Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 134
وَ لَمَّا وَقَعَ عَلَیْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا یٰمُوْسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ١ۚ لَئِنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَ لَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَۚ
وَلَمَّا : اور جب وَقَعَ : واقع ہوا عَلَيْهِمُ : ان پر الرِّجْزُ : عذاب قَالُوْا : کہنے لگے يٰمُوْسَى : اے موسیٰ ادْعُ : دعا کر لَنَا : ہمارے لیے رَبَّكَ : اپنا رب بِمَا : سبب۔ جو عَهِدَ : عہد عِنْدَكَ : تیرے پاس لَئِنْ : اگر كَشَفْتَ : تونے کھول دیا (اٹھا لیا) عَنَّا : ہم سے الرِّجْزَ : عذاب لَنُؤْمِنَنَّ : ہم ضرور ایمان لائیں گے لَكَ : تجھ پر وَلَنُرْسِلَنَّ : اور ہم ضرور بھیجدیں گے مَعَكَ : تیرے ساتھ بَنِيْٓ اِ سْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل
اور جب ان پر عذاب واقع ہوتا تو کہتے موسیٰ ہمارے لیئے اپنے پروردگار سے دعا کرو جیسا اس نے تم سے عہد کر رکھا ہے۔ اگر تم ہم سے عذاب ٹال دو گے تو ہم تم پر ایمان بھی لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی تمہارے ساتھ جانے (کی اجازت) دیں گے۔
(134 ۔ 135) ۔ اس آیت کے متعلق دو قول ہیں بعض مفسروں نے یہ لکھا ہے کہ یہ آیت اوپر کی آیتوں کا بیان ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک نے جو فرعون اور اس کی قوم پر اوپر کی آیتوں میں پانچ عذاب طوفان اور ٹڈیاں اور گھن اور مینڈک اور خون بھیج کر برباد کیا اسی کا بیان فرمایا ہے کہ جب ان پر عذاب ایک کے بعد ایک آتا گیا تو ان لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اپنے رب سے دعا کرو کہ یہ عذاب ہم پر سے دفع ہوجاوے کیونکہ خدا نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ہے تم سے ہر ایک دعا کے پورا کرنے کا وعدہ کیا ہے اگر تمہاری دعا سے یہ بلائیں ٹل جاویں گی تو ہم تم پر ایمان بھی لاویں گے اور بنی اسرائیل کو بھی تمہارے ساتھ کر دیویں گے پھر اللہ پاک نے یہ بیان کیا کہ ہم نے ان کے وعدے اور اقرار کرنے پر یہ عذاب اس وقت تک روک رکھا جب تک وہ قلزم میں غرق نہ ہوئے تب بھی تو وہ ایمان نہیں لائے منکر کے منکر رہے اور دوسری تفسیر اس آیت کی یہ کی گئی ہے کہ رجز طاعون کو کہتے ہیں جیسا کہ صحیحین کی ایک حدیث میں اسامہ ؓ سے روایت ہے کہ طاعون ایک رجز ہے بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بھیجا گیا تھا اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ تم جب سنو کہ کسی جگہ طاعوت ہے تو وہاں نہ جاؤ اور جس زمین میں طاعون ہو وہاں سے نکل کر نہ بھاگو۔ اس تفسیر کی رو سے یہ چھٹا عذاب ان لوگوں پر تھا جو ان پر پانچوں عذابوں کے بعد نازل ہوا فرعون کے یہاں بنی اسرائیل اور ایک دوسری قوم قبطی تھی ہر روز قبط کی قوم سے ستر ہزار آدمی اس طاعون سے ہلاک ہوئے تھے موسیٰ (علیہ السلام) سے ان لوگوں کا یہ وعدہ تھا کہ اس بلا کے دفع ہونے کے بعد ہم بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے جہاں جی چاہے لیجانا اصل میں بنی اسرائیل کو فرعون نے اپنا قیدی بنا رکھا تھا اور ان سے طرح طرح کی ذلت اور خواری کے کام لیتا تھا اور ان کو کہیں جانے آنے نہیں دیتا تھا بہر حال جب بلائیں ٹل گئیں تو فرعون اور اس کی قوم نے اپنا وعدہ وفا نہ کیا اور قول وقرار توڑ ڈالا حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے شاگردوں میں سے پہلا قول مجاہد کا ہے اور دوسرا قول سعید بن جبیر کا۔ حافظ ابوجعفر ابن جریر نے اپنی تفسیر میں پہلے قول کو ترجیح دی ہے۔ اس تفسیر کے مقدمہ میں بھی یہ گذر چکا ہے کہ جہاں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے شاگردوں میں اختلاف ہو وہاں مجاہد کے قول کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ترمذی ابوداؤد وغیرہ کے حوالہ سے اوپر حضرت عمر ؓ کی حدیث جو گذر چکی ہے اس کو اس آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیث کو ملا کر یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ فرعون اور اس کی قوم نے ہر دفع کے عذاب کے ٹل جانے کے عہد شکنی اس سبب سے کی کہ ان لوگوں کے سر پر ازلی نافرمانی سوار تھی اس لئے پے درپے معجزے دیکھنے کے بعد بھی یہ لوگ راہ راست پر نہ آئے اور اس قوم کے جادوگر لوگ جو علم ازلی میں آخری عمر تک کے نافرمان نہیں قرار پائے تھے وہ فقط ایک ہی معجزہ دیکھ کر راہ راست پر آگئے :۔
Top