Ahsan-ut-Tafaseer - Adh-Dhaariyat : 47
وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ
وَالسَّمَآءَ : اور آسمان بَنَيْنٰهَا : بنایا ہم نے اس کو بِاَيْىدٍ : اپنی قوت۔ ہاتھ سے وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ : اور بیشک ہم البتہ وسعت دینے والے ہیں
اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا اور ہم سب کو مقدور ہے
47۔ 51۔ اور پچھلی قوموں کے ہلاک ہوجانے کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں فرمایا کہ وہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی سے ہلاک ہوئے ورنہ آسمان زمین دنیا کی تمام موجودات اس بات کے سمجھنے کے لئے سمجھ دار کو کافی ہے کہ جس نے انسان کو اور انسان کی تمام ضرورت کی چیزوں کو پیدا کیا۔ پوری تعظیم اور عبادت اسی وحدہ لاشریک کا حق ہے۔ اس حق میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ صحیح 1 ؎ بخاری و مسلم کی معاذ بن جبل کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں۔ اگر یہ حق بندوں نے ادا کردیا تو بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ وہ ان کو اپنے عذاب سے بچائے۔ اس نصیحت کے بعد فرمایا۔ اے رسول اللہ کے تم اہل مکہ کو جتلا دو کہ اگر وہ اپنی نجات چاہتے ہیں تو اللہ کی نافرمانی اور بت پرستی چھوڑ کر خالص اللہ کی عبادت میں مصروف ہوجائیں۔ ورنہ گھڑی گھڑی ان کو یہ بات سنا دو کہ میں کھلم کھلا اللہ کے عذاب سے تم لوگوں کو ڈرانے آیا ہوں صحیح 2 ؎ بخاری و مسلم میں ابوہریرہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میری اور میری امت کے نافرمان لوگوں کی مثال ایسی ہے جس طرح ایک شخص آگ جلائے اور آگ کی روشنی سے جنگل کے کیڑے پتنگے اس آگ کے گرد جمع ہو کر اسی میں گرنا شروع کردیں اور ہرچند وہ شخص ان کیڑوں پتنگوں کو اس آگ میں گرنے سے روکے مگر وہ باز نہ آئیں اسی طرح میں نافرمان لوگوں کو کمر سے پکڑ پکڑ کر دوزخ کی آگ سے بچانا چاہتا ہوں مگر یہ لوگ باز نہیں آتے اس آیت یا اس قسم کی اور آیتوں میں آنحضرت ﷺ کو جو حکم ہے کہ آپ اللہ کے عذاب سے لوگوں کو ڈرائیں۔ اس حکم کی تعمیل میں جو کچھ کوشش اور تندہی آپ ﷺ نے فرمائی۔ یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے۔ (1 ؎ صحیح بخاری کتاب التوحید ص 1096 ج 2 و صحیح مسلم باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید دخل الجنۃ ص 44 ج 1۔ ) (2 ؎ صحیح مسلم باب شفقۃ ﷺ علیٰ امتہ الخ ص 248 ج 2۔ )
Top