Al-Quran-al-Kareem - Hud : 118
وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَۙ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا رَبُّكَ : تیرا رب لَجَعَلَ : تو کردیتا النَّاسَ : لوگ (جمع) اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : ایک وَّ : اور لَا يَزَالُوْنَ : وہ ہمیشہ رہیں گے مُخْتَلِفِيْنَ : اختلاف کرتے ہوئے
اور اگر تیرا رب چاہتا تو یقینا سب لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا اور وہ ہمیشہ مختلف رہیں گے۔
وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً : یعنی اے میرے رسول ! تیری خواہش تو یہ ہے کہ سب لوگ مسلمان ہوجائیں، ایک بھی کافر نہ رہے (دیکھیے شعراء : 3) اور یہ بات تیرے رب پر کچھ مشکل بھی نہیں، جب اس نے جن و انس کے سوا باقی پوری مخلوق کو اپنی اطاعت کا پابند بنا رکھا ہے تو وہ جن و انس کو بھی ایک ہی امت بنا سکتا تھا کہ کوئی کفر کر ہی نہ سکتا، فرمایا : (وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ) [ یونس : 99 ] مگر تیرے رب کی حکمت کا تقاضا کچھ اور تھا، اس لیے اس نے کسی کو ایمان پر مجبور نہیں کیا، سمع و بصر دے کر اور راستہ بتا کر اختیار دے دیا کہ حق و باطل میں سے جو چاہو اختیار کرو۔ اس لیے یہ سب لوگ کبھی ایمان پر متفق نہیں ہوسکتے، بلکہ ان میں ہمیشہ اختلاف رہے گا، کوئی مومن ہے کوئی کافر، کوئی فرماں بردار کوئی نافرمان، فرمایا : (وَلِذٰلِكَ خَلَقَهُمْ) ”اور اس نے انھیں اسی (آزمائش کے) لیے پیدا فرمایا ہے۔“ مائدہ میں ہے : (وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ) [ المائدۃ : 48 ] ”اور لیکن تاکہ وہ تمہیں اس میں آزمائے جو اس نے تمہیں دیا ہے۔“ اور یہ بات اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی طے کردی ہے کہ میں جہنم کو اس آزمائش میں ناکام ہونے والے جن و انس سے بھروں گا اور اس بات کے ذکر کی ضرورت ہی نہیں کہ آزمائش میں کامیاب ہونے والوں کو اپنی جنت سے نوازوں گا۔ وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ : معاویہ بن ابو سفیان ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہم میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو فرمایا : (أَلاَ إِنَّ مَنْ قَبْلَکُمْ مِنْ أَھْلِ الْکِتَابِ افْتَرَقُوْا عَلٰی ثِنْتَیْنِ وَ سَبْعِیْنَ مِلَّۃً ، وَإِنَّ ھٰذِہِ الْمِلَّۃَ سَتَفْتَرِقُ عَلٰی ثَلاَثٍ وَ سَبْعِیْنَ ، ثِنْتَانِ وَسَبْعُوْنَ فِی النَّارِ وَوَاحِدَۃٌ فِي الْجَنَّۃِ و ھِيَ الْجَمَاعَۃُ) زَادَ ابْنُ یَحْیَی وَعَمْرٌو فِيْ حَدِیْثِھِمَا : (وَإِنَّہٗ سَیَخْرُجُ فِيْ أُمَّتِيْ أَقْوَامٌ تَجَارَی بِھِمْ تِلْکَ الْأَھْوَاءُ کَما یَتَجَارَی الْکَلَبُ لِصَاحِبِہِ ، وَقَالَ عَمْرٌو : الْکَلَبُ بِصَاحِبِہِ لاَ یَبْقَی مِنْہٗ عِرْقٌ وَلاَ مَفْصِلٌ إِلاَّ دَخَلَہٗ)[ أبوداوٗد، السنۃ، باب شرح السنۃ : 4597۔ السلسلۃ الصحیحۃ : 1؍404، ح 204 ] ”یاد رکھو ! تم سے پہلے اہل کتاب بہتر (72) ملتوں میں جدا جدا ہوگئے اور یہ ملت تہتر (73) میں جدا جدا ہوجائے گی۔ بہتر (72) آگ میں اور ایک جنت میں ہوگا اور وہ ”الجماعۃ“ ہے۔“ ابن یحییٰ اور عمرو نے اپنی روایتوں میں مزید کہا : ”میری امت میں ایسی قومیں نکلیں گی جن میں یہ خواہشات و بدعات اس طرح رگ رگ میں جاری ہوجائیں گی جیسے باؤلے پن کی بیماری، اس بیماری کے مریض کے رگ و ریشے میں جاری ہوجاتی ہے۔“ 3 اس آیت سے صاف معلوم ہوا کہ کسی امت کا اتفاق اور اجتماع رحمت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگ ہمیشہ مختلف رہیں گے مگر جس پر تیرا رب رحم کرے اور صاف ظاہر ہے کہ امت مسلمہ صرف اسی چیز پر جمع ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی اور وہ کتاب وسنت ہے۔ یہی طریق مستقیم ہے اور اسی پر چلنے والے ”الجماعۃ“ ہیں، باقی سب فرقے بعد میں اس سیدھے راستے سے ہٹنے کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ 3 اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عام لوگوں میں مشہور روایت ”اِخْتَلاَفُ أُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ“ یعنی میری امت کا اختلاف رحمت ہے، یہ نبی کریم ﷺ پر صاف جھوٹ ہے۔ حافظ ابن حزم ؓ نے اسے موضوع ثابت کرتے ہوئے ایک دلچسپ بات یہ بھی لکھی کہ اگر اسے صحیح مانا جائے تو پھر امت کا اتفاق زحمت ہوگا، کیونکہ اختلاف رحمت ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر اپنے رحم کا ذکر کیا ہے جو اختلاف کرنے والے نہیں ہوں گے۔ اس لیے سب فرقے چھوڑ کر کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھام لینا ہی راہ نجات ہے۔
Top