Ahsan-ut-Tafaseer - Ash-Shu'araa : 141
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا ثَمُوْدُ : ثمود الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
اور قوم ثمود نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
(141 تا 159) حضرت نوح (علیہ السلام) سے سلسلہ شروع ہو کر یہ تیسرے پیغمبر حضرت صالح ہیں جو حضرت ہود ( علیہ السلام) کے بعد نبی ہوئے قوم ثمود ان کی امت کا نام ہے شروع میں صالح (علیہ السلام) نے بھی اپنی امت کو وہی نصیحت کی ہے جو نوح ( علیہ السلام) اور ہود ( علیہ السلام) (علیہ السلام) نے اپنی امت کو کی تھی مکان اینٹ اور پتھر کے بناتے تھے یہ لوگ پہاڑوں میں مکان تراش ثراش کر ان مکانوں میں رہتے تھے۔ صحیح بخاری وغیرہ کے حوالہ سے سورة ہود میں روایتیں گزر چکی ہیں 1 ؎ کہ تبوک کی لڑائی کے وقت آنحضرت ﷺ اپنی اس قوم کے اجڑے ہوئے مکانات پر سے ہو کر گزرے تھے اور آپ ﷺ نے صحابہ ؓ کو ان لوگوں کے مکانات کے اندر جانے سے منع فرمایا تھا ‘ اور سوائے اونٹنی والے کنوئیں کے اور کسی پانی سے جن صحابہ ؓ نے آٹا گوندھا تھا یا کھانا پکایا تھا وہ آٹا اور کھانا آپ ﷺ نے پھنکوا دیا تھا اور فرمایا تھا کہ اس عذاب میں گرفتار ہوئی قوم کے مکانات کو دیکھ کر خدا سے ڈرنا چاہیے خدا سے کیا دور ہے کہ وہ اوروں کو بھی اسی طرح اپنے عذاب میں پکڑ لیوے جب صالح (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو عیش و آرام کی غفلت اور سرکش لوگوں کی عادتوں سے منع کیا تو ان لوگوں نے صالح (علیہ السلام) پر جادو کا اثر بتلایا اور ان سے کسی معجزے کے دکھانے کی خواہش کی اور صالح (علیہ السلام) نے اونٹنی کا معجزہ دکھایا جس کا پورا قصہ سورة ہود میں گزر چکا ہے لیکن اس قوم کے لوگوں نے اونٹنی کا معجزہ دیکھ کر بھی حضرت صالح کی فرمانبرداری قبول نہیں کی اور سرکشی سے اس اونٹنی کو ہلاک کر ڈالا تو ان لوگوں پر اس طرح عذاب آیا کہ آسمان سے ایک سخت آواز آئی اور زمین میں زلزلہ آیا اس صدمے سے ان لوگوں کے کلیجے پھٹ گئے اور مرگئے قرآن شریف میں اس قوم کے عذاب کے ذکر میں اس واسطے کہیں فقط زلزلہ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور کہیں سخت آواز کا ابو جعفرابن جریر (رح) اور معتبر مفسر علماء نے اس بات کی صراحت اچھی طرح کردی ہے کہ اس قوم کا عذاب دونوں چیزیں مل کر تھا اس قوم میں سے چار ہزار آدمیوں کے قریب لوگ مسلمان بھی ہوئے باقی کے سرکش لوگ مسلمانوں سے جھگڑتے رہے اور حضرت صالح ( علیہ السلام) سے کہا کہ اگر تم سچے نبی ہو تو ہم پر عذاب لے آؤ۔ اس پر وہ عذاب آیا مسند امام احمد اور مستدرک حاکم میں حضرت جابر ؓ سے 2 ؎ معتبر روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ تبوک کی لڑائی کے وقت جب آنحضرت ﷺ ثمود کی بستی حجر سے گذرے تو آپ ﷺ نے فرمایا اے لوگوں انبیاء ( علیہ السلام) سے معجزہ چاہنا اچھا نہیں ہے اس قوم ثمود نے اللہ کے نبی صالح سے معجزہ کی خواہش کی اور اونٹنی کا معجزہ دیکھ کر بھی سرکشی سے باز نہ آئے آخر ہلاک ہوگئے حاصل کلام یہ ہے کہ یہ دونوں قومیں قوم عاد اور قوم ثمود جس طرح دنیا کی آرائش کی چیزیں باغ پختہ مکانات کے شوق اور حرص میں اپنی عمر گزارتی تھیں اس طرح کی آرائش دنیا کو آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کے حق میں ناپسند فرمایا ہے معتبر سند سے ترمذی میں حضرت علی ؓ سے روایت 1 ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہجرت کے بعد مصعب بن عمیر صحابی ؓ ایک روز مدینہ منورہ کی مسجد میں آپ کو اس حال میں نظر پڑے کہ ان کی چادر میں چمڑے کا پیوند لگا ہوا تھا مصعب بن عمیر ؓ کا یہ حال دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ نے فرمایا کہ دیکھو مکہ میں مصعب ؓ کس طرح راحت سے رہتے تھے اور اب ان کا کیا حال ہے پھر آپ ﷺ نے فرمایا میری امت کے لوگوں کا اس وقت کیا حال ہوگا کہ جب وہ دن میں کئی کئی پوشاکیں بدلیں گے اور طرح طرح کے کھانے کھاویں گے اور مکانوں کو بیت اللہ کی طرح آراستہ کریں گے صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ حضرت جب ہم لوگوں کو خوش حالی ہوجاوے گی تو ہم کو اللہ کی عبادت کا اور حقداروں کے حق ادا کرنے کا اچھا موقع ملے گا آپ ﷺ نے فرمایا نہیں تم اس حالت سے اس حالت تنگی میں بہتر ہو یہ مصعب بن عمیر ؓ مہاجرین میں ہجرت سے پہلے مکہ میں بہت خوشحالی سے رہتے تھے ہجرت کے بعد تنگ حال ہوگئے کیونکہ ان کا سب مال واسباب مکہ میں رہ گیا۔ صالح (علیہ السلام) نے اپنی امت کے لوگوں کو عیش و آرام کی غفلت سے پچنے کی جو نصیحت کی اس کا حاصل یہ ہے کہ اے لوگو دنیا ناپا ئیدار ہے اس لیے یہ باغ پانی کے چشمے کھیتیاں پکی ہوئی کھجوروں کے درخت پہاڑوں میں کے تراشے ہوئے تکلف کے مکان دنیا میں رہنے والی چیزیں نہیں ہیں۔ سورة النمل میں آوے گا کہ ان لوگوں کا ایک گروہ بڑا سرکش تھا اسی گروہ میں کے ایک شخص قدار بن سائف نے معجزہ کی اونٹنی کو ہلاک کیا اسی واسطے صالح (علیہ السلام) نے اپنی اس نصیحت میں امت کے باقی لوگوں کو اس سرکش گروہ کی عادتوں سے منع کیا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث جو اوپر گزر چکی ہے قوم ثمود کی مہلت اور ہلاکت کی وہی حدیث گویا تفسیر ہے اور حاصل اس تفسیر کا بھی وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا۔ (1 ؎ تفسیر ہذاص 273 ص 109 ج 3‘ ) (2 ؎ صتح الباری ص 227 ج 3 باب قول اللہ تعالیٰ والی ثمود اخاھم صالحا۔ الخ ) (1 ؎ الرغیب والترہیب ص 209 ج 4 فصل باب الترغیب فی الزھد )
Top