Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 7
اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ١۫ وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا١ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِیَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ وَ لِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ لِیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا
اِنْ : اگر اَحْسَنْتُمْ : تم نے بھلائی کی اَحْسَنْتُمْ : تم نے بھلائی کی لِاَنْفُسِكُمْ : اپنی جانوں کے لیے وَاِنْ : اور اگر اَسَاْتُمْ : تم نے برائی کی فَلَهَا : تو ان کے لیے فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آیا وَعْدُ الْاٰخِرَةِ : دوسرا وعدہ لِيَسُوْٓءٗا : کہ وہ بگاڑ دیں وُجُوْهَكُمْ : تمہاری چہرے وَلِيَدْخُلُوا : اور وہ گھس جائیں گے الْمَسْجِدَ : مسجد كَمَا : جیسے دَخَلُوْهُ : وہ گھسے اس میں اَوَّلَ مَرَّةٍ : پہلی بار وَّلِيُتَبِّرُوْا : اور برباد کر ڈالیں مَا عَلَوْا : جہاں غلبہ پائیں وہ تَتْبِيْرًا : پوری طرح برباد
اگر تم نے بھلائی کی تو اپنی جانوں کے لیے بھلائی کی اور اگر برائی کی تو انھی کے لیے، پھر جب آخری بار کا وعدہ آیا (تو ہم نے اور بندے تم پر بھیجے) تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور تاکہ وہ مسجد میں داخل ہوں، جیسے وہ پہلی بار اس میں داخل ہوئے اور تاکہ جس چیز پر غلبہ پائیں اسے برباد کردیں، بری طرح برباد کرنا۔
فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ۔۔ :”لِيَسُوْۗءٗا“ ”سَاءَ ہُ یَسُوْءُ ہُ“ کا فعل مضارع ہے، جو اصل میں ”یَسُوْءُ وْنَ“ تھا۔ ”لام کَیْ“ کے بعد ”اَنْ“ مقدر کی وجہ سے نون گرگیا۔ یہ فعل متعدی ہے، غمگین کرنا، برا کردینا، بگاڑ دینا۔ خوشی ہو یا غم، جسمانی یا قلبی راحت ہو یا اذیت اس کا اثر چہرے پر نمایاں ہوتا ہے، خوشی میں چہرہ چمک اٹھتا ہے اور غم سے کالا ہوجاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (فَلَمَّا رَاَوْهُ زُلْفَةً سِيْۗـــــَٔتْ وُجُوْهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا) [ الملک : 27 ] ”پس جب وہ اس (عذاب) کو قریب دیکھیں گے تو ان لوگوں کے چہرے بگڑ جائیں گے (بگاڑ دیے جائیں گے) جنھوں نے کفر کیا۔“ لوط ؑ کے غمگین ہونے کے متعلق فرمایا : (سِی ءَ بِھِم) [ ھود : 77 ] ”وہ ان (مہمانوں) کی وجہ سے مغموم ہوگیا۔“ اور فرمایا : (ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّهُوَ كَظِيْمٌ) [ النحل : 58] ”(لڑکی پیدا ہونے کی بشارت ملنے پر) اس کا منہ سارا دن کالا رہتا ہے اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے۔“ عَلَوْا“ ”عَلَا یَعْلُوْ“ سے ماضی معلوم جمع مذکرغائب ہے، اس کا مفعول محذوف ہے، یعنی ”مَا عَلَوْہُ۔“ ”تَتْبِیْراً“ ویران کرنا، برباد کرنا، ٹکڑے ٹکڑے کر کے بکھیر دینا۔ ”وَّلِــيُتَبِّرُوْا“ کی تاکید ”تَتْبِيْرًا“ سے کی ہے، اس لیے ترجمہ میں اس کا معنی بری طرح برباد کرنا کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلی دفعہ کا عذاب مکمل ”تَتْبِيْرًا“ یعنی دوسری مرتبہ جیسا بری طرح برباد کرنا نہیں تھا، جب کہ دوسری مرتبہ کا عذاب دشمن کے گھروں میں گھسنے اور مسجد کی بےحرمتی سے کہیں بڑھ کر تھا، اس سے بنی اسرائیل بری طرح خوف و غم میں مبتلا ہوئے، حتیٰ کہ ان کے چہرے بگڑ گئے اور دشمن نے بنی اسرائیل کو اس بری طرح برباد کیا کہ وہ مدتوں اٹھ نہیں سکے۔ 