Al-Qurtubi - Al-Israa : 7
اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ١۫ وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا١ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِیَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ وَ لِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ لِیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا
اِنْ : اگر اَحْسَنْتُمْ : تم نے بھلائی کی اَحْسَنْتُمْ : تم نے بھلائی کی لِاَنْفُسِكُمْ : اپنی جانوں کے لیے وَاِنْ : اور اگر اَسَاْتُمْ : تم نے برائی کی فَلَهَا : تو ان کے لیے فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آیا وَعْدُ الْاٰخِرَةِ : دوسرا وعدہ لِيَسُوْٓءٗا : کہ وہ بگاڑ دیں وُجُوْهَكُمْ : تمہاری چہرے وَلِيَدْخُلُوا : اور وہ گھس جائیں گے الْمَسْجِدَ : مسجد كَمَا : جیسے دَخَلُوْهُ : وہ گھسے اس میں اَوَّلَ مَرَّةٍ : پہلی بار وَّلِيُتَبِّرُوْا : اور برباد کر ڈالیں مَا عَلَوْا : جہاں غلبہ پائیں وہ تَتْبِيْرًا : پوری طرح برباد
اگر تم نیکو کاری کرو گے تو اپنی جانوں کے لئے کرو گے اور اگر اعمال بد کرو گے تو (ان کا) وبال بھی تمہاری جانوں پر ہوگا، پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا (تو ہم نے پھر اپنے بندے بھیجے) تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑ دیں اور جس طرح پہلی دفعہ مسجد (بیت المقدس) میں داخل ہوگئے تھے اسی طرح پھر اس میں داخل ہوجائیں اور جس چیز پر غلبہ پائیں اسے تباہ کردیں
آیت نمبر 7 قولہ تعالیٰ : ان احسنتم احسنتم لانفسکم یعنی اگر تم اچھے کام کرو گے تو تمہاری نیکی اور اچھے کام کا نفع تم پر ہی لوٹ کر آئے گا۔ وان اساتم فلھا ای فعلیھا۔ اور اگر تم برائی کروگے تو اس کی سزا بھی تمہیں پر ہوگی، جیسا کہ سلام لک بمعنی سلام علیک ہے (یعنی تجھ پر سلام ہو) ۔ کسی شاعر کا قول ہے : فخر صریعا للیدین و للفم اس میں بھی لام بمعنی علی ہے (یعنی وہ ہاتھوں اور منہ کے بل پر گرا) ۔ اور طبری نے کہا ہے : لام بمعنی الی ہے، یعنی وان اسأتم فإلیھا، یعنی اگر تم برائی کروگے تو اسی (نفس) کی طرف برائی کی سزا لوٹے گی) جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : بان ربک اوحٰی لھا۔ (الزلزال) اس میں بھی لھا بمعنی إلیھا ہے (بےشک تیرے رب نے اس کی طرف وحی کی۔ ) اور کہا گیا ہے : فلھا الجزاء والعقاب۔ پس اسی کے لئے جزا اور سزا ہوگی۔ اور حسین بن فضل نے کہا ہے : فلھا رب یغفر الاساءۃ۔ (پس اس کے لئے رب ہے جو برائی کو معاف فرماسکتا ہے) ۔ پھر یہ احتمال ہے کہ یہ خطاب پہلی بار میں بنی اسرائیل کو ہو، یعنی تم نے برے عمل کئے تو تمہیں قتل کتنا، اور تباہ وبرباد کرنا حلال ہوگیا بعد ازان تم نے اچھے عمل کئے تو بادشاہی، بلندی اور انتظام حال تمہاری طرف لوٹ آئے۔ اور یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے ساتھ حضور نبی مکرم ﷺ کے زمانہ میں بنی اسرائیل کو خطاب کیا گیا ہو، یعنی تم نے گناہوں کی وجہ سے سزا کیلیے اپنے اسلاف کا استحقاق پہچان لیا ہے پس تم بھی اسی کی مثل کا انتظام کرویا یہ اسی وجہ کی بنا پر مشرکین قریش کو خطاب ہو فاذاجآء وعدالاٰخرۃ پس جب تمہارے فساد پھیلانے کے بارے دوسرا وعدہ آگیا : اور وہ یہ کہ انہوں نے دوسری مرتبہ حضرت یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کو قتل کردیا، انہیں بنی اسرائیل کے بادشاہ نے قتل کیا تھا اس کو لاخت کہا جاتا تھا : یہ قتبی نے کہا ہے۔ اور علامہ طبری نے کہا ہے : اس کا نام ہیردوس تھا، اسے انہوں نے تاریخ میں ذکر کیا ہے۔ اور ایک آزبیل نامی عورت نے اسے آپ کے قتل پر ابھارا تھا۔ اور علامہ سدی نے کہا ہے : بنی اسرائیل کا بادشاہ حضرت یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کی بڑی عزت و تکریم کرتا تھا اور وہ معاملات میں آپ سے مشاورت کرتا تھا، پس بادشاہ نے آپ سے یہ مشورہ طلب کیا کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے تو آپ نے اسے اس سے منع کردیا اور فرمایا : بلاشبہ وہ تیرے لئے حلال نہیں ہے، پس اس کی ماں کے دل میں حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے بارے حقد اور عداوت پیدا ہوگئی، پھر اس نے اپنی بیٹی کو باریک سرخ کپڑے پہنائے اور اسے خوب معطر کیا اور اسے خوب معطر کیا اور اسے بادشاہ کی طرف بھیج دیا اس حال میں کہ وہ شراب میں مست تھا۔ اور اس نے اسے حکم دیا کہ وہ اسے چھیڑ چھاڑ کرے، اور اگر وہ اس کی طرف متوجہ ہو تو وہ انکار کردے یہاں تک کہ وہ اسے وہ کچھ عطا کرے جو وہ اس سے مانگتی ہے، اور جب اسے قبول کرلے تو پھر وہ اس سے مطالبہ کرے کہ یحییٰ بن زکریا کا سرسونے کی ٹرے میں رکھ کر لایا جائے، پس اس نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ وہ حضرت یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کا سر لے آیا اور سر گفتگو کرتا رہا یہاں تک کہ جب وہ اس کے سامنے رکھا گیا تو وہ کہہ رہا تھا : لاتحل لک، لاتحل لک (یہ تیرے لئے حلال نہیں ہے، یہ تیرے لئے حلال نہیں ہے) پس جب صبح ہوئی تو ان کا خون ابھی کھول رہا تھا، پس اس نے اس پر مٹی ڈالی تو وہ پھر اس سے زیادہ کھولنے لگا، پس وہ مسلسل اس پر مٹی ڈالتا رہا یہاں تک کہ وہ شہر کی فصیل تک پہنچ گیا اور وہ اس میں بھی کھولتا رہا : اسے ثعلبی وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ اور حافظ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں حضرت حسین بن علی سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے بتایا کہ ان بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ مرگیا اور اس نے اپنی بیوی اور ایک بیٹی پیچھے چھوڑی اور اس کی سلطنت کا وارث اس کے بھائی کو بنایا گیا، تو اس نے اپنے بھائی کی بیوی سے شادی کرنے کا ارادہ کیا، تو اس نے اس بارے میں حضرت یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) سے مشاروت کی، اس زمانے میں بادشاہ انبیاء (علیہم السلام) کے حکم کے مطابق عمل کرتے تھے، تو آپ نے اسے کہا : تو اس سے شادی نہ کر کیونکہ وہ فاحشہ عورت ہے، پس اس عورت کو بتادیا گیا کہ اس کا ذکر کیا ہے اور آپ نے اسے اس سے پھیر دیا ہے، تو اس عورت نے پوچھا : یہ کہاں سے ہوا ہے ؟ یہاں تک کہ اس تک یہ خبر پہنچ گئی کہ یہ یحییٰ کی جانب سے ہوا ہے، تو اس نے کہا کہ یحییٰ کو ضرور قتل کیا جائے گا یا اسے اس ملک سے نکال دیا جائے گا، پس اس نے اپنی بیٹی کو بلایا اور اس کا خوب بناؤ سنگار کرکے اسے تیار کیا، پھر اسے کہا : تو اپنے چچا کے پاس مجلس کے وقت جا کیونکہ وہ جب تجھے دیکھے گا تو وہ تجھے بلائے گا اور تجھے اپنے حجرہ میں بٹھالے گا، اور وہ کہے گا : مجھ سے مانگ جو تو چاہتی ہے، کیونکہ جو شے بھی مجھ سے مانگے کی وہ میں تجھے عطا کروں گا، پس جب وہ تجھے یہ کہے، تو تو یہ کہنا : مجھے یحییٰ کے سر کے سوا کچھ نہیں چاہئے۔ راوی نے کہا : پس اس نے ایسا ہی کیا۔ اس نے کہا : یحییٰ کو قتل کرنے سے بھی اسے موت آئے گی اور اپنی سلطنت سے باہر نکلنے سے بھی اسے موت آئے گی، چناچہ اس نے اپنے ملک کو اختیار کیا اور آپ کو قتل کردیا۔ راوی نے بیان کیا : پس اس لڑکی کی ماں کو زمین نے اپنے اندر نگل لیا (یعنی وہ زمین میں دھنس گئی) ۔ ابن جدعان نے کہا ہے : میں نے یہ حدیث حضرت ابن مسیب (رح) کے پاس بیان کی تو انہوں نے فرمایا : کیا میں تجھے خبر نہ دوں کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کیسے قتل کئے گئے ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں، تو انہوں نے بیان کیا ؛ حضرت زکریا (علیہ السلام) کے بیٹے کو جس وقت قتل کیا گیا تو وہ ان سے بھاگ نکلے اور ان لوگوں نے ان کا تعاقب کیا یہاں تک کہ آپ ایک موٹے تنے والے درخت کے پاس پہنچ گئے تو اس نے آپ کو اپنی طرف بلایا اور آپ کو اپنے اندر چھپا لیا اور آپ کے کپڑے کا ایک کنارہ (جھالر) باہر رہ گئی ہوائیں اسے اڑانے لگیں، پس وہ بھی چلتے ہوئے اس درخت کے پاس آپہنچے اور انہوں نے اس درخت کے بعد آپ کا کوئی اثر اور نشان نہ پایا، اور انہوں نے اس کپڑے کے ٹکڑے کی طرف دیکھا اور پھر آری منگائی اور اس درخت کو کاٹ دیا اور اس کے ساتھ آپ کو بھی کاٹ دیا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : علامہ طبری نے ” التاریخ الکبیر “ میں بیان کیا ہے کہ ابوالسائب نے مجھے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا : ہمیں ابومعاویہ نے اعمش سے انہوں نے منہال سے انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) نے یحییٰ بن زکریا کو ان بارہ حواریوں میں بھیجا جو لوگوں کو تعلیم دیتے تھے، فرمایا : وہ چیزیں جن سے انہوں نے لوگوں کو منع کیا ان میں بھائی کی بیٹی سے نکاح بھی تھا، فرمایا : اور ان کے بادشاہ کے بھائی کی بیٹی تھی جو اس پسند تھی۔۔۔ آگے خبرمذکورہ خبر کے مثل ہی بیان کی۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کو ان حواریوں میں بھیجا گیا جو لوگوں کو تعلیم دیتے تھے، اور جو وہ لوگوں کو تعلیم دیتے تھے اس میں وہ انہیں بھانجی کے ساتھ نکاح کرنے سے منع کرتے تھے، اور ان کے بادشاہ کی بھانجی تھی وہ اسے چاہتی تھی، اور وہ ارادہ رکھتا تھا کہ اس سے شادی کرلے، ہر روز اس کی حاجت ہوتی تھی تو وہ اسے پورا کردیتا تھا، پس جب یہ خبر اس کی ماں کو پہنچی کہ انہوں نے بھانجی کے ساتھ نکاح کرنے سے منع کیا ہے تو اس نے اسے کہا : جب بادشاہ کے پاس جائے اور وہ پوچھے : کیا تیری کوئی حاجت ہے ؟ تو تو یہ کہنا : میری حاجت یہ ہے کہ یحییٰ بن زکریا کو ذبح کردے، پس بادشاہ نے اس سے کہا : تو اس کے سوا مجھ سے مانگ ! تو اس نے کہا : میں تجھ سے اس کے سوا کچھ نہیں مانگتی۔ پس جب اس نے اس کا انکار کیا تو اس نے ایک ٹب منگایا اور آپ کو بھی بلایا اور آپ کو ذبح کردیا، پس آپ کے خون کا قطرہ زمین کے چہرے پر نمایاں ہوگیا پس وہ مسلسل ابلتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر بخت نصر کو مسلط کردیا اور ان کے دل میں یہ بات القا کعدی کہ وہ انہیں اسی خون پر قتل کرے یہاں تک کہ یہ خوب ساکن ہوجائے، پس اس نے اس پر ان میں سے ستر ہزار افراد قتل کئے، اور ایک روایت میں پچھتر ہزار کا ذکر ہے۔ حضرت سعید ابن مسیب ؓ نے بیان کیا ہے : یہ ہر نبی (علیہ السلام) کی دیت ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے : اللہ تعالیٰ نے حضور نبی رحمت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی طرف وحی کی ہے کہ میں نے حضرت یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کے بدلے ستر ہزار افراد کو قتل کیا، اور میں تمہارے تو اسے کے بدلے ستر ہزار کو قتل کروں گا۔ اور سمیر بن عطیہ سے روایت ہے انہوں نے کہا ہے : وہ چٹان جو بیت المقدس میں ہے اس پر ستر انبیاء (علیہم السلام) کو قتل کیا گیا ان میں سے حضرت یحییٰ بن زکریا بھی ہیں۔ اور زید بن واقد سے روایت ہے انہوں نے کہا : میں نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے سر کو اس وقت دیکھا جب انہوں نے مسجد دمشق بنانے کا ارادہ کیا، وہ اس گنبد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے نیچے سے نکلا جو اس محراب کے ساتھ ملتا ہے جو مشرق کی جانب ملتا ہے، اور آپ کا چہرہ اور بال مبارک اپنی اصلی حالت پر تھے کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی تھی۔ اور قرہ بن خالد نے کہا ہے : حضرت یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) اور حضرت امام حسین بن علی ؓ کے سوا آسمان کسی پر نہیں رویا اور اس کی سرخی اس کا رونا ہی ہے۔ اور حضرت سفیان بن عینیہ نے کہا ہے : تین مقامات میں ابن آدم زیادہ وحشت زدہ ہوتا ہے : ایک پیدا ہونے کے دن پس وہ غم واندوہ کے دار کی طرف نکل کر آتا ہے، اور ایک اس رات جو وہ مردوں کے ساتھ گزارتا ہے ہو ایسے پڑوسیوں کا پڑوسی بن جاتا ہے جن کی مثل اس نے پہلے نہیں دیکھے، اور ایک اس دن جب اسے دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور وہ اس جگہ حاضر ہوگا جس کی مثل اس نے پہلے نہیں دیکھی : اور اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے لئے ان تینوں مقامات کے بارے فرمایا : وسلم علیہ یوم ولدویوم یموت ویوم یبعث حیا۔ (میریم) (اور سلامتی ہو ان پر جس روز وہ پیدا ہوئے اور جس روز وہ انتقال کریں گے اور جس روز انہیں اٹھایاجائے گا زندہ کرکے) یہ سب مذکورہ تاریخ سے لیا گیا ہے۔ اور اس کے بارے میں اختلاف ہے جسے ان پر دوسری بار بھیجا گیا، پس کہا گیا ہے کہ وہ بخت نصر تھا۔ اور یہ قشیری ابونصر نے کہا ہے، ان کے سوا کسی نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ سہیلی نے کہا ہے : یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اٹھائے جانے کے بعد قتل کیا گیا، اور بخت نصر حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) سے بہت عرصہ پہلے اور اسکندر سے بھی پہلے ہوا ہے اور اسکندر اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان تقریباً تین سو سال کا عرصہ ہے، لیکن دوسری بار سے مراد وہ لی گئی ہے جس وقت انہوں نے ئ حضرت شعیا کو قتل کیا تھا، اس وقت بخت نصر زندہ تھا، پس یہی وہ ہے جس نے انہیں قتل کیا اور بیت المقدس کو خراب اور برباد کیا اور مصر تک ان کا پیچھا کیا اور انہیں وہاں سے نکال دیا۔ اور ثعلبی (رح) نے کہا ہے : جس نے یہ روایت کیا ہے کہ بخت نصر وہ ہے جس نے بنی اسرائیل پر اس وقت حملہ کی اجس وقت انہوں نے حضرت یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) کو قتل کیا تھا وہ اہل السیر والا خبار کے نزدیک غلط ہے، کیونکہ ان تمام کا اس پر اجماع ہے کہ بخت نصر نے نبی اسرائیل پر اس وقت حملہ کیا تھا جس وقت انہوں نے حضرت شعیا (علیہ السلام) کو قتل کیا تھا اور یہ ارمیاء کے عہد میں ہوا تھا۔ انہوں نے بیان کیا : ارمیاء کے عہد اور بخت نصر کے بیت المقدس کو خراب وبرباد کرنے سے لے کر حضرت یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کی ولادت تک درمیان میں چار سواکسٹھ برس کی مدت ہے، اور یہ کہ وہ بیت المقدس کی تخریب سے لے کر کو سک کے عہد میں اس کی آبادی تک ستر برس کا عرصہ ہے، پھر اس کی آبادی کے بعد سے لے کر بیت المقدس پر اسکندر کے غلبہ تک اٹھاسی برس ہیں، پھر اسکندر کی مملکت کے بعد سے لے کر حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی ولادت تک تین سوتریسٹھ سال ہیں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ سب علامہ طبری (رح) نے اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے۔ ثعلبی (رح) نے کہا ہے : اس میں سے صحیح وہ ہے جو محمد بن اسحاق نے ذکر کیا ہے انہوں نے کہا : جب اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اٹھالیا اور انہوں نے یحییٰ (علیہ السلام) کو قتل کردیا۔۔۔۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کو قتل کیا۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف باہل کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ بھیجا اس کو خردوس کہا جاتا تھا۔ پس وہ اہل باہل کے ساتھ ان کی طرف چلا اور ان پر شام کے ساتھ غلبہ پالیا، پھر اس نے اپنے سالار لشکر کو کہا : میں نے اپنے الہ کی قسم کھائی ہوئی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے بیت المقدس پر غلبہ دیا تو میں ضرور انہیں قتل کروں گا یہاں تک کہ ان کا خون سیرے لشکر کے درمیان سے بہے گا، اور اس نے اسے حکم دیا کہ وہ انہیں قتل کریں یہاں تک کہ وہ ان تک پہنچ جائے، پس وہ سالارلشکر بیت المقدس میں داخل ہوا تو اس نے اس میں ابلتا ہوا خون دیکھا تو اس نے ان سے اس کے بارے پوچھا تو انہوں نے بتایا : یہ قربانی کا خون ہے ہم نے اسے قربان کیا کین اسی برس سے یہ ہماری طرف سے قبول نہیں ہوئی۔ اس نے کہا : تم نے میرے سامنے سچ نہیں کہا، پس اس نے ان سرداروں میں سے سات سو ستر افراد کو اس خون پر ذبح کیا لیکن وہ پر سکون نہ ہوا، پھر ان کئ بچوں میں سے سات بچے لائے گئے اور وہ اس خون پر ذبح کئے گئے لیکن وہ پرسکون نہ ہوا پھر اس نے ان کے قیدیوں اور ان کی عورتوں میں سے سات ہزار لانے کا حکم دیا اور اس نے انہیں اس خون پر ذبح کیا لیکن وہ ٹھنڈا نہ ہوا، تب اس نے کہا : اے بنی اسرائیل ! مجھے سچ سچ بتاؤ اس سے پہلے کہ میں تم میں سے کوئی عورت آگ کو پھونک مارنے کے لئے بھی بہ چھوڑوں اور نہ کوئی مرد چھوڑوں مگر اسے قتل کردوں۔ پس جب انہوں نے مشقت اور تکلیف کو دیکھا تو کہنے لگے : بیشک یہ ہمارے نبی (علیہ السلام) کا خون ہے وہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بننے والے بہت سے امور سے منع کرتے تھے تو ہم نے انہیں قتل کردیا، پس یہ انہی کا خون ہے، ان کا اسم گرامی حضرت یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) تھا، انہوں نے کبھی آنکھ جھپکنے کی دیر بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی اور نہ معصیت کا قصد کیا، تو اس نے تم نے مجھے سچ بیان کیا ہے، اور وہ سجدہ میں گرگیا پھر اس نے کہا : اب اس کی مثل کا تم سے انتقام لیا جائے گا، اور اس نے دروازے بند کرنے کا حکم دیا اور کہا : خردوس کے لشکر میں سے جو یہاں ہیں تم باہر نکل جاؤ، اور وہ بنی اسرائیل کے لئے خالی ہوگئی اس نے کہا : اے نبی اللہ ! اے یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) تحقیق میرا اور آپ کا رب جانتا ہے آپ کی وجہ سے آپ کی قوم پر جو آفت اور مصیبت آئی، پس اللہ تعالیٰ کے حکم سے پرسکون ہوجاؤ اس سے پہلے کہ میں ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑوں۔ پس حضرت یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کا خون اللہ عزوجل کے حکم سے ٹھنڈا ہوگیا، اور اس نے ان سے قتل کو اٹھا لیا اور کہا : اے میرے رب ! بلاشبہ میں اس کے ساتھ ایمان لایا جس کے ساتھ بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں اس کی تصدیق کرتا ہوں، پس اللہ تعالیٰ نے رؤس الا نبی اء میں سے ایک رأس کی طرف وحی بھیجی۔ بیشک یہ سالار مومن ہے اور سچا ہے۔ پھر اس نے کہا : بت شک اللہ تعالیٰ کے دشمن خردوس نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم میں سے اتنے لوگوں کو قتل کروں کہ تمہارا خون اس کے لشکر کے درمیان سے بہہ کرجائے۔ اور بلاشبہ میں اس کی نافرمانی اور حکم عدولی نہیں کرسکتا، پس اس نے انہیں حکم دیا کہ وہ خندق کھودیں اور انہیں اپنے مالوں میں سے اونٹ، گھوڑے، خچر، گدھے، گائیں اور بکریاں وغیرہ لانے کا حکم دیا پس انہوں نے انہیں ذبح کیا یہاں تک کہ خون لشکر کی طرف بہہ گیا، اور وہ مقتول جو اس سے پہلے قتل کئے گئے تھے انہیں ان ذبح کئے گئے جانوروں پر پھینک دیا گیا، پھر وہ ان سے باہل کی طرف لوٹ گیا، حالانکہ یہ قریب تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو تباہ وبرباد کردیتا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس باب میں طویل حدیث مرفوع موجود ہے حضرت حذیفہ ؓ سے مروی ہے، ہم نے اسے (کتاب التذکرہ) میں ابواب فی اخبار المہدی میں مقطوع ذکر کیا ہے، ہم اس میں سے یہاں اتنا ذکر کریں گے جو آیت کے معنی کی وضاحت کردے گا اور اس کی تفسیر بیان کردے گا یہاں تک کہ اس کے ساتھ مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہوگی، حضرت حذیفہ ؓ نے بیان فرمایا : میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ بیت المقدس اللہ تعالیٰ کے نزدیک انتہائی عظیم، عالیشان اور قدرو مرتبہ کے اعتبار سے عظیم الشان ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” یہ ان اعلیٰ وارفع اور بلند مرتبہ گھروں میں سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان بن داؤد (علیہما السلام) کے لئے سونے، چاندی، موتی، یاقوت اور زمرد سے بنایا۔ “ اور وہ اس طرح کہ حضرت سلیمان بن داؤد (علیہما السلام) نے جب اسے بنایا تو اللہ تعالیٰ نے جب ان کے لئے مسخر کردیئے (ان کے تابع بنادیئے) پس وہ معاون (کانیں) سے سونا اور چاندی لے آتے تھے، اور وہ آپ کے پاس جواہر، یاقوت اور زمرد لے آتے تھے، اور اللہ تعالیٰ نے جن آپ کے تابع رکھے یہاں تک کہ انہوں نے ان اصناف سے اسے بنادیا۔ حضرت حذیفہ ؓ نئے بیان فرمایا : سو میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ : یہ چیزیں بیت المقدس سے کیسے اٹھالی گئیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جب بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور انہوں نے انبیاء السلام کو قتل کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بخت نصر کو مسلط کردیا وہ مجوسی (آتش پرست) تھا اور اس کی حکومت سات سو سال تک رہی، اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : فاذاجآء وعداولٰھما بعثنا علیکم عبادًالنآ اولی باس شدیدٍ فجا سوا خلٰل الدیار وکان وعدًا مفعولاً پس وہ بیت المقدس میں داخل ہوئے اور مردوں کو قتل کردیا اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالیا اور اموال اور وہ سب کچھ جو ان اصناف میں سے بیت المقدس میں تھا سب جمع کرلیا اور اسے ایک لاکھ ستر ہزار سامان لادنے والی گاڑیوں پر لاددیا یہاں تک کہ اسے بابل پہنچا دیا، پس وہ وہیں مقیم رہے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور فارس کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کو یہ القا کیا کہ وہ بابل کی زمین میں مجوسیوں کی