں ہے کیونکہ شریعت میں جو احکام کسی سبب کے موجودگی پر منحصر ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ جب سبب پایا جائے گا تو حکم بھی پایا جائے گا نہیں تو نہیں۔ مثلا مالداری زکوٰۃ کے واجب نہ ہونے کا سبب ہے اب فرض کیا جائے کہ ایک شخص کچھ عرصہ تک تنگدست تھا پھر مالدار ہوگیا اور کچھ مدت کے بعد پھر پہلے کی طرح اس کو تنگدستی نے آن گھیرا تو جس طرح پہلے تنگدستی کے زمانہ میں شریعت کا حکم ہے کہ ایسے تنگدست شخص پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے کیونکہ زکوٰۃ کے واجب ہونے کا سبب اس شخص میں اب نہیں پایا جاتا یہی حکم ہے کہ ہجرت سے پہلے مسلمانوں کی کمزوری کے سبب سے درگزر کا حکم تھا جہاد کا حکم نہیں تھا ہجرت کے بعد مسلمانوں میں قوت آگئی اس لیے جہاد کا حکم ہوا اب ضعف اسلام کے وقت مسلمان کی وہی حالت ہوجائے گی جو مالدار شخص کی پچھلی تنگدستی کی حالت تھی اس واسطے جس طرح ایسے تنگدست شخص کے حق میں شریعت کا یہ حکم ہے کہ ایسے شخص پر زکوٰۃ واجب نہیں اسی طرح مسلمانوں کی کمزوری کے میں یہی قول صحیح قرار دیا گیا ہے کہ جہاد کے حکم سے درگزر کا حکم منسوخ نہیں ہے وہاں صحیح مسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری ؓ کی وہ حدیث بھی ذکر کی گئی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ایماندار شخص جب کوئی خلاف شریعت بات دیکھے تو قوت کے وقت ہاتھ پاؤں کی کوشش سے درگزر کرنے اور زبانی نصیحت یا دلی نفرت کے کافی ہوجانے کا حکم اللہ کے رسول ہرگز نہ دیتے جو مطلب ابوسعید خدری ؓ کی حدیث سے کئی جگہ ثابت کیا گیا ہے وہی مطلب تو اوس بن سمعان ؓ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کیونکہ شرعی روایتوں سے جس طرح یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ آخری زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے زمین پر آئیں گے اور چالیس برس کے قریب زمین پر رہیں گے اسی طرح شرعی روایتوں سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ اس زمانہ میں عیسیٰ (علیہ السلام) ہر کام شریعت محمدی کے موافق کریں گے اب اگر شرع محمدی میں درگزر کا حکم منسوخ ٹھہرایا جاوے تو عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہ حکم کیوں کر ہوسکتا ہے کہ تم میں یاجوج ماجوج کے مقابلہ کی طاقت نہیں ہے اس لیے تم ان کے مقابلہ سے درگزر کرو اور اپنے ساتھیوں کو لے کر کوہ طور پر چڑھ جاؤ۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ ستر ہزار نکیلیں لگا کر دوزخ کو محشر کے میدان میں لایاجائے گا 4 ؎۔ آیت میں یہ جو ذکر ہے کہ دوزخ میں جھونکے جانے سے پہلے نافرمان لوگوں کو دوزخ کے عذاب کا حال دکھایا جاوے گا یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس دوزخ کے یہ لوگ دنیا میں منکر تھے ان کو قائل کرنے کے لیے پہلے میدان محشر میں اس دوزخ کو انہیں دکھایا جائے گا، حساب و کتاب کے بعد اس اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص جنت میں داخل ہونے کے قابل کام کرے گا اور کون دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل اب دنیا میں پیدا ہونے کے بعد ہر شخص اسی انجام کے قابل کام کرتا ہے اور ویسے ہی کام اس کو اچھے اور آسان معلوم ہوتے ہیں اس حدیث کو آیت کے ساتھ ملانے سے آیت کے آخری ٹکڑے کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے علم غیب میں دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل قرار پاچکے ہیں وہ برے کاموں میں ایسے مصروف ہیں۔ اوپر ان مشرکوں کا ذکر تھا جن کی آنکھوں پر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی نشانیوں کے دیکھنے سے پردہ پڑا ہوا تھا اور ان کے کان قرآن کی نصیحت کے سننے سے بہرے تھے اس آیت میں فرمایا کیا ایسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شیطان کے بہکانے سے جن نیک لوگوں کی مورتوں کی پوجا یہ بت پرست دنیا میں کرتے ہیں عقبیٰ میں وہ نیک لوگ ان بت پرستوں کے کچھ کام نہ آئے گے پھر فرمایا یہ سمجھ ان لوگوں کی بڑی نادانی کی سمجھ ہے عقبیٰ میں وہ نیک لوگ ان بت پرستوں کی بت پرستی پر اللہ تعالیٰ کو گواہی سے بیزاری ظاہر کریں گے اور اللہ تعالیٰ کو جو گواہ قرار دیں گے اس کا ذکر سورة یونس میں گزر چکا ہے اور مشرک کی بخشش نہ ہونے کا جو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اس کا ذکر سورة النساء میں گزر چکا ہے صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس قوم میں پہلے پہل بت پرستی پھیلی اس قوم میں کے کچھ نیک لوگ مرگئے تھے جن کے مرجانے کا رنج قوم کے لوگوں کو بہت تھا شیطان نے قوم کے لوگوں کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ ان نیک لوگوں کی صورت کی مورتیں بنا کر رکھ لی جائیں تو ان نیک لوگوں کے آنکھوں کے سامنے سے اٹھ جانے کا کچھ رنج کم ہوجائے گا قوم کے لوگوں نے اس وسوسہ شیطانی کے موافق عمل کیا اور ایک عرصہ تک تو وہ بت یوں ہی رہے پھر رفتہ رفتہ ان کی پوجا ہونے لگی اسی قوم کی ہدایت کے لیے نوح (علیہ السلام) نبی ہو کر آئے مگر بت پرستی دنیا سے نہ اٹھی 5 ؎۔ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ بغیر مرضی اور بلا اجازت نیک لوگوں کے نیک لوگوں کی مورتیں بنائی گئیں اور ان ہی مورتوں کی پوجا سے دنیا میں بت پرستی شروع ہوئی جس کی ان نیک لوگوں کو خبر تک نہیں، اسی واسطے قیامت کے دن وہ نیک لوگ اس سے اپنی بیخبر ی اور بیزاری ظاہر کر کے اللہ تعالیٰ کو اس پر گواہ ٹھہرا دیں گے۔ 1 ؎ تفسیر ابن کثیرص 195۔ 192۔ ج 3 2 ؎ فتح الباری ص 576 ج 2 3 ؎ مشکوٰۃ ص 480 باب لاتقوم الساعۃ الا علی شرار الناس 4 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 102 ج 3 5 ؎ صحیح بخاری 732 ج 2
Top