3 اس دوسری دفعہ والے بندوں سے مراد کون لوگ ہیں، اگرچہ قرآن نے ان کی تعیین نہیں فرمائی، تاہم اگر دیکھا جائے کہ رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری کے وقت یہودی بیت المقدس سے مکمل بےدخل تھے، وہاں نصرانیوں کا قبضہ تھا اور یہودیوں کو داخلے تک کی اجازت نہیں تھی، وہ مدینہ، خیبر اور دنیا کے مختلف خطوں میں بکھرے ہوئے تھے تو اللہ کی طرف سے ان زبردست بندوں کے ان پر مسلط ہو کر انھیں مکمل طور پر تباہ و برباد کرکے قدس سے نکال دینے کا اندازہ ہوتا ہے۔ مؤرخین دوسری مرتبہ کا حملہ آور طیوطوس (ٹیوٹس) رومی کو قرار دیتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس اس کی تعیین کا کوئی معتبر ذریعہ نہیں۔ یہاں آکر اسرائیلیوں کی تاریخ ختم ہوجاتی ہے، کیونکہ اس کے بعد وہ دنیا کے مختلف علاقوں میں بکھر گئے، چناچہ اس کے بعد ان ممالک کی تاریخ کے ضمن ہی میں یہود کی تاریخ کا ذکر آتا ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں نے بیت المقدس پر حملہ کیا تو اس وقت یہاں نصرانیوں کی حکومت تھی جنھوں نے مقابلے کی تاب نہ لا کر 16 ھ میں صلح کے ذریعے سے شہر کی چابیاں امیر المومنین عمر بن خطاب ؓ کے حوالے کردیں۔ قدس سے نکلنے کے بعد تقریباً دو ہزار سال تک یہودی بیت المقدس سے بےدخل رہے۔ مگر جب مسلمانوں نے اللہ کے احکام سے بغاوت اختیار کی، شرک و بدعت، فرقہ پرستی، عیش و عشرت، زنا، شراب، موسیقی، کفار سے دوستی اور ان کی تقلید اختیار کرلی، اپنے ہی دستور و قانون بنا کر کتاب و سنت پر عمل ترک کردیا۔ دنیا کی محبت میں جہاد چھوڑ بیٹھے تو ان کی بدعملیوں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دشمن یہودیوں کو دوسرے کفار کی مدد (بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰه) کے ساتھ پھر 1967 ء میں بیت المقدس پر قبضے کا موقع دے دیا، مگر یہ سمجھ لینا کہ اب یہ یہودیوں کے قبضے ہی میں رہے گا درست نہیں، مسلمان اپنے دین کی طرف پلٹیں گے، بلکہ پلٹنا شروع ہوچکے ہیں اور مسلمانوں اور یہودیوں کی جنگ ہوگی، اس میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی نصرت عطا ہوگی جس کا ذکر اس حدیث میں ہے جو ابوہریرہ ؓ نے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یُقَاتِلَ الْمُسْلِمُوْنَ الْیَھُوْدَ ، فَیَقْتُلُھُمُ الْمُسْلِمُوْنَ ، حَتّٰی یَخْتَبِئَ الْیَھُوْدِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ أَوِ الشَّجَرِ ، فَیَقُوْلُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ یَا مُسْلِمُ ! یَا عَبْدَ اللّٰہِ ! ھٰذَا یَھُوْدِیٌّ خَلْفِيْ ، فَتَعَالَ فَاقْتُلْہُ ، إِلَّا الْغَرْقَدَ ، فَإِنَّہُ مِنْ شَجَرِ الْیَھُوْدِ) [ مسلم، الفتن، باب لا تقوم الساعۃ حتی یمر الرجل۔۔ : 2922 ] ”قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ مسلمان یہود سے جنگ کریں گے اور مسلمان انھیں قتل کریں گے، یہاں تک کہ یہودی پتھر اور درخت کے پیچھے چھپے گا تو پتھر یا درخت کہے گا : ”اے مسلم ! اے اللہ کے بندے ! یہ یہودی میرے پیچھے ہے تو اسے قتل کر دے۔“ سوائے ”غرقد“ نامی درخت کے، کیونکہ وہ یہود کے درختوں میں سے ہے۔“
Top