Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 141
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا ثَمُوْدُ : ثمود الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
اور قوم ثمود نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
(کذبت ثمود المرسلین۔۔۔۔۔۔ ) اتثر کون فی ماھھنا امنین یعنی دنیا میں موت اور عذاب سے امن میں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : وہ بڑے معمر لوگ تھے عمارات ان کی عمروں کے ساتھ باقی نہیں رہتی تھیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے واستعمر کم فیھا (ہود : 61) حضرت صالح (علیہ السلام) نے انہیں شرمندہ کیا اور فرمایا : کیا تم گمان کرتے ہو کہ تم دنیا میں موت کے بغیر باقی رہو گے۔ فی جنت وعیون۔ وزروع ونخل طلعھا ھضیم زمخشری نے کہا : اگر تو کہے جنت کے بعد نخل کیوں فرمایا جب کہ جنات کھجور کے درختوں کو پہلے شامل ہوتا ہے جس طرح نعم کا لفظ اونٹوں کو شامل ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ جنت کا لفظ ذکر کرتے ہیں اور وہ کھجور کے درخت مراد لیتے ہیں جس طرح وہ نعم کا ذکر کرتے ہیں اور اس سے صرف اونٹ ہی مراد لیتے ہیں۔ زہیر نے کہا : کان عینی فی غربی مقتلۃ من النواضع تسقی جنۃ سحقا گویا میری دونوں آنکھیں سیراب کرنے والی اونٹنی کے بڑے ڈول میں آنسو گرا رہی ہیں جو کھجور کے لمبے لمبے درختوں کو سیراب کر رہی ہے۔ یہاں بھی جنت سے مراد کھجور کا باغ ہے۔ نخلۃ سحوق سے مراد لمبی کھجوریں ہیں۔ میں کہتا ہوں : اس میں دو وجود ہیں (1) پہلے کھجور کے درخت تمام درختوں کے ضمن میں داخل ہوئے بعد میں کھجور کے درختوں کو انفرادی طور پر یہ شامل ہوا اس کی فضلیت کو ظاہر کرنے کے لیے (2) جنات سے دوسرے درخت مراد لیے جائیں کیونکہ یہ لفظ ان سب کی صلاحیت رکھتا ہے پھر اس پر نخل کا لفظ معطوف کیا۔ طلعۃ سے مراد ہے جو کھجور سے پھوٹتا ہے جس طرح تلوارکا پھل ہوتا ہے اس کے اندر گچھے کی شاخیں ہوتی ہیں۔ قنو تنے سے نکلنے والی چیز کو کہتے ہیں جس طرح اس کی موٹی اور باریک شاخیں ہوتی ہیں۔ حضیم حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : جب تک وہ غلاف میں ہوتا ہے وہ لطیف و نرم ہوتا ہے ھضیم سے مراد لطیف اور باریک ہے۔ اسی معنی میں امراء القیس کا مصرعہ ہے : علی ھضیم الکشح ریا المخلخل پتلے پہلو پر اس حال میں جو خوبصورت ہے اور پازیب کی جگہ۔ جوہری نے کہا : خوشے کو اس وقت تک ھضیم کہا جاتا ہے جب تک وہ اپنے غلاف سے باہر نے آئے، کیونکہ وہ ایک دوسرے میں داخل ہوتا ہے۔ اور عورتوں میں سے ھضیم اسے کہتے ہیں جو نرم پہلوئوں والی ہو پتلی کمر والی۔ اسی کی مثل ہر وی نے بیان کیا ہے اس نے کہا : اس سے مراد وہ چیز ہے جو اپنے غلاف میں ایک دوسرے سے پیوست ہوا بھی وہ ظاہر نہ ہو۔ اس سے رجل ھضیم الجنین ہے جس کے پہلو ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں، یہ اہل لغت کا قول ہے۔ ماوردی اور دوسرے علماء نے اس بارے میں بارہ قول کیے ہیں (1) تر اور نرم کھجور، یہ عکرمہ کا قول ہے (2) تر کھجوروں میں سے جس کا ایک سرا رنگ بدل چکاہو : یہ سعید بن جبیر کا قول ہے۔ نحاس نے کہا : ابو اسحاق نے یزید سے روایت نقل کی ہے اس سے مراد ابن ابی زیاد کونی اور یزید بن ابی مریم شامی ہے ونخل طلعھا ھضیم کہا ان میں سے جو پک چکی ہوں اور ان میں سے کچھ کے سرے رنگ بدل چکے ہوں (3) اس میں گٹھلی نہ ہو، یہ حضرت حسن بصری کا قول ہے (4) جو ٹوٹ جاتی ہو جب اسے مس کیا جائے تو ریزہ ریزہ ہوجائے، یہ مجاہد کا قول ہے۔ ابو العالیہ نے کہا : جو منہ میں جاتے ہی ریزہ ریزہ ہوجائے (5) اس سے مراد ہے جو ایک دوسرے پر چڑھنے کی وجہ سے پتلی رہ گئی ہو : یہ ضحاک اور مقاتل کا قول ہے (6) جن میں سے بعض بعض سے چمٹی ہوئی ہوں، یہ ابو صخر کا قول ہے (7) جب وہ الگ الگ اور سبز ہو اس وقت طلع ہوتی ہے : یہ بھی ضحاک کا قول ہے (8) جو صحیح پک چکی ہو : یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے (9) جو غلاف کے پھٹنے سے پہلے جمع ہو : اسے ابن شجرہ نے روایت کیا ہے : شاعر نے کہا : کان حمولۃ تجلی علیہ ھضیم ما یحس لہ شقوق (10) اس سے مراد نرم ہے : یہ حضرت حسن بصری کا قول ہے (11) اس سے مراد نرم و لطیف ہے جو سب سے پہلے نکلتا ہے وہی طلع نضید ہے : یہ ہر وی نے کہا ہے (12) یہ برنی ہے : یہ ابن اعرابی نے کہا۔ یہ فعیل بمعنی فاعل ہے یہ مبارک اور خوشگوار ہے کیونکہ یہ ایسا کھانا ہے جو ہضم ہوجاتا ہے طلع یہ طلوع سے اسم مشتق ہے جس کا معنی ظہور ہے اس معنی میں سورج، چاند اور نباتات کا طلوع ہے یعنی ظہورہے۔ و تنحتون من الجبال بیوتا فرھین، نحت کا معنی چھیلنا ہے نحتہ یتحتہ نحتا جب اسے چھیلا نحاتۃ برادیۃ، منحت جن کے ساتھ چھیلا جاتا ہے سورة صفات میں ہے : اتعبدون ما تنحتون۔ وہ پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے کیونکہ ان کی عمریں طویل ہوتیں اور مٹی سے جو گھر وہ بناتے تھے وہ گر جاتے تھے۔ ابن کثیر، ابو عمرو اور نافع نے فرھین الف کے بغیر پڑھا ہے۔ باقی قراء نے فارھین الف کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابو عبیدہ اور دوسرے علماء کے نزدیک دونوں کا معنی ایک ہے۔ جس طرح عظا ما نخرۃ اور ناخرۃ کا معنی ایک ہی ہے، قطرب نے اس کو بیان کیا ہے۔ فرہ یفرہ فھوفارہ وفرہ یفرہ فھو فرہ و فارہ جب وہ چشت ہو۔ یہ حال ہونے کی حیثیت سے منصوب ہے۔ دونوں کے درمیان ایک جماعت نے فرق بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا : فارھین سے مراد ہے وہ ان کو تراشے میں ماہر تھے : یہ ابو عبیدہ کا قول ہے، حضرت ابن عباس ؓ، ابو صالح اور دوسرے علماء سے یہ مروی ہے۔ عبد اللہ بن شداد نے کہا : فارھین کا معنی ہے متجیر۔ حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی مروی ہے۔ فرھین کا معنی ہے اترانے والے : یہ قول مجاہد نے بھی کیا ہے۔ ان سے شرھین بھی مروی ہے یعنی حد درجہ ( 1) ضحاک نے کہا : عقل مند۔ قتادہ نے کہا : اپنے اعمال پر خوش ہونے والے : یہی قول کلبی نے کیا ان سے ناعمین بھی مروی ہے یعنی نرم و نازک ان سے آمنین بھی مروی ہے، یہی حضرت حسن بصری کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے متخیرین، ذخیرہ کرنے والے : یہ کلبی اور سدی کا قول ہے۔ اسی معنی میں شاعر کا قول ہے : الی فرہ یماجد کل امر قصدت لہ لا ختبر الطاعا مال ذخیرہ کرنے والے کی طرف جواہر امر میں بزرگی میں مقابلہ کرتا ہے میں نے اس کا قصد کیا تاکہ طباع کو آزمائوں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا معنی متعجب ہے : یہ خصیف نے قول کیا ہے۔ ابن زید نے کہا : قول۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : 1 ؎۔ المحرر الوجیز، جلد 4، صفحہ 240 فرھین کا معنی خوش ہے : یہ اخفش کا قول ہے۔ عرب ولد اور حا ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرتے رہتے ہیں۔ تو کہتام ہے : مدھتہ، مدحتہ، الغرہ کا معنی خوش ہونے والا پھر فرح کا معنی مرح ( متکبر) مذموم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ” وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا ج “ (الاسرار : 37) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” ان اللہ لا یحب الفرحین۔ “ (القصص)
Top