Ahsan-ut-Tafaseer - Ash-Shu'araa : 208
وَ مَاۤ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍ اِلَّا لَهَا مُنْذِرُوْنَ٥ۗۛۖ
وَ : اور مَآ اَهْلَكْنَا : نہیں ہلاک کیا ہم نے مِنْ قَرْيَةٍ : کسی بستی کو اِلَّا : مگر لَهَا : اس کے لیے مُنْذِرُوْنَ : ڈرانے والے
اور ہم نے کوئی بستی ہلاک نہیں کی مگر اس کے لئے نصیحت کرنے والے (پہلے بھیج دیتے) تھے
(208 تا 213) یہ آیت مثل بنی اسرائیل کی آیت وَمَا کُنَّا مُعَذّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا کے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بغیر رسول بھیجے اور سمجھائے خدا عذاب نہیں کرتا جیسا کہ سورة القصص میں فرمایا وما کان ربک مھلک القریٰ حتی یبعث فی امھا رسولا یتلو علیھم اثینا وما کنا مھل کی القریٰ الا واھلھا ظلمون جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نہیں کھپاتے بستیوں کو مگر جب رسولوں کے بھیجنے کے بعد بستی والے ظلم کرتے ہیں غرض برے عمل عذاب کا سبب ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہے پھر فرمایا قرآن شریف میں جو نیک باتیں ہیں وہ کام شیطان کا نہیں ہے اور شیاطین تو قرآن شریف اللہ کے ہاں سے معتبر فرشتہ کی معرفت اس بڑے انتظام کے ساتھ اترتا ہے اس کے بعد حکم کیا اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو کہ نہ پکار خدا کے ساتھ کسی دوسرے کو کیونکہ وہ اکیلا ہے وحدہ لاشریک کوئی اس کا ساجھی نہیں اگر کوئی خدا کے ساتھ کسی کو شریک کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو عذاب کرے گا اگرچہ یہ آخری آیت کا ارشاد آنحضرت ﷺ کو ہے مگر اصل میں امت کے لوگوں کو اس میں شرک کی برائی جتلائی گئی ہے کہ بالفرض اگر کوئی رسول بھی شرک کر بیٹھے تو عذاب میں پکڑا جاوے پھر امت کے لوگ کس گنتی میں ہیں۔ صحیح بخاری اور مسلم کے حوالہ سے مغیرہ بن شعبہ ؓ اور عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایتیں ایک جگہ گزر چکی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو انجانی کے عذر کا رفع کردینا بہت پسند ہے اسی واسطے اس نے ہر ایک بستی میں رسول بھیجے یہ حدیث الا لھا منذرون کی گویا تفسیر ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پاک پر ٹھہرالیا ہے۔ یہ حدیث مَاکُنَّا ظَالِمِیْنَ کی گویا تفسیر ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی حدیث 1 ؎ ایک جگہ گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن شریف کے نازل ہونے کے نازل ہونے کے زمانہ میں بہ نسبت پہلے کے آسمان پر حفاظت کا انتظام زیادہ ہوگیا تھا اس لیے جو جنات اس سے پہلے آسمان پر کی باتیں چوری سے سن آیا کرتے تھے اور کاہن لوگوں سے وہ باتیں کہہ کر انہیں اپنا معتقد بنایا کرتے تھے ان جنات کو اس لیے انتظام کی بڑی جستجو میں ان جنات کی ٹکڑیاں ہر طرف پھرتی تھیں ایک دفعہ ان کا ایک ٹکڑی نے مکہ اور ظائف کے درمیان میں آنحضرت ﷺ کی صبح کی نماز میں قرآن شریف پڑھتے ہوئے سنا اور سمجھ گئے کہ اس کلام کی حفاظت کے لیے مسلمان پر چو کسی زیادہ ہوتی ہے اور اس بات کے سمجھ جانے کے بعد وہ جنات دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے سورة جن میں اس کی تفصیل زیادہ آوے گی حاصل کلام یہ ہے کہ سورة جن کی آیتیں اور یہ حدیث انھم عن السمع لمعزولون کی گویا تفسیر ہے۔ ‘ (1 ؎ بحوالہ صحیح بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورة الجن۔ )
Top