بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Anfaal : 1
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ١ؕ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِكُمْ١۪ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے الْاَنْفَالِ : غنیمت قُلِ : کہ دیں الْاَنْفَالُ : غنیمت لِلّٰهِ : اللہ کیلئے وَالرَّسُوْلِ : اور رسول فَاتَّقُوا : پس ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاَصْلِحُوْا : اور درست کرو ذَاتَ : اپنے تئیں بَيْنِكُمْ : آپس میں وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗٓ : اور اس کا رسول اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
(اے محمد ﷺ ! مجاہد لوگ) تم سے غنیمت کے مال کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ کیا حکم ہے) کہہ دو کہ غنیمت خدا اور اس کے رسول کا مال ہے۔ تو خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو۔ اور اگر ایمان رکھتے ہو تو خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو۔
(1) بدر کے دن آپ ﷺ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ ﷺ سے خاص عنیمتوں کا حکم پوچھتے ہیں اے محمد ﷺ آپ ﷺ ان سے کہہ دیجیے کہ بدر کے دن کی غنیمتیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی ملک ہیں، تمہیں اس بارے میں کوئی اختیار نہیں۔ یہ یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور رسول اکرم ﷺ کا حکم اس میں نافذ ہوگا، غنائم کے لینے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور باہمی جھگڑوں کی اصلاح کرو کہ کہیں غنی فقیر پر اور قوی ضعیف پر اور جوان بوڑھے پر زیادتی نہ کربیٹھے ، جب تم لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو تو صلح کے معاملات میں ان ہی کی پیروی کرو۔ شان نزول : (آیت) ”یسئلونک عن الانفال“۔ (الخ) امام ابوداؤد ؒ ، نسائی ؒ ، ابن حبان ؒ اور حاکم ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے یہ اعلان کردیا تھا کہ جو شخص کسی شخص کو قتل کرے یا قید کرے اس کو اتنا اتنا انعام ملے گا، سو بوڑھے تو جھنڈوں کے نیچے رہے اور جوان لوگ قتل غنیمت کی طرف دوڑے، بوڑھوں نے ان جوانوں سے کہا ہمیں بھی اس میں شریک کرو ہم تمہارے مددگار تھے، اور اگر تم پر کوئی حادثہ آپڑتا تو تم ہماری ہی پناہ لیتے۔ اس بارے میں ان لوگوں کے درمیان گفتگو ہوگئی، آپ ﷺ تک مقدمہ آیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور امام احمد ؒ نے سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا ہے کہ بدر کے روز میرا بھائی عمیر قتل کیا گیا تو میں نے اس کے بدلے سعید بن العاص کو قتل کیا اور اس کی تلوار لے کر رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ یہ تلوار مجھے دے دیجے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ اس کو غنیمت میں رکھ دو ، میں لوٹا مگر مجھے بہت دکھ ہوا، میں ذرا ہی چلا تھا کہ سورة انفال نازل ہوگئی آپ نے فرمایا جاؤ اپنی تلوار لے لو۔ اور امام ابو داؤد ؒ ، ترمذی ؒ اور نسائی ؒ نے حضرت سعد ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں بدر کے روز ایک تلوار لیکر آیا اور عرض کیا یارسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ نے میرے سینہ کو مشرکین سے محفوظ رکھا ہے، یہ تلوار مجھے ہبہ کردیجیے، آپ نے فرمایا یہ نہ میری ہے اور نہ تمہاری، مجھ کو رنج ہوا میں نے دل میں کہا کہ مجھ ہی کو ملے گی، چناچہ رسول اکرم ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تم نے مجھ سے تلوار مانگی تھی وہ اس وقت میری نہ تھی اور اب وہ میری ہے میں تمہیں دیتا ہوں فرماتے ہیں پھر یہ آیت نازل ہوگئی۔ ابن جریر ؒ نے مجاہد ؒ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے چار اخماس نکالنے کے بعد، پانچویں حصہ کا حکم دریافت کیا گیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
Top