Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tawba : 8
كَیْفَ وَ اِنْ یَّظْهَرُوْا عَلَیْكُمْ لَا یَرْقُبُوْا فِیْكُمْ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةً١ؕ یُرْضُوْنَكُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ تَاْبٰى قُلُوْبُهُمْ١ۚ وَ اَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَۚ
كَيْفَ : کیسے وَاِنْ : اور اگر يَّظْهَرُوْا : وہ غالب آجائیں عَلَيْكُمْ : تم پر لَا يَرْقُبُوْا : نہ لحاظ کریں فِيْكُمْ : تمہاری اِلًّا : قرابت وَّ : اور لَا ذِمَّةً : نہ عہد يُرْضُوْنَكُمْ : وہ تمہیں راضی کردیتے ہیں بِاَفْوَاهِهِمْ : اپنے منہ (جمع) سے وَتَاْبٰي : لیکن نہیں مانتے قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاَكْثَرُهُمْ : اور ان کے اکثر فٰسِقُوْنَ : نافرمان
(بھلا ان سے عہد) کیونکر (پورا کیا جائے جب انکا حال یہ ہے) کہ اگر تم پر غلبہ پالیں تو نہ قرابت کا لحاظ کریں نہ عہد کا ؟ یہ منہ سے تو تمہیں خوش کردیتے ہیں لیکن ان کے دل (ان باتوں کو قبول نہیں کرتے) اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔
8۔ اوپر مشرکوں کی ظاہری بدعہدی کا ذکر فرما کر اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے دل کی باتوں سے آنحضرت ﷺ کو یہ خبردار کیا کہ کیوں کر ان لوگوں سے صلح قائم رکھ سکو گے ان کی حالت تو یہ ہے کہ فقط منہ سے قول وقرار کرتے ہیں اور ان کے دل میں تو یہ ہے کہ اگر مسلمانوں پر ان کا قابو پڑجاوے تو ایک کوئی بھی زندہ نہ رکھیں نہ قرابت کا لحاظ کریں ورنہ اپنے عہد کا یہ لوگ بڑے ہی بےحکم ہیں ان کے دل کب مانتے ہیں جو یہ اپنے قول پر قائم رہیں گے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے اِلاَّ وَّلا َذِمَّۃً کی تفسیر میں یہ بیان کیا ہے کہ اس سے مراد قرابت اور عہد ہے اوپر گذر چکا ہے کہ صلح حدیبیہ کے عہد پر بعضے مشرک قبیلے قائم تھے اس لئے سب صلح والوں کو بےحکم نہیں فرمایا۔ صحیح بخاری اور مسلم میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ایسے شخص سے زیادہ برا کوئی آدمی نہیں جس کو اپنی زبان کا پاس نہ ہو ایک ہی بات کو کسی سے ایک طرح پر کہہ دیوے اور کسی سے دوسری طرح پر معتبر سند سے مسند امام احمد ابوداؤد نسائی اور صحیح ابن حبان میں آنحضرت ﷺ کے پروردہ ابورافع ؓ سے روایت ہے جس میں ابورافع ؓ کہتے کہ اسلام لانے سے پہلے مجھ کو اہل مکہ نے قاصد بنا کر آنحضرت ﷺ کے پاس بھیجا تھا مدینہ میں آن کر میرا دل اسلام کی طرف اور مدینہ میں رہ جانے کی طرف مائل ہوگیا لیکن صلح حدیبیہ میں یہ شرط ہوئی تھی کہ صلح کے زمانہ تک جو کوئی مکہ سے مدینہ کو آوے گا اس کو واپس کردیا جاویگا اس شرط کے موافق آنحضرت ﷺ ومسلم نے میرا مدینہ میں رہ جانا پسند نہیں کیا اور فرمایا کہ اللہ کے رسول سے بدعہدی نہیں ہوسکتی آیت میں زبان کا پاس نہ رکھنے اور بدعہدی کی جو مذمت ہے یہ حدیثیں گویا اس کی تفسیر ہیں۔
Top