Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 55
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ
اِنَّ : بیشک شَرَّ : بدترین الدَّوَآبِّ : جانور (جمع) عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا فَهُمْ : سو وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
جانداروں میں سب سے بدتر خدا کے نزدیک وہ لوگ ہیں جو کافر ہیں سو وہ ایمان نہیں لاتے۔
55۔ 58۔ تفسیر ابن ابی حاتم میں مجاہد سے اور تفسیر ابوالشیخ میں سعید بن جبیر سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت اور یہود بنی قریظہ کا یہ معاہدہ تھا کہ نہ وہ لوگ آنحضرت سے لڑیں گے نہ مسلمانوں کے دشمن کو مدد دینگے پہلے انہوں نے خلاف معاہدہ کر کے مشرکین مکہ کو ہتھیاروں کی مدد دی اور جب ان سے پوچھا گیا تو معاہدہ کے یاد نہ رہنے کا عذر کیا پھر دوبارہ معاہدہ کیا اور پھر معاہدہ کے برخلاف تمام قبائل عرب کو بہکا کر خندق کی لڑائی میں چڑھا لائے ان میں ایک شخص کعب بن اشرف شاعر بڑا شریر تھا مسلمانوں کی ہمیشہ ہجو کیا کرتا تھا یہ وہی کعب بن اشرف ہے جس نے مشرکین مکہ سے یہ کہا تھا کہ تمہارا دین مسلمانوں کے دین سے اچھا ہے محمد بن مسلمہ ؓ صحابی نے اس کو خاص طور پر اس کے گھر جاکر قتل کیا اور نو سو کے قریب بنی قریظہ کے لوگ جو تھے خندق کی لڑائی کے متصل ایک بڑے محاصرہ کے بعد سب کے سب کو ان کو گڑھے سے اتار کر ایک دم مسلمانوں نے قتل کر ڈالا اور کعب بن اشرف اور بنی قریظہ کے قتل کا قصہ تفصیل سے بخاری میں مذکور ہے اسے بنی قریظہ کی بدعہدی کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں یہ کعب بن اشرف کے قتل کا قصہ تو صحیح بخاری میں جابر ؓ بن عبداللہ کی روایت سے ہے یہ قتل 3 ہجری میں ہوا ہے بنی قریظہ کے قتل کا حکم سعد بن معاذ ؓ کے فیصلہ کے موافق جو آنحضرت ﷺ نے دیا ہے اس کا ذکر صحیح بختری میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے ہے اکثر سلف کا یہ قول ہے کہ بنی قریظہ کی تعداد نوسو کے قریب تھی۔ معتبر سند سے ترمذی نسائی اور صحیح بن حبان میں جابر ؓ کی روایت سے بنی قریظہ کی تعداد چار سو کی جو آئی ہے اس کے معنے علماء نے یہ بیان کئے ہیں کہ یہ تعداد ان میں کے جو ان آدمیوں کی ہے یہ بنی قریظہ کا قتل 4؁ ہجری میں ہوا ہے کیونکہ خندق کی لڑائی اسی 4؁ھ میں ہے اور اسی لڑائی سے واپس ہونے کے بعد بنی قریظہ پر چڑھائی ہوئی چناچہ حضرت عائشہ ؓ کی صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ خندق کی لڑائی سے واپس ہو کر ابھی آنحضرت ﷺ نے ہتھیار کھول کر فقط غسل کیا تھا کہ اتنے میں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور بنی قریظہ پر چڑھائی کرنے کا حکم انہوں نے سنایا بنی قریظہ کی چڑھائی کے وقت کی عبداللہ ؓ بن عمر کی وہ حدیث ہے جدس میں بنی قریظہ کے مقام پر جلدی پہنچ جانے کی غرض سے آنحضرت ﷺ نے صحابہ سے یہ فرمایا ہے کہ عصر کی نماز بنی قریظہ کے مقام سے دور نہ پڑھی جائے بخاری میں اس نماز کے ساتھ عصر کا لفظ ہے اور مسلم میں ظہر کا ان دونوں روایتوں کی مطابقت علماء نے یوں بیان کی ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) سے بنی قریظہ کی چڑھائی کا حال سن کر بنی قریظہ کے مقام پر روانہ کرنے کو جب آنحضرت ﷺ نے صحابہ کی طلبی کا حکم دیا تو بعضے صحابہ ظہر سے پہلے حاضر ہوگئے اور بعضے ظہر کے بعد آئے جو صحابہ ظہر سے پہلے آئے تھے ان کو آپ نے بنی قریظہ کے مقام پر ظہر کی نماز پڑھنے کا حکم دیا اور جو صحابہ ظہر کی نماز کے بعد آئے تھے ان کو عصر کی نماز کا۔ اس حکم کی تعمیل میں صحابہ کا اختلاف بھی ظہور آیا بعضوں نے وقت پر نماز راستہ میں پڑھ لی اور حکم کا مطلب یہ سمجھا کہ اس سے بنی قریظہ کے مقام پر جلدی پہنچ جانا مقصود ہے اور بعضوں نے بنی قریظہ کے مقام پر پہنچ کر بےوقت نماز پڑھی مگر آنحضرت ﷺ نے ان دونوں گروہ میں سے کسی کو کچھ اولاہنا نہیں دیا کیونکہ ان دونوں گروہ کی نیت بخیر اور دونوں کو اطاعت حکم رسول کا خیال تھا بعضے علماء نے لکھا ہے کہ ان دونوں گروہ میں سے فضیلت ان صحابہ کو ہے جنہو وں نے نماز کے وقت پر پڑھنے کے حکم اور بنی قریظہ کے مقام پر جلد پہنچ جانے کے حکم ان دونوں حکموں کو مدنظر رکھا شان نزول کے روایت میں تفسیر ابو الشیخ کا حوالہ جو اوپر گذرا یہ ابوالشیخ ابن حبان قدیم مفسروں میں ابن مردویہ اور حاکم کے رتبہ کے مفسر ہیں اور ان کی تفسیر کا شمار روایتی تفسیروں میں ہے روایتی تفسیریں وہ ہیں جن کا مدار صحابہ تابعین اور تبع تابعین کے اقوال پر ہے ان تفسیروں میں سے تفسیر ابن جریر میں یہ ایک بات زیادہ ہے کہ چند قولوں میں سے ایک قول کو ترجیح دی حافظ ابوجعفر ابن جریر نے اپنی اس تفسیر میں بیان کردی ہے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ ہر انسان کو اپنے عہد کا پورا کرنا اور اس کو نباہنا لازم ہے کعب بن اشرف کے گروہ بنی قریظہ نے جو بدعہدی کی اور ان کے سردار کعب بن اشرف نے عہد کے برخلاف مشرکین مکہ کو مسلمانوں پر چڑھائی کے لئے آمادہ کیا تو یہ لوگ شان انسانیت سے خارج اور اللہ کے نزدیک سب جانداروں سے بدتر ہیں اس لئے لڑائی میں ایسے لوگوں پر جب قابو پالیا جائے تو ان کو ایسی سخت سزا دی جائے کہ اہل مکہ جو مخالفت اسلام میں ان بنی قریظہ کے پیروکار اور قدم بقدم ہیں وہ بھی عبرت پکڑیں اور بدعہدی سے دور بھاگیں اور علاوہ اس قوم کے جس قوم سے بدعہدی کا اندیشہ ہو تو اے رسول اللہ کے ایسی دغاباز قوم سے عہد کا قائم رکھا جانا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے اس لئے ایسی قوم کو عہد کے قائم نہ رہنے کی اطلاع دے دی جاوے تاکہ بدعہدی کا دھوکا باقی نہ رہے حاصل کلام یہ ہے کہ اگر کسی قوم سے بدعہدی کا اندیشہ ہو تو اے رسول اللہ کے ایسی دغاباز قوم سے عہد کا قائم رکھنا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے اس لئے ایسی قوم کو عہد کے قائم نہ رہنے کی اطلاع دے دی جاوے تاکہ بدعہدی کا دھوکا باقی نہ رہے حاصل کلام یہ ہے کہ اگر کسی قوم سے بدعہدی کا فقط اندیشہ ہو تو آئندہ ایسی قوم سے عہد قائم نہ کیا جائے اور اگر کوئی قوم عہد کے بعد کھلم کھلا بدعہدی کر بیٹھے جس طرح مثلا بنی قریظہ کی بدعہدی کا ذکر اوپر گذرا یا مثلا مشرکین مکہ نے صلح حدیبیہ کی شرط کے برخلاف بدعہدی کی جس کا مفصل ذکر صلح حدیبیہ میں سورة انافتحنا کی تفسیر میں آوے گا اور کچھ ذکر اس کا سورة توبہ کی تفسیر میں بھی ہے تو ایسی صورت میں عہد کے ٹوٹ جانے کی اطلاع ضروری نہیں بلکہ ایسی صورت میں بدعہد قوم پر چڑھائی کا حکم ہے اس لئے بنی قریظہ پر اور فتح مکہ کے وقت مشرکین مکہ پر بغیر کسی اطلاع کے شروع سے لشکر اسلام کی چڑھائی عمل میں آئی سورة النساء میں گذر چکا ہے کہ بنی قریظہ کے سردار کعب بن اشرف نے مکہ جاکر مشرکین مکہ کو مسلمانوں پر چڑھائی کرنے کی ترغیب دلائی تھی اور اسی ترغیب کی بنا پر مشرکین کہ خندق کی لڑائی کے وقت چڑھائی کر کے آئے تھے اسی واسطے ان آیتوں میں مشرکین مکہ کو بنی قریظہ کے پیچھے فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ خندق کی لڑائی کے وقت بنی قریظہ کا سردار کعب بن اشرف اور اس کے ساتھی گویا اس لڑائی کے بانی تھے اور مشرکین مکہ ان کے پیرو اور پچھلے تھے۔
Top