Ahsan-ut-Tafaseer - An-Najm : 42
وَ اَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْمُنْتَهٰىۙ
وَاَنَّ اِلٰى رَبِّكَ : اور بیشک تیرے رب کی طرف الْمُنْتَهٰى : پہنچنا ہے۔ انتہا ہے
اور یہ کہ تمہارے پروردگار ہی کے پاس پہنچنا ہے
42۔ 55۔ تیرے رب کی طرف پہنچتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اور انسان کی تمام ضرورت کی چیزوں کو جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا یہ سب تو ان منکرین حشر کی آنکھوں کے سامنے ہے اب جبکہ دنیا میں ہر صاحب عقل مثلاً مکان کا بنانا باغ کا لگانا اور اس قسم کے جو کام کرتا ہے وہ کسی نتیجہ کو پیش نظر رکھ کر کرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کی شان اور حکمت سے یہ بعید ہے کہ اس نے دنیا کے اتنے بڑے کارخانہ کو بغیر کسی نتیجہ کے یوں ہی بےفائدہ پیدا کیا ہے۔ نہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کا سارا کارخانہ اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے نیک و بد کے حساب اور جزا و سزا کے لئے تمام مخلوق کو ایک دن اللہ تعالیٰ کے رو برو کھڑا ہونا پڑے گا تاکہ دنیاکا پیدا کیا جانا بےٹھکانے نہ رہے ‘ جو لوگ اس کے منکر ہیں ان کی عقل ٹھکانے نہیں ہے مسند بزار اور 1 ؎ طبرانی کی معاذ بن جبل ؓ کی صحیح حدیث اوپر گزر چیک ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ عمر اور جوانی کس کام میں صرف کی عمل کیا کیا کئے۔ روپیہ پیسہ کیونکر کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ ان باتوں کے جواب کے لئے ہر ایک انسان کو ضرور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے رو برو کھڑا ہونا پڑے گا۔ یہ حدیث آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے وہی ہنساتا رلاتا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خوشی اور غمی کے سبب ایسے پیدا کئے ہیں جن سے اس کی بہت بڑی قدرت ظاہر ہوتی ہے اور انسان کو ان سے اللہ تعالیٰ کے پہچاننے کا بڑا موقع ملتا ہے مثلاً بڑے سے بڑے امیر شخص کو عزیروں کے مرنے یا کسی سخت مرض وغیرہ کے سبب سے کبھی ایسا رنج و غم پیش آجاتا ہے کہ ہر گھڑی اسے رونے سے کام رہتا ہے اس کا مال اس کے یار و مددگار اس کے ہنسی خوشی رہنے کی کوئی صورت نہیں نکال سکتے اور کبھی غریب سے غریب آدمی کو ایسی ہنسی خوشی سے رہنے کا ایسا سامان غیب سے پیدا ہوجاتا ہے کہ جو بیان سے باہر ہے مگر اتنی بات ہے کہ خود دنیا ناپائیدار اور اس کی خوشی اور رنج یہ سب ہری بھری چھائوں ہے وہ شخص بڑے ٹوٹے میں ہے جس نے یہاں کے عارضی ہنسی خوشی سے رہنے کے خیال میں عقبیٰ کا ہمیشہ کا رونا مول لیا۔ ابن 2 ؎ ماجہ میں انس بن مالک ؓ سے اور مستدرک 3 ؎ حاکم میں عبد اللہ بن قیس سے جو روایتیں ہیں۔ ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب روتے روتے اہل دوزخ کے آنسو سوکھ جائیں گے تو آنسوئوں کی جگہ ان کی آنکھوں سے خون بہنے لگے گا مگر وہاں کا رونا کچھ کام نہ آئے گا۔ اس حدیث کی سند میں ایک راوی یزید بن ابان رقاشی ہے جس کو بعض علماء نے ضعیف کہا ہے لیکن ابن معین اور ابن عدی نے اس کو ثقہ کہا ہے۔ وہی ہے مارتا اور جلاتا کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کی عمر پوری ہوجانے کے بعد اس کا مرنا اور اس میں انسان کا لاچار ہونا یہ تو سب کی آنکھوں کے سامنے ہے پھر جس کی قدرت میں یہ ہے وہ اس پر بھی قادر ہے کہ مرنے کے بعد نیک و بد کے حساب و کتاب کے لئے انسان کو پھر دوبارہ پیدا کرے۔ جو لوگ اس کے منکر ہیں وہ خدا کو جھٹلاتے ہیں۔ قیامت کے دن جس کا خمیازہ بھگتیں گے ابوہریرہ ؓ 1 ؎ کی صحیح حدیث اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انسان نے مجھ کو جھٹلایا میں نے اپنے کلام میں اس کے دوبارہ پیدا کرنے کی خبر دی اور وہ اس کا منکر ہے۔ ایک قطرہ منی عورت کے رحم میں جا کر کبھی اس سے لڑکا پیدا ہوتا ہے اور کبھی لڑکی یہ بھی اللہ کی ایک قدرت ہے جس میں انسان کا کچھ اختیار نہیں ورنہ جو لوگ لڑکی کے پیدا ہونے کو اچھا نہیں سمجھتے ہیں وہ لڑکی کے نہ پیدا ہونے کا ضرور کوئی علاج کرتے۔ اس پر لازم ہے دوسرا اٹھانا کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اللہ پر کوئی چیز لازم نہیں لیکن جب اس نے اپنے کلام میں انسان کے دوبارہ پیدا کرنے کا وعدہ کیا ہے تو اس پر اس وعدہ کا پورا کرنا لازم ہے۔ اسی نے دولت دی اور پونجی کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں امیر و غریب بھی اللہ کی قدرت کی ایک نشانی ہے کہ کسی کے پاس حد سے زیادہ دولت ہے اور کوئی غریبانہ پونجی گزر کے قابل رکھتا ہے لیکن دنیا کا وہ امیر بڑا بےنصیب ہے جس نے یہاں کی امیری کے نشہ میں اپنی عقبیٰ خراب کرلی۔ کیونکہ عقبیٰ کی تکلیف کے آگے دنیا کی امیری کی راحت تو کبھی یاد بھی نہ آئے گی اور عقبیٰ کی ناقابل برداشت تکلیف اس نشہ کے طفیل سے ایسے لوگوں کو اٹھانی پڑے گی۔ چناچہ صحیح مسلم 2 ؎ کی انس ؓ بن مالک کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے امیر جو دنیا کی راحت میں پھنس کر عقبیٰ سے غافل رہے اور آخر کو دوزخی قرار پائے۔ دوزخ کے پہلے ہی جھونکے میں دنیا کی سب راحت بھول جائیں گے وہی ہے رب شعریٰ کا۔ شعری ایک بہت بڑا تارا ہے جس کو عرب کے بعض قبیلے اسلام سے پہلے پوجا کرتے تھے۔ اس تارہ کی چال اور تاروں سے الگ ہے اور تاروں کی چال آسمان کی چوڑائی میں ہے اور یہ تارہ آسمان کی لمبائی کو طے کرتا ہے اس نادر بات کو اس تارے میں دیکھ کر ایک شخص ابو کبشہ نے عرب میں اس تارے کی پرستش کا رواج پھیلایا۔ جس طرح ابو کبشہ نے شعری کی پرستش کا ایک نیا رواج عرب میں پھیلایا اسی طرح اسلام کو ایک نیا رواج خیال کرکے اہل مکہ آنحضرت ﷺ کو ابن ابی کبشہ کہا کرتے تھے۔ 1 ؎ یہ ابو کبشہ آنحضرت ﷺ کی کئی پشت پرے کا نانا ہے جو قبیلے شعری کی پوجا کرتے تھے ان کو اس آیت میں یہ تنبیہ فرمائی کہ جس کی قدرت میں شعریٰ کا پیدا کرنا اس کا طلوع و غروب اس کی انوکھی چال کا مقرر کرنا ہے عبادت کے قابل وہ وحدہ لاشریک ہے۔ شعریٰ کو خدا کی خدائی میں کچھ دخل نہیں جو اس کو خدا کا شریک قرار دیا جائے۔ اب آگے چند پچھلی قوموں کے عذاب میں پکڑے جانے اور ہلاک ہوجانے کا ذکر فرما کر قریش کو یہ تنبیہ فرمائی کہ اگر یہ لوگ اپنی سرکشی اور اللہ کے رسول کی مخالفت سے باز نہ آئیں گے تو ان ہی قوموں کا سا انجام ان کا ہوگا ان قوموں کے قصے تفصیل سے اوپر گزر چکے ہیں۔ فبای الاء ربک تتماری میں پچھلی امتوں کی ہلاکت کے ذکر کو نعمت شمار کرنے کا یہ مطلب ہے کہ پچھلے لوگوں کی بری عادت سے حال کے لوگوں کو آگاہ کردینا بھی حال کے لوگوں کے لئے ایک بےبہا نصیحت کی نعمت ہے۔ (1 ؎ الترغیب والترہیب فصل فی ذکر الحساب وغیرہ ص 756 ج 4۔ ) (2 ؎ الترغیب والترہیب فصل فی بکاء ھم و شھیقہم ص 918 ج 4۔ ) (3 ؎ الترغیب والترہیب فصل فی بکاء ھم و ثھیقہم ص 919 ج 4۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة قل ہو اللہ احد۔ ص 743 ج 2۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة قل ہو اللہ احد۔ ص 743 ج 2۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری باب کیف کان بدا الوحی الخ ص 5 ج 1۔
Top