Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tawba : 85
وَ لَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ اَوْلَادُهُمْ١ؕ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الدُّنْیَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ
وَلَا تُعْجِبْكَ : اور آپ کو تعجب میں نہ ڈالیں اَمْوَالُهُمْ : ان کے مال وَاَوْلَادُهُمْ : اور ان کی اولاد اِنَّمَا : صرف يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّعَذِّبَهُمْ : انہیں عذاب دے بِهَا : اس سے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَتَزْهَقَ : اور نکلیں اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں وَهُمْ : جبکہ وہ كٰفِرُوْنَ : کافر ہوں
اور ان کے مال اور اولاد سے تعجب نہ کرنا۔ ان چیزوں سے خدا یہ چاہتا ہے کہ انکو دنیا میں عذاب کرے۔ اور (جب) ان کی جان نکلے تو (اس وقت بھی) یہ کافر ہی ہوں۔
85۔ اس آیت کی تفسیر بعینہ اس سے پہلے گزر چکی ہے یہ دوبارہ تاکید کے ساتھ اللہ پاک نے حکم دیا کہ کفار کے مال واولاد کو دیکھ کر تعجب نہ کرو خدا ان لوگوں کو انہیں چیزوں کے ساتھ عذاب کرے گا ان کے مال انہیں کے واسطے وبال جان ہوجائیں گے ان کی اولاد انہیں کے لئے موجب ہلاکت ہوگی اور یہ لوگ مرتے دم تک کافر کے کافر ہی رہیں گے کبھی ایمان نہیں لائیں گے بعضے مفسروں نے اس آیت اور اس سے پہلے کی آیت میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ دونوں آیتیں دو قوم کے حق میں نازل ہوئیں بال کی زیادتی نے ثعلبہ بن حاطب کی دینداری میں جو کچھ فتور ڈالا اس کا ذکر حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی صحیح روایت سے اوپر گزر چکا ہے۔ اسی طرح ترمذی اور مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی صحیح روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہجرت کے وقت کچھ صحابہ اپنے بی بی بچوں کے رونے پیٹنے کے سبب سے بہت روز تک ہجرت نہ کرسکے اور بہت سے دینی باتوں سے محردم رہے ان حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مال و اولاد جب پکے مسلمانوں کے دین میں فتور ڈالنے والی چیزیں ہیں تو کچے مسلمان منافقوں کے حق میں مال واولاد بلاشک ایک عذاب ہے اولاد کا مرجانا مال میں کسی طرح کا نقصان اٹھانا مال کی حفاظت اولاد کی پرورش بےدینی کے سبب سے یہ سب باتیں ان کے لئے ایسی عذاب ہیں جن سے مرتے دم تک ان کو فرصت نہیں آخر اسی حالت میں یہ لوگ ایک دن مرجاتے ہیں اور مال اور اولاد کے چھوڑ جانے کا غم اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اسی واسطے فرمایا ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مال واولاد کی زیادتی کیا دی ہے کہ گویا ان کو ایک عذاب میں پھنسا دیا ہے۔
Top