Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 199
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ
خُذِ : پکڑیں (کریں) الْعَفْوَ : درگزر وَاْمُرْ : اور حکم دیں بِالْعُرْفِ : بھلائی کا وَاَعْرِضْ : اور منہ پھیر لیں عَنِ : سے الْجٰهِلِيْنَ : جاہل (جمع)
(اے محمد ﷺ عفو اختیار کرو اور نیک کام کرنے کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کرلو۔
199۔ 200۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری تو آنحضرت نے جبرئیل سے پوچھا کہ خذ العفو کا کیا مطلب ہے جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا میں بغیر اللہ تعالیٰ سے پوچھے اس کا مطلب نہیں بتلا سکتا اور پلٹ کر گئے اور آکر یہ کہا کہ آپ صلہ رحمی کریں ان لوگوں کے ساتھ جو آپ سے محبت کو قطع کرنا چاہیں اور جو آپ کی عزت حرمت کرے اس پر بخشش کریں اور جو شخص آپ سے سختی برتے اس کو معاف کیجئے پھر اللہ پاک نے یہ خطاب کیا کہ آپ لوگوں کو معروف باتوں کا حکم دیں معروف کے معنی وہ نیک خصلت ہے جس کو عقلمند آدمی پسند کرے اور جس سے دل کو اطمینان حاصل ہو مراد اس سے احکام شرع کو نرمی سے پہنچانا ہے۔ پھر فرمایا کیا گروہ لوگ آپ کی باتوں کو نہ مانیں تو ان سے چشم پوشی کیجئے وہ جاہل ہیں جاہلوں کی بات کا جواب چشم پوشی اور خاموشی ہے۔ قیس بن سعد کہتے ہیں کہ جب حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ؓ شہید ہوئے اور آپ کے سامنے لائے گئے تو آپ نے فرمایا کہ میں اپنے چچا حمزہ ؓ کے عوض ان میں سے ستر آدمیوں کو ماروں گا اور ان کے ناک کان کاٹوں گا اسی کو عرب میں مثلہ کہتے ہیں اسی وقت جبرئیل (علیہ السلام) یہ آیت لے کر آئے اس حدیث کو ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں معتبر سند سے نقل کیا 1 ؎ ہے پھر آپ کو یہ حکم ہوا کہ اگر شیطان آپ کے دل میں کچھ وسوسہ پیدا کرے تو آپ کو اللہ پاک سے پناہ مانگنی چاہیے وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ عبدالرحمن بن زید ؓ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت واعرض عن الجاھلین اتری کہ اگر کوئی ایسا وسوسہ شیطان دل میں ڈالے جس کو حافظ ابوجعفر ابن جریر نے اپنی تفسیر میں خذ العفو کے اسی معنے کو قوی قرار دیا 2 ؎ ہے کہ اس سے مطلب احکام شرع کا نرمی ہے، بخاری ومسلم میں انس بن مالک ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس شخص کو اپنی عمر اور رزق میں فراخی منظور ہو وہ صلہ رحمی کرے 3 ؎ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش نے کو صلہ رحمی کہتے ہیں معتبر سند سے پیش آنے کی خصلت قیامت کے دن میزان میں بڑا بھاری نیک عمل ہے 4 ؎۔ ان آیتوں میں صلہ رحمی اور لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آنے اور غصہ کے وقت اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنے کا جو ذکر ہے ان حدیثوں کو اس کی تفسیر میں بڑا دخل ہے :۔ 1 ؎ تفسیر فتح البیان ج 2 ص 134۔ 2 ؎ تفسیر ابن جریر ج 9 ص 156 طبع جدید 3 ؎ صحیح بخاری ج 1 ص 277 باب من احب البسط فی التررق 4 ؎ الترغیب ج 2 ص 148۔ الترغیب فی الخلق الحسن وفضلہ
Top