Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 13
قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا یَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِیْهَا فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ
قَالَ : فرمایا فَاهْبِطْ : پس تو اتر جا مِنْهَا : اس سے فَمَا : تو نہیں يَكُوْنُ : ہے لَكَ : تیرے لیے اَنْ : کہ تَتَكَبَّرَ : تو تکبر کرے فِيْهَا : اس میں (یہاں) فَاخْرُجْ : پس نکل جا اِنَّكَ : بیشک تو مِنَ : سے الصّٰغِرِيْنَ : ذلیل (جمع)
فرمایا تو (بہشت سے) اتر جا تجھے شایان نہیں کہ یہاں غرور کرے۔ پس نکل جا ' تو ذلیل ہے۔
(13 ۔ 16) ۔ جب شیطان نے بموجب حکم خدا کے حضرت آدم کو سجدہ نہ کیا اور اپنے آپ کو بہتر اور بڑا جانا تو خدا تعالیٰ نے اس کو ذلیل و خوار کر کے جنت سے نکال دیا اور فرمایا کہ جنت میں رہ کر تجھ کو تکبر کرنا نہیں پہنچتا کیونکہ جنت فرمانبرداروں کی جگہ ہے نافرمانوں کی جگہ نہیں ہے اس لئے تو اس سے نکل اور زمین پر اتر جا کہ تیرے تکبر کی یہی سزا ہے اس وقت شیطان نے سوچ کر اپنے لئے قیامت تک جیتے رہنے کی مہلت مانگی خدا تعالیٰ نے اس کو پہلے صورت کی مہلت دی تاکہ شیطان کے بہکانے کے بعد فرمانبردار اور نافرمان بندے پہچانے جاویں مہلت مل جانے کے بعد شیطان نے سرکشی سے کہا کہ جس طرح میں گمراہ ہوا اسی طرح میں تیرے بندوں کو جو آدم (علیہ السلام) کی نسل سے ہوں گے گمراہ کروں گا اور ہر طرف سے سامنے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں سے ان کے پاس آکر ان کو بہکاؤں گا حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ سامنے سے مراد دینا ہے اور پیچھے سے آخرت یا دائیں سے نیکیاں بائیں سے بدیاں مطلب یہ کہ دنیا کی رغبت اور آخرت سے عفلت نیکیوں سے نفرت بدیوں کی زینت دکھا کر ان کو تیرے سیدھے راستہ پر چلنے سے روکوں گا حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے قول میں یہ بھی ہے کہ من فوقہم اس واسطے نہیں فرمایا کہ رحمت اوپر سے اترتی ہے خدا کی رحمت اور بندے کے درمیان میں شیطان حائل نہیں ہوسکتا اس لئے اوپر کی جانب سے شیطان نہیں آتا اور نیچے کی رحمت اور بندے کے درمیان میں شیطان حائل نہیں ہوسکتا اس لئے اوپر کی جانب سے شیطان نہیں آتا اور نیچے کی طرف سے بھی تکبر کے سبب سے آنا کوئی پسند نہیں کرتا علاوہ اس کے جس کے پاس نیچے کی طرف سے جاؤ اس کو گھبراہٹ اور نفرت ہوتی ہے اور وہ شیطان کی غرض کے بالکل خلاف ہے اس لئے اوپر اور نیچے کی طرف سے شیطان بندے کے پاس نہیں آتا انہیں چار طرف سے کہ جن کا ذکر آیت شریف میں ہے شیطان بندے کے پاس آکر بندے کو بہکاتا ہے ان آیتوں میں تو اکیلے شیطان کی فَاھْبِطْ مِنْہَا فرمایا اور آگے کی آیتوں میں جمع کے لفظوں سے اِھْبِطُوَا فرمایا یہ سورة بقرہ میں گذر چکا ہے کہ جو علماء اس قصہ میں سانپ کی شراکت کو صحیح کہتے ہیں ان کا یہ قول ہے کہ سجدہ نہ کرنے کے گناہ پر جب شیطان جنت سے نکالا گیا تو وہ کسی طرح سے آدم (علیہ السلام) کو بہکانے کے لئے جنت میں جانا چاہتا تھا لیکن جو فرشتے جنت کے دروازوں پر تعینات ہیں وہ شیطان کو جنت میں نہیں جانے دیتے تھے اس لئے شیطان سانپ کے منہ میں بیٹھ کر جنت میں گیا اور آدم (علیہ السلام) کو بہکانا جب تک سانپ جنت کے جانوروں میں سے تھا ان علماء کے قول کے موافق آدم (علیہ السلام) حوا۔ ابلیس اور سانپ ان چاروں کو جمع کے لفظوں سے اھبطوا فرمایا ہے حافظ ابو جعفر ابن جریر نے اپنی تفسیر میں سانپ کی شراکت کے قصہ کو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور عبد اللہ بن مسعود ؓ کے معتبر قول سے نقل کیا ہے اس واسطے یہی تفسیر صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جمع کے لفظوں میں اھبطوا جہاں فرمایا ہے اس میں آدم ( علیہ السلام) حوا ‘ ابلیس اور سانپ یہ چاروں شریک ہیں کیونکہ جب اسباب میں دو معتبر صحابیوں کا قول موجود ہے اور اس تفسیر کے مقدمہ میں یہ گذر چکا ہے کہ تفسیر کے باب میں صحابی کا صحیح قول حدیث نبوی کا حکم رکھتا ہے تو اس قصے میں سانپ کی شراکت کو نامعتبر نہیں قرار دیا جاسکتا ہے حاصل کلام ہے کہ ابلیس ملعون جنت سے دو دفعہ نکالا گیا ہے ان آیتوں کے موافق ایک دفعہ کیلا نکالا گیا اور فریب سے پھر جنت میں پہنچا اور آگے کی آیتوں کے موافق دوسری دفعہ آدم ‘ حوا ‘ اور سانپ کے ساتھ نکالا گیا۔ دوسرے صور کے بعد جب سب لوگ قبروں سے اٹھیں گے شیطان نے اس وقت تک کے جینے کی مہلت اللہ تعالیٰ سے مانگی تھی جس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ملعون موت کی تکلیف سے بچ جاوے کیونکہ دوسرے صور کے بعد پھر موت نہیں ہے اگرچہ ان آیتوں میں شیطان کی مہلت کی منصوری کا ذکر مختصر طور پر ہے لیکن سورة حجر اور سورة میں آویگا کہ شیطان کے جینے کی مہلت اللہ تعالیٰ نے وقت معلوم تک منظور فرمائی ہے وقت معلوم کی تفسیر امام المفسریں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے پہلے صور کی فرمائی ہے اس لئے ان آیتوں کی صحیح تفسیر یہی ہے جو اوپر بیان کی گئی کہ شیطان کے جینے کی مدت پہلے صور کی فرمائی ہے اس لئے ان آیتوں کی صحیح تفسیر یہی ہے جو اوپر بیان کی گئی کہ شیطان کے جینے کی مدت پہلے صور تک ہے مسند امام احمد اور مستدرک حاکم کے حوالہ سے ابو سعید خدری ؓ کی صحیح حدیث گذر چکی ہے اور آگے بھی آتی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب شیطان نے اللہ تعالیٰ کے روبرو بنی آدم کے بہکانے کی قسم کھائی تو اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے جاہ و جلال کی قسم کھا کر توبہ اور استغفار کرنے والے گناہ گاروں کے گناہ معاف فرما دینے کا وعدہ فرمایا اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے :۔
Top