Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hajj : 65
وَ اخْتَارَ مُوْسٰى قَوْمَهٗ سَبْعِیْنَ رَجُلًا لِّمِیْقَاتِنَا١ۚ فَلَمَّاۤ اَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَهْلَكْتَهُمْ مِّنْ قَبْلُ وَ اِیَّایَ١ؕ اَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَآءُ مِنَّا١ۚ اِنْ هِیَ اِلَّا فِتْنَتُكَ١ؕ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَآءُ وَ تَهْدِیْ مَنْ تَشَآءُ١ؕ اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ
وَاخْتَارَ : اور چن لئے مُوْسٰي : موسیٰ قَوْمَهٗ : اپنی قوم سَبْعِيْنَ : ستر رَجُلًا : مرد لِّمِيْقَاتِنَا : ہمارے وعدہ کے وقت کے لیے فَلَمَّآ : پھر جب اَخَذَتْهُمُ : انہیں پکڑا ( آلیا) الرَّجْفَةُ : زلزلہ قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب لَوْ شِئْتَ : اگر تو چاہتا اَهْلَكْتَهُمْ : انہیں ہلاک کردیتا مِّنْ قَبْلُ : اس سے پہلے وَاِيَّايَ : اور مجھے اَتُهْلِكُنَا : کیا تو ہمیں ہلاک کریگا بِمَا : اس پر جو فَعَلَ : کیا السُّفَهَآءُ : بیوقوف (جمع) مِنَّا : ہم میں سے اِنْ هِىَ : یہ نہیں اِلَّا : مگر فِتْنَتُكَ : تیری آزمائش تُضِلُّ : تو گمراہ کرے بِهَا : اس سے مَنْ : جس تَشَآءُ : تو چاہے وَتَهْدِيْ : اور تو ہدایت دے مَنْ : جو۔ جس تَشَآءُ : تو چاہے اَنْتَ : تو وَلِيُّنَا : ہمارا کارساز فَاغْفِرْ : سو ہمیں بخشدے لَنَا : اور تو وَارْحَمْنَا : ہم پر رحم فرما وَاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہترین الْغٰفِرِيْنَ : بخشنے والا
کیا تم نہیں دیکھتے کہ جتنی چیزیں زمین میں ہیں (سب) خدا نے تمہارے زیر فرمان کر رکھی ہیں ؟ اور کشتیاں (بھی) اسی کے حکم سے دریا میں چلتی ہیں اور وہ آسمان کو تھامے رہتا ہے کہ زمین پر (نہ) گرپڑے مگر اسکے حکم سے بیشک خدا لوگوں پر نہایت شفقت کرنے والا مہربان ہے
65:۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیاں بیان فرمائی ہیں ‘ مثلا مینہ کا موسم پر برسنا جس سے طرح طرح کی پیداوار کھیتوں اور باغات میں پیدا ہوتی ہے ‘ یہی مینہ اگر بےوقت برسے یا ضرورت سے زیادہ یا کم برسے تو کچھ فائدہ نہیں ہوتا بلکہ الٹا نقصان ہوتا ہے اور اگر بالکل نہ برسے تو قحط بڑھ جاتا ہے ‘ ان آیتوں میں فرمایا ‘ وہی مینہ کا پانی ندیوں اور دریاؤں میں جمع ہوجاتا ہے اور اس پانی میں کشتیاں چلتی ہیں اور اس ملک کی پیداوار اس ملک میں اور اس ملک کی اس ملک میں ان کشتیوں کے ذریعہ سے دریاؤں میں چلی جاتی ہے ‘ اسی طرح جانور جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں ان کے ذریعہ سے طرح طرح کی تجارت خشکی میں ہوتی ہے ‘ آسمان جو اتنی بڑی چھت ہے اس کو بغیر ستون کے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے جو اللہ کی حفاظت اور اس کے حکم سے کھڑا ہے ایسے خالق کو چھوڑ کر لوگ سوا اس کے اوروں کی پرستش یا عبادت جو کرتے ہیں اللہ چاہے تو آسمان کو پٹخ دیوے کہ تمام دنیا کے لوگ دب کر مرجاویں ‘ یا مینہ ضرورت سے زیادہ برسا دیوے کہ تمام دنیا غرق ہوجاوے یا بالکل نہ برساوے کہ قحط سے سب آدمی اور جانور ہلاک ہوجاویں ‘ غرض جو سامان آدمی کی زیست اور راحت کے ہیں اگر وہ خالق ان سب سامانوں کو اپنی قدرت سے ایک اندازہ پر نہ رکھے تو یہی سامان انسان اور دنیا کی ہلاکت کا سبب قرار پاسکتے ہیں ‘ ان نشانیوں کو ذکر فرما کر پھر فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان اور شفیق ہے ‘ باجود اس کے کہ انسان خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی پرستش کرتا ہے ‘ خدا کے عذاب کو بھول کر طرح طرح کے گناہ کرتا ہے اس پر بھی اللہ تعالیٰ انسان کی راحت کے سامان میں کچھ فرق نہیں ڈالتا بلکہ جس طرح شفیق آقا اپنے فرمانبردار غلام کی پرورش میں لگا رہتا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ اس نافرمان غلام انسان کو پالتا اور پرورش کرتا ہے ‘ پھر فرمایا کہ انسان بڑا ناشکرہ ہے کہ نہ اس نے اس بات کی شکر گزاری کی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی راحت کے کیا کیا سامان پیدا کئے ہیں ‘ نہ اس بات کی شکر گزاری کی کہ باوجود نافرمانی کے اللہ تعالیٰ نے انسان کی راحت کے ان سامانوں کو بدستور جاری اور قائم رکھا ہے ‘ صحیحین ‘ مسند امام احمد وغیرہ کے حوالہ سے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ بردبار کوئی نہیں ہے۔ یہ لوگ اس کی نافرمانی کرتے ہیں اور وہ ان کو تندرستی اور رزق دیتا ہے اور ان کی ہر طرح کی بلا کو ٹالتا ہے نافرمان لوگوں پر جلدی سے کوئی آفت جو نہیں آتی ‘ یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے ‘ جس کا حاصل یہ ہے کہ نافرمان لوگوں کے کام اگرچہ اللہ کی مرضی کے موافق نہیں ہیں لیکن یہ اللہ کی بردباری ہے کہ اس نے ان نافرمان لوگوں کو ڈھیل دے رکھی ہے جلدی سے کوئی آفت ان پر نازل نہیں فرماتا ہے۔
Top