Al-Quran-al-Kareem - Yunus : 26
لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌ١ؕ وَ لَا یَرْهَقُ وُجُوْهَهُمْ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّةٌ١ؕ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو کہ اَحْسَنُوا : انہوں نے بھلائی کی الْحُسْنٰى : بھلائی ہے وَزِيَادَةٌ : اور زیادہ وَلَا يَرْهَقُ : اور نہ چڑھے گی وُجُوْهَھُمْ : ان کے چہرے قَتَرٌ : سیاہی وَّلَا ذِلَّةٌ : اور نہ ذلت اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ : جنت والے ھُمْ : وہ سب فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
جن لوگوں نے نیکی کی انھی کے لیے نہایت اچھا بدلہ اور کچھ زیادہ ہے اور ان کے چہروں کو نہ کوئی سیاہی ڈھانپے گی اور نہ کوئی ذلت، یہی لوگ جنت والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
لِلَّذِيْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ: احسان کی تفسیر حدیث جبریل میں ہے، فرمایا : (أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہٗ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہٗ فَإِنَّہٗ یَرَاکَ) [ بخاری، الإیمان، باب سؤال جبریل النبي ﷺ۔۔ : 50 ] ”اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو جیسے اسے دیکھ رہے ہو، سو اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو یقیناً وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔“ مقصد یہ کہ خلوص کے ساتھ اللہ کی بندگی کرنے والوں کو جنت کے ساتھ ایک عظیم زائد چیز بھی عطا ہوگی۔ ”زِیَادَۃٌ“ میں تنکیر تعظیم کے لیے ہے۔ جنت کی دعوت دینے کے بعد اس کی سعادتوں کا ذکر فرمایا۔ اس آیت کریمہ میں ”اَلْحُسْنیٰ“ جو ”أَحْسَنُ“ کی مؤنث ہے، اس کا معنی سب سے اچھا بدلہ ہے اور فرمایا ایک عظیم زائد چیز بھی ہے۔ ”زِیَادَۃٌ“ مصدر بمعنی اسم فاعل ہے، اس ”زِیَادَۃٌ“ سے مراد اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے۔ یہی مفہوم سورة نساء (173) ، نور (38) اور سورة ق (35) میں بیان ہوا ہے۔ متعدد صحیح احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے اس کی یہی تفسیر فرمائی ہے، چناچہ صہیب ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : (لِلَّذِيْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ) اور فرمایا : ”جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو اس وقت ایک منادی کرنے والا پکارے گا : ”اے جنت والو ! اللہ نے تم سے ایک وعدہ کیا تھا، وہ چاہتا ہے کہ اسے بھی پورا کردیا جائے۔“ وہ کہیں گے : ”وہ کون سا وعدہ ہے ؟ کیا اس نے ہمارے میزان (نیک اعمال کے تول) بھاری نہیں کردیے ؟ کیا اس نے ہمارے چہرے روشن نہیں کردیے، ہمیں جنت میں داخل اور آگ سے محفوظ نہیں کردیا ؟“ آپ ﷺ نے فرمایا : (فَیُکْشَفُ لَھُمُ الْحِجَابُ فَیَنْظُرُوْنَ إِلَیْہِ ، قَالَ : ”فَوَاللّٰہِ ! مَا أَعْطَاھُمْ شَیْءًا أَحَبَّ إِلَیْھِمْ مِنَ النَّظْرِ إِلَیْہِ وَلاَ أَقَرَّ بِأَعْیُنِھِمْ) [ مسند أحمد : 4؍ 333، ح : 18965۔ مسلم، الإیمان، باب إثبات رؤیۃ المؤمنین۔۔ : 181 ]”اس وقت ان کے لیے پردہ ہٹا دیا جائے گا اور وہ اپنے پروردگار کا دیدار کریں گے۔“ پھر فرمایا : ”اللہ کی قسم ! انھیں اب تک ایسی کوئی نعمت عطا نہیں ہوئی ہوگی جو انھیں اس دیدار سے زیادہ محبوب ہو اور اس میں ان کی آنکھوں کے لیے اس سے زیادہ ٹھنڈک ہو۔“ اس آیت کی تفسیر ایک دوسری آیت اور اس کی تفسیر سے بھی ہوسکتی ہے۔ دیکھیے سورة توبہ (72)۔
Top