Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anbiyaa : 26
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ١ؕ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَۙ
وَقَالُوا : اور انہوں نے کہا اتَّخَذَ : بنا لیا الرَّحْمٰنُ : اللہ وَلَدًا : ایک بیٹا سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے بَلْ : بلکہ عِبَادٌ : بندے مُّكْرَمُوْنَ : معزز
اور کہتے ہیں کہ خدا بیٹا رکھتا ہے وہ پاک ہے (اسکے نہ بیٹا ہے نہ بیٹی) بلکہ (جن کو یہ لوگ اس کے بیٹے اور بیٹیاں سمجھتے ہیں) وہ اس کے عزت والے بندے ہیں
26۔ 29:۔ سورة والصافات میں شعب الایمان بیہقی ‘ تفسیر سدی ‘ تفسیر مقاتل وغیرہ کے حوالہ سے قتادہ وغیرہ کا قول آوے گا کہ مشرکین مکہ سے قبیلہ خزاعہ کے لوگ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی اولاد کہتے تھے اور ان کی مورتوں کی پوجا کر کے یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ جن بتوں کی مورتوں کی ہم پوجا کرتے ہیں ‘ اگر قیامت قائم ہوئی تو وہ فرشتے اللہ کے روبرو ہماری سفارش کرکے ہم کو دوزخ کی آگ سے چھڑا لیویں گے ‘ اسی کے جواب میں فرمایا کہ جس طرح ان مشرکوں کے پاس بت پرستی کی کچھ سند نہیں ‘ اسی طرح فرشتوں کو اللہ کی اولاد ٹھہرانے کی بھی ان کے پاس کوئی سند نہیں ہے ‘ شیطان کے بہکانے سے اپنی اٹکل سے یہ لوگ جو جی میں آتا ہے بکتے ہیں جس کا خمیازہ وقت مقررہ پر بھگتیں گے ‘ پھر فرمایا فرشتے تو اللہ کے ایسے فرمانبردار بندے ہیں کہ اللہ کے حکم پر چلتے ہیں ‘ اپنی حد سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی خلاف مرضی کوئی بات بھی وہ منہ سے نہیں نکالتے اور ان کو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم بھی معلوم ہے کہ جو مشرک بغیر توبہ کے مرجاوے گا تو جس طرح سوئی کے ناکے میں اونٹ کا گھس جانا ناممکن ہے ‘ اسی طرح ایسے مشرک کی نجات ناممکن ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے برخلاف اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان مشرکوں کی سفارش کیونکر کرسکتے ہیں ‘ پھر فرمایا فرشتے اللہ کی جو کچھ آئندہ فرمانبرداری کریں گے وہ اور ان آیتوں کے نازل ہونے تک جو فرمانبرداری انہوں نے کی ہے وہ اللہ کے علم سے باہر نہیں ہے ‘ یہ مشرک جو کہتے ہیں کہ اگر قیامت قائم ہوئی تو فرشتے اللہ کے روبرو ان مشرکوں کی سفارش کر کے ان مشرکوں کو دوزخ کے عذاب سے چھڑا لیویں گے یہ ایک ایسی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں ان کا کہیں پتہ نہیں ہے بلکہ اللہ کے علم غیب میں تو یہ ہے کہ فرشتے اللہ کی ہیبت سے بہت ڈرتے ہیں ‘ پھر ان سے یہ نڈر پنے کا کام کیونکر ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے برخلاف ان مشرکوں کی سفارش کرنے کی جرأت کریں گے ‘ پھر فرمایا ‘ فرشتوں کی مورتوں کو یہ لوگ شیطان کے بہکانے سے پوجتے ہیں ‘ فرشتے ان کے اس شرک سے بالکل بیزار ہیں کیونکہ پچھلی قوموں پر جتنے عذاب آئے ہیں وہ فرشتوں ہی کے ہاتھوں آئے ہیں اس لیے فرشتوں کو یہ معلوم ہے کہ جو فرشتہ اپنی پوجا کا حرف بھی زبان پر لاوے تو بنی آدم میں کی نافرمان قوموں کی سزا کی طرح ایسے فرشتے کی سزا جہنم ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری ؓ کی اس حدیث کا ذکر کئی جگہ گزر چکا ہے جس میں قیامت کے دن کی شفاعت کا ذکر تفصیل سے ہے ‘ اس حدیث کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ ملائکہ ‘ انبیاء اور صلحا کی شفاعت کا سلسلہ ان کلمہ گو گنہگاروں پر ختم ہوجائے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا یہ حدیث الا لمن ارتضی کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ الا لمن ارتضی کی حد ان کلمہ گو گنہگاروں تک ہے جن کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان ہے جو مشرک بغیر توبہ کے مرجاویں گے نہ ان کا شمار کلمہ گو گنہگاروں میں ہوسکتا ہے ‘ نہ ان کی شفاعت کی قیامت کے دن کچھ امید ہے اوپر کے ذکر کے موافق مشرکین مکہ شفاعت کی جس بےبنیاد امید پر جیتے تھے ‘ اس بےبنیاد امید کا حال ان کو وقت پر معلوم ہوجائے گا ‘ صحیح بخاری میں ابوہریرہ ؓ سے طبرانی میں نواس بن سمعان سے اور تفسیر ابن مردویہ میں عبداللہ ؓ بن مسعود سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ وحی کے طور پر کوئی حکم فرماتا ہے تو سب فرشتے ڈر کے مارے کانپ جاتے ہیں ‘ پہلے پہل جبرئیل (علیہ السلام) کا ڈر کم ہوتا ہے اور وہ وحی کے حکم کو سمجھ کر باقی کے فرشتوں کی تسکین کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ معمولی حکم صادر ہوا ہے ‘ کچھ خوف نہ کرو ‘ اس تسکین کے بعد فرشتوں کا خوف کم ہوجاتا ہے آیتوں میں یہ جو ذکر ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے خوف سے ڈرتے رہتے ہیں ‘ اس کا مطلب ان روایتوں سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔
Top