بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tadabbur-e-Quran - Ibrahim : 1
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ١ؕ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِكُمْ١۪ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے الْاَنْفَالِ : غنیمت قُلِ : کہ دیں الْاَنْفَالُ : غنیمت لِلّٰهِ : اللہ کیلئے وَالرَّسُوْلِ : اور رسول فَاتَّقُوا : پس ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاَصْلِحُوْا : اور درست کرو ذَاتَ : اپنے تئیں بَيْنِكُمْ : آپس میں وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗٓ : اور اس کا رسول اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
وہ تم سے غنیمتوں کے بابت سوال کرتے ہیں، ان کو بتا دو کہ غنیمتیں اللہ اور رسول کے لیے ہیں، پس اللہ سے ڈرتے رہو، اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر تم سچے مومن ہو
يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ ۭقُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۠ وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗٓ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۔ انفال، نفل کی جمع ہے، اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔ جو چیز کسی کو اس کے حق سے زیادہ دی جائے تو جتنی حق سے زیادہ دی گئی وہ نفل ہے۔ اسی طرح اگر کسی نے حق واجب سے زیادہ ادا کیا تو اس حصہ مزید کو نفل کہیں گے۔ یہاں انفال سے اس مال غنیمت کو تعبیر کیا گیا ہے جو راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کو مفتوح دشمن سے میدان جنگ میں حاصل ہوتا ہے۔ اس تعبیر میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے دشمن سے جو مال غنیمت حاصل کرتے ہیں اس کی حیثیت ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نفل مزید اور انعام مزید کی ہے اس لیے کہ جہاد کا جو اجر ہے وہ اس سے بالکل الگ مستقلاً اللہ کے ہاں دائمی اور بےپایاں اجر کی شکل میں محفوظ ہوجاتا ہے۔ غنیمت سے متعلق سوال کی نوعیت : سوال، جیسا کہ ہم بقرہ کی تفسیر میں واضح کرچکے ہیں، بعض اوقات اعتراض کی نوعیت کا بھی ہوتا ہے، خواہ وہ الفاظ سے ظاہر ہو یا اس کے اندر مضمر ہو۔ یہاں قرینہ دلیل ہے کہ اسی نوعیت کے سوال کا حوالہ ہے۔ یہ سوال، جیسا کہ اوپر ہم نے اشارہ کیا۔ غزوہ بدر میں حاصل شدہ مال غنیمت سے متعلق ہے۔ اس سے پہلے مسلمانوں کو کفار سے نہ تو کوئی منظم جنگ پیش آئی تھی نہ مال غنیمت اور اس کی تقسیم کا سوال پیدا ہوا تھا۔ سن 2 ھجری میں یہ جنگ پیش آئی جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح بھی شاندار عطا فرمائی اور مال غنیمت بھی ان کو کافی مقدار میں حاصل ہوا، جاہلیت میں تو دستور یہ تھا کہ جو جتنا مال جنگ میں لوٹے وہ اس کا حقدار ہے۔ اسی دستور کی بنا پر بعض لوگوں نے، خاص طور پر کمزور قسم کے مسلمانوں نے ایسے سوالات اٹھائے جن سے یہ بات نمایاں ہوئی کہ تقوی، باہمی خیر خواہی، اطاعت اللہ و رسول کی وہ روح جو سچے ایمان کا تقاضا ہے ابھی ایک گروہ کے اندر اچھی طرح پختہ نہیں ہوئی ہے۔ اگرچہ یہ سوال، جیسا کہ قرائن سے واضح ہے، کچھ خاص افراد ہی کی طرف سے اٹھایا گیا لیکن اسلامی معاشرہ کے اندر اس سے ایک بڑی خامی کی نشان دہی ہوئی تھی اس وجہ سے قرآن نے مسلمانوں کی تطہیر و تنظیم کی اس سورة کا آغاز اسی واقعہ سے کیا کہ (سرچشمہ شاید گرفتن بہ میل، چوپرشد نشانید گزشتن بہ پیل)۔ اور اس کا ذکر بھی عام صیغہ سے کیا تاکہ کسی خاص گروہ کی پردہ دری نہ ہو بلکہ تمام مسلمان بحیثیت مجموعی اس تعلیم کو قبول کریں اور اپنے اندر کسی ایسے رجحان کو نشوونما نہ پانے دیں جو تقوی و توکل، باہمی ہمدردی اور اطاعت اللہ و رسول کے خلاف ہو۔ جس قسم کے سوال کی طرف قرآن نے یہاں اشارہ کیا ہے اس کی تفصیل تاریخ و سیرت کی کتابوں میں موجود ہے۔ ابن ہشام میں ہے کہ نبی ﷺ نے جنگ سے فارغ ہونے کے بعد حکم دیا کہ فوج کے لوگوں نے جتنا مال غنیمت جمع کیا ہے سب اکٹھا کیا جائے چناچہ وہ سب اکٹھا کیا گیا۔ اب لوگوں میں اختلاف ہوا کہ یہ کس کا حق ہے ؟ جن لوگوں نے جمع کیا تھا وہ مدعی ہوئے کہ یہ ہمارا حق ہے، اگر ہم نہ ہوتے تو یہ مال حاصل نہ ہوتا، ہم نے دشمن کو مار بھگایا اس وجہ سے یہ ہاتھ لگا۔ اسی طرح جو لوگ رسول اللہ ﷺ کی حفاظت پر تھے انہوں نے کہا کہ ہم بھی سب کچھ کرسکتے تھے، لڑ بھی سکتے تھے، غنیمت بھی جمع کرسکتے تھے لیکن ہم نے رسول اللہ کی حفاظت کے کام کو دوسرے تمام کاموں پر مقدم رکھا اس وجہ سے مال غنیمت میں دوسرے لوگ ہم سے زیادہ حق دار نہیں ہو سکتے۔ غرض مختلف سوالات اٹھ کھڑے ہوئے جن سے لوگوں کے اندر دبی ہوئی بعض کمزوریاں سامنے آگئیں اور حکمت الٰہی مقتضی ہوئی کہ ان کمزوریوں کا برسر موقع علاج ہوجائے تاکہ یہ مزید بڑھنے نہ پائیں۔ سوالات کا اصولی جواب : قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ۔ یہ ان تمام سوالات کا جامع اور اصولی جواب ہے کہ ان کو بتا دو کہ اموال غنیمت اللہ اور رسول کی ملک ہیں۔ اللہ و رسول کی ملک، قرآن میں اجتماعی ملکیت کی تعبیر ہے۔ اس اصولی جواب نے اموال غنیمت کے باب میں اس جاہلی دستور کا خاتمہ کردیا جو اب تک رہا تھا اور جس کی بنا پر ہی وہ سوالات پیدا ہوئے تھے جو اوپر مذکور ہوئے۔ گویا اموال غنیمت میں استحقاق کی بنیاد یہ نہیں ہوگی کہ کس نے جمع کیا، کس نے بالفعل جنگ کی، کس نے پہرہ دیا بلکہ اس میں سب مجاہدین، بلا لحاظ اس کے کہ کس کی خدمت کی نوعیت کیا رہی ہے، شریک ہوں گے اور دوسرے مسلمانوں کا بھی اس میں حصہ ہوگا۔ یہاں یہی اصولی جواب دے کر کلام کا رخ ان خامیوں کی اصلاح کی طرف مڑ گیا ہے جو اس واقعہ سے نمایاں ہوئی تھیں۔ پھر آگے چل کر آیت 41 میں اس اجمال کی تفصیل بھی فرما دی کہ اس کا کتنا حصہ مجاہدین پر تقسیم ہوگا اور کتنا حصہ دوسرے مسلمانوں کے حق کی حیثیت سے بیت المال میں جمع ہوگا۔ مسلمانوں کی اجتماعی شیرازہ بندی کی بنیاد : فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ۔ جس طرح تقوی اور پاس رحم کو سورة نساء میں تمام خاندانی و معاشرتی صلاح و فلاح کی اساس ٹھہرایا ہے۔ اسی طرح یہاں تقوی اور اصلاح ذات البین کو مسلمانوں کی اجتماعی شیرازہ بندی کی بنیاد قرار دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اموال غنیمت اصلا اللہ اور رسول کی ملکیت ہیں تو اللہ و رسول جس طرح ان کو تقسیم کریں پوری خوش دلی اور رضامندی سے اس تقسیم کو قبول کرو۔ نہ اللہ کے حکم سے متعلق دل میں کوئی بدگمانی یا رنجش پیدا ہوا اور نہ اپنے دینی بھائیوں کے خلاف کوئی رشک و حسد کا جذبہ ابھرے کہ فلاں اور فلاں کو اس مال میں کیوں شریک بنا دیا گیا ؟ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ان کے باہمی تعلقات کی بنیاد اخوت، رحم اور محبت پر ہے۔ یہ رحماء بینہم کا گروہ ہے، ان کے اندر حسد، رقابت، خود غرضی اور نفسا نفسی کی حالت اس ایمان اور تقوی کے منافی ہے جس کو انہوں نے اختیار کیا ہے، جن کے اندر ابھی کوئی کانٹا اپنی دینی بھائیوں کے خلاف موجود ہے وہ اس کو نکال ڈالیں اور اپنے د امنِ دل کو ہر قسم کے غبار سے پاک و صاف کرلیں۔ وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗٓ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْن۔ یہ ایمان باللہ کا اصل تقاضا بیان ہوا کہ جو لوگ اللہ و رسول پر ایمان کے مدعی ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ اللہ و رسول کے ہر حکم کی اطاعت کریں۔ یہ بات ایمان کے منافی ہے کہ اللہ و رسول کا کوئی حکم اپنی خواہشات نفس کے خلاف ہو تو اس کے خلاف بغاوت کا جذبہ ابھرے یا اس سے متعلق دل میں کوئی رنجش یا بدگمانی جگہ پائے۔ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ کے الفاظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ جو لوگ ایمان کا دعوی رکھتے ہیں وہ ایمان کی اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ جنہوں نے ایمان کی یہ حقیقت نہیں سمجھی ہے ان کا دعوائے ایمان بالکل بےحقیقت ہے۔
Top