طرف چلے، اور ان کے قبضے میں بنی اسرائیل میں سے جو ہیں انہیں نجات دلائے پس وہ بادشاہ ان کی طرف چل پڑا یہاں تک کہ وہ بابل کے علاقے میں داخل ہوگیا اور مجوسیوں کے ہاتھوں میں جو بنی اسرائیل کے لوگ باقی تھے انھیں چھڑایا اور وہ زیورات جو بیت المقدس سے وہ لے آئے تھے وہ بھی ان سے لے لئے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اسی مقام پر واپس لوٹا دیا جس پر وہ پہلے تھے پس اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا : اے بنی اسرائیل اگر تم پھر گناہوں اور نافرمانی کی طرف لوٹ گئے تو ہم بھی قید اور قتل و غارت کو تم پر لوٹا دیں گے، اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے : عسیٰ ربکم ان یرحمکم ۚوان عدتم عدنا (الاسراء :8) (قریب ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم فرمائے گا اور اگر تم فسق وفجور کی طرف دوبارہ لوٹے تو ہم بھی لوٹیں گے) اور جب بنی اسرائیل بیت المقدس کی طرف لوٹ کر آئے تو دوبارہ گناہوں اور نافرمانیوں کا ارتکاب کرنے لگے تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر شاہ روم قیصر کو مسلط کردیا، اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ قول : فاذاجآء وعدالاٰخرۃ لیسوٓء اوجوھکم ولیدخلوا المسجد کما دخلوہ اول مرۃٍ ولیتبروا ماعلوا تتمیرًا۔ پس اس نے ان پر بحروبر میں حملہ کیا اور انہیں قیدی بنایا انہیں قتل کیا اور ان کے اموال اور ان کی عورتوں کو اٹھالیا، اور بیت المقدس کے جمیع زیوات بھی اٹھالئے اور انہیں ایک لاکھ ستر ہزار سامان والی گاڑیوں پر لادا، یہاں تک کہ انہیں کنیسۃ الذھب میں پہنچا دیا۔ پس وہ اب بھی اس میں ہیں حتیٰ کہ حضرت مہدی (علیہ السلام) اسے اٹھائیں گے اور اسے بیت المقدس کی طرف لوٹا دیں گے، اور ایک ہزار سات سو کشتیوں کو فا پر لنگر انداز کیا جائے گا یہاں تک کہ اسے بیت المقدس کی طرف منتقل کردیا جائے گا اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اولین وآخرین کو جمع کردے گا “۔ اور آگے حدیث ذکر کی۔ قولہ تعالیٰ : فاذاجآء وعدالاٰخرۃ یعنی دونوں باریوں میں سے جب دوسرا وعدہ آگیا۔ اور اذا کا جواب محذوف ہے، تقدیر کلام ہے : بعثناھم (تو ہم نے ان پر مسلط کردیا) اور اس پر دلیل پہلا بعثنا ہے۔ لیسوٓء اوجوھکم تاکہ قید اور قتل کے ساتھ تمہارے چہروں کو غمناک بنادیں۔ اور اس غم کا اثر تمہارے چہروں میں ظاہر ہونے لگے۔ پس لیسوٓءا محذوف کے متعلق ہے، یعنی ہم نے ایسے بندے بھیج دیئے (مسلط کردیئے) تاکہ وہ تمہارے ساتھ ایسا برتاؤ اور سلوک کریں جو تمہارے چہروں کو سیاہ اور غمزدہ کردے۔ یہ بھی کہا گیا ہے : الوجوہ سے مراد سرداری ہے یعنی تاکہ وہ انہیں ذلیل ورسوا کردیں۔ اور کسائی نے لنسوء نون اور ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے، اپنے بارے میں خبر دینے والے کا فعل عظیم الشان ہے، اور یہ کہ اسے قول باری تعالیٰ : وقضینا اور بعثنا، رددنا پر قیاس کرتے ہوئے یہ کہا ہے۔ اور اسی طرح علی سے مروی ہے۔ اور اس کی تصدیق حضرت ابی قرأت لنسؤن نون اور حرف تاکید کے ساتھ ہوتی ہے۔ ابوبکر، اعمش، ابن دثاب، حمزہ اور ابن عامر نے لیسوء صیغہ واحد کی بنا پر یاء اور ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور اس کی دو وجہیں ہیں : ان میں سے ایک یہ ہے لیسؤ اللہ وجوھکم (تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں کو غمناک بنادے۔ ) اور دوسری یہ ہے۔۔۔۔ لیسؤ الوعدوجوھکم (تاکہ وہ وعدہ تمہارے چہرون کو غمزدہ کردے) اور باقیوں نے لیسوء واