بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 1
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ١ؕ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِكُمْ١۪ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے الْاَنْفَالِ : غنیمت قُلِ : کہ دیں الْاَنْفَالُ : غنیمت لِلّٰهِ : اللہ کیلئے وَالرَّسُوْلِ : اور رسول فَاتَّقُوا : پس ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاَصْلِحُوْا : اور درست کرو ذَاتَ : اپنے تئیں بَيْنِكُمْ : آپس میں وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗٓ : اور اس کا رسول اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
(اے محمد ﷺ ! مجاہد لوگ) تم سے غنیمت کے مال کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ کیا حکم ہے) کہہ دو کہ غنیمت خدا اور اس کے رسول کا مال ہے۔ تو خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو۔ اور اگر ایمان رکھتے ہو تو خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو۔
1۔ ترمذی ابوداؤد ‘ نسائی مسند امام احمد بن حنبل حاکم اور صحیح ابن حبان میں چند صحابہ کی روایتوں سے جو شان نزول ان آیات کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ بدر کی لڑائی میں مسلمانوں کے لشکر کے تین گروہ تھے ایک گروہ جھنڈے کے پاس آنحضرت سے لڑنے والے گروہ میں سے کچھ لوگ دشمنوں کا وہ مال جو دشمنوں کے بھاگنے میں رہتا جاتا تھا وہ مال کو جمع کرتے جاتے تھے لڑائی ختم ہونے کے بعد ہر ایک گروہ نے اپنے آپ کو لوٹ کے مال کا زیادہ مستحق قرار دیا اور اس میں جھگڑا کرنے لگے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں معتبر سند سے ترمذی میں یہ شان نزول کی روایت عبادہ بن الصامت ؓ سے ہے جس سے اور روایتوں کو تقویت ہوجاتی ہے بعضے مفسروں نے کہا ہے کہ واعلموا انما غنتم من شئی فان اللہ خمسہ سے آیت یسئلونک عن الانفال منسوخ ہے کیونکہ آیت یسئلونک عن الا نفال میں پورے مال غنیمت کو اللہ تعالیٰ نے اپنا اور رسول کا حق فرمایا ہے اور آیت واعلموا میں اس مال کے پانچ حصے فرمائے ہیں لیکن حقیقت میں کوئی آیت منسوخ نہیں ہے ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ غنیمت کے مال کے حق خدا و رسول کو ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح خدا رسول کی مرضی ہوگی اس طرح اس کی تقسم ہوجاویگی دوسری آیت میں اس تقسیم کے حصے فرمائے ہیں صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ ؓ کی بڑی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا لوٹ کا مال پہلے انبیا کی شریعتوں میں حلال نہیں تھا اسی شریعت میں یہ مال حلال ہوا ہے آیت کے اس ٹکڑے میں لوٹ کے مال کا جو ذکر ہے حدیث کا یہ ٹکڑا گویا اس کی تفسیر ہے کیونکہ آیت کے ٹکڑے اور حدیث کے ٹکڑے کو ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ لوٹ کے مال کے حلال ہونے کا حکم جو آیت میں ہے ایسا ایک خاص حکم ہے جو سوائے شریعت محمدی کے کسی پہلی شریعت میں نہیں تھا۔ معتبر سند سے مسند امام احمد میں عبادہ بن الصامت ؓ کی حدیث ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس مال کی تقسیم کو اپنے رسول کی مرضی پر منحصر رکھا تو اللہ کے رسول نے وہ مال سب اہل بدر کو بانٹ دیا زیادہ چیز کو نفل کہتے ہیں انفال اس کی جمع ہے غنیمت کے مال کا حلال ہونا ایک زیادہ امر ہے جو اور امتوں میں نہیں تھا اس لئے غنیمت کے مال کو نفل کہتے ہیں لوٹ کا مال غنیمت کا مال ہے :۔ اللہ پاک نے اوپر شروع سورة میں غنیمت کے مال کا ذکر بیان فرما کر آیت کے اس ٹکڑے میں فرمایا کہ آپس کی چھیڑ چھاڑ اور اختلاف کو چھوڑ وہ خدا سے ڈرو اور آپس میں میل جول رکھو کیونکہ اسلام کی نعمت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فصل سے تمہیں دے رکھی ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جس کے سبب سے تم باہم جھگڑتے ہو مال کی یہ تقسیم جو تمہارے درمیان میں ہوگئی ہے یہ خدا اور اس کے رسول کی مرضی کے موافق ہے جو نہایت ہی عدل و انصاف سے ہے تم اہل ایمان ہو تو خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اس کی تقسیم پر راضی ہوجاؤ باہم کوئی جھگڑا نہ کرو آپس میں صلح سے پیش آؤ سدی نے واصلحوا کی تفسیر میں یہ بیان کیا ہے کہ آپس میں جھگڑا نہ کرو حافظ یعنے احمد بن علی موصلی نے اپنی مسند میں ایک حدیث انس ؓ سے بیان کی ہے جس کی مسند کو حافظ ابن کثیر نے ناقابل اعتراض ٹھہرایا ہے اور اس حدیث کو حاکم نے بھی مستدرک میں روایت کر کے صحیح بتلایا ہے اس حدیث میں انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ بیٹھے تھے یکایک آپ ہی آپ مسکرانے لگے حضرت عمر ؓ نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یارسول اللہ ﷺ آپ کس بات پر ہنسے فرمایا کہ میری امت میں کے دو آدمی خدائے رب العزت کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہوں گے اور ایک نے ان میں سے یہ کہا کہ اے خدا میرے اس بھائی سے اس ظلم کا بدلہ دلوا جو ظلم مجھ پر ہوا ہے اللہ پاک نے ظالم سے فرمایا کہ اپنے بھائی کے ظلم کا بدلہ دے اس شخص نے کہا اے رب میری نیکیوں میں سے تو کچھ بھی باقی نہیں رہا ہے کیونکر بدلہ دوں مظلوم نے کہا کہ اے رب یہ شخص میرے گناہ اپنے اوپر لاوے یہاں تک بیان کر کے آنحضرت ﷺ کے آنسو نکل پڑے پھر فرمایا وہ دن بڑا ہی سخت ہوگا لوگ اس بات کے محتاج ہوں گے کہ کوئی ان کے گناہ ان کی پیٹھ پر سے لے کر اپنی پشت پر لاد کر کے چلے پھر آپ فرمانے لگے کہ اللہ پاک بدلہ مانگنے والے شخص سے فرماوے گا کہ تو اپنی نگاہ اٹھا اور جنت کی طرف دیکھ وہ نگاہ اٹھا کر دیکھ کر کہے گا کہ اے رب العزت میں چاندی کا شہر دیکھتا ہوں اس میں سونے کے مکان بنے ہوئے ہیں اور موتیوں سے لد رہے ہیں یہ مکان کس نبی کے واسطے بنائے گئے ہیں صدیق کو ملیں گے کون شہید اس کا مستحق ہے اللہ پاک فرمائے گا کہ یہ اس شخص کو ملے گا جو اس کی قیمت دے وہ کہے گا اے رب العزت بھلا اس کی قیمت کیا ہے اور کس کا مقتدر ہے جو اس کی قیمت دے سکے اللہ پاک فرمائے گا تجھ میں مقتدر ہے تو دے سکتا ہے وہ شخص کہے گا یہ کیا بات ہے اے رب العزت اللہ پاک کہے گا تو اپنے بھائی کے ظلم کو معاف کر دے وہ شخص کہے گا اے رب میں نے معاف کردیا اللہ پاک فرمائے گا تو اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ اور دونوں قیامت کے دن مومنوں کے درمیان میں اس طرح صلح کرادے گا۔ معتبر سند سے مسندامام احمد میں جابر ؓ بن سمرہ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا بد زبانی اور لڑائی جھگڑا اسلام میں نہیں ہے اس واسطے پورا ایمان دار (رح) وہی شخص ہے جس کی عادت نیک برتاؤ کی ہو ان حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیثوں کو ملا کر یہ مطلب ہوا کہ آیت میں لڑائی جھگڑے سے بچنے اور آپس میں میل جول سے رہنے کا جو ہر مسلمان کو حکم ہے اس حکم کے موافق عمل کرنا اور ظلم زیادتی کے بدلہ کو معاف کردینا دنیا میں یہ باتیں اسلام کی نشانی اور عقبے میں ان کا بڑا اجر ہے :۔
Top