Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 81
وَ اَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْمُنْتَهٰىۙ
وَاَنَّ اِلٰى رَبِّكَ : اور بیشک تیرے رب کی طرف الْمُنْتَهٰى : پہنچنا ہے۔ انتہا ہے
اور سلیمان کے تابع کی ہوا زور سے چلنے والی کہ چلتی اس کے حکم سے اس زمین کی طرف جہاں برکت دی ہے ہم نے اور ہم کو سب چیز کی خبر ہے
وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ عَاصِفَةً ، یہ جملہ سابقہ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ پر عطف ہے یعنی جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد ؑ کے لئے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کردیا تھا جو ان کی آواز کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے اسی طرح حضرت سلیمان ؑ کے لئے ہوا کو مسخر کردیا تھا جس پر سوار ہو کر وہ جہاں چاہتے بہت جلد آسانی سے پہنچ جاتے تھے اس جگہ یہ امر قابل لحاظ ہے کہ تسخیر داؤد ؑ میں تو لفظ مَعَ استعمال فرمایا کہ ان کے ساتھ پہاڑوں پرندوں کو مسخر کردیا تھا اور یہاں حرف لام کے ساتھ فرمایا کہ ہوا کو سلیمان ؑ کے لئے مسخر کردیا تھا اس میں لطیف اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ دونوں تسخیروں میں فرق تھا، داؤد ؑ جب تلاوت کرتے تو پہاڑ اور پرندے خود بخود تسبیح کرنے لگتے تھے ان کے حکم کے منتظر نہ رہتے تھے اور حضرت سلیمان ؑ کے لئے ہوا کو ان کے حکم کے تابع بنادیا گیا کہ جب چاہیں جس وقت چاہیں جس طرف جانا چاہیں ہوا کو حکم دے دیا اس نے پہنچا دیا پھر جہاں اترنا چاہیں وہاں اتار دیا پھر جب واپس چلنے کا حکم ہوا واپس پہنچا دیا۔ (روح عن البیضاوی)
تفسیر ابن کثیر میں تخت سلیمان ؑ جو ہوا پر چلتا تھا اس کی کیفیت یہ بیان کی ہے کہ سلیمان ؑ نے لکڑی کا ایک بہت بڑا وسیع تخت بنوایا تھا جس پر خود مع اعیان سلطنت اور مع لشکر اور آلات حرب کے سب سوار ہوجاتے پھر ہوا کو حکم دیتے وہ اس عظیم الشان وسیع و عریض تخت کو اپنے کاندھوں پر اٹھا کر جہاں کا حکم ہوتا وہاں جا کر اتار دیتی تھی۔ یہ ہوائی تخت صبح سے دوپہر تک ایک مہینہ کی مسافت طے کرتا تھا اور دوپہر سے شام تک ایک مہینہ کی یعنی ایک دن میں دو مہینوں کی مسافت ہوا کے ذریعہ طے ہوجاتی تھی۔ ابن ابی حاتم نے حضرت سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے کہ اس تخت سلیمانی پر چھ لاکھ کرسیاں رکھی جاتی تھی جس میں سلیمان ؑ کے ساتھ اہل ایمان انسان سوار ہوتے تھے اور ان کے پیچھے اہل ایمان جن بیٹھتے تھے پھر پرندوں کو حکم ہوتا کہ وہ اس پورے تخت پر سایہ کرلیں تاکہ آفتاب کی تپش سے تکلیف نہ ہو پھر ہوا کو حکم دیا جاتا تھا وہ اس عظیم الشان مجمع کو اٹھا کر جہاں کا حکم ہوتا پہنچا دیتی تھی۔ اور بعض روایات میں ہے کہ اس ہوائی سفر کے وقت پورے راستہ میں حضرت سلیمان ؑ سر جھکائے ہوئے اللہ کے ذکر و شکر میں مشغول رہتے تھے دائیں بائیں کچھ نہ دیکھتے تھے اور اپنے عمل سے تواضع کا اظہار فرماتے تھے (ابن کثیر)
عَاصِفَةً ، ریح عاصفہ کے لفظی معنی سخت اور تیز ہوا کے ہیں۔ قرآن کریم کی دوسری آیت میں اس ہوا کی صفت رخاء بیان کی گئی ہے جس کے معنی نرم ہوا کے ہیں جس سے نہ غبار اڑے نہ فضا میں تلاطم پیدا ہو۔ بظاہر یہ دو متضاد صفتیں ہیں لیکن دونوں صفتوں کا جمع ہونا اس طرح ممکن ہے کہ یہ ہوا اپنی ذات میں بڑی سخت اور تیز ہو جس کی وجہ سے چند گھنٹوں میں ایک مہینہ کی مسافت طے کرسکے لیکن قدرت حق تعالیٰ نے اس کو ایسا بنادیا ہو کہ اس سے فضاء میں تلاطم نہ پیدا ہو چناچہ اس کا یہ حال بیان کیا گیا ہے کہ جس فضا میں یہ تخت روانہ ہوتا تھا وہاں کسی پرندے کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچتا تھا۔
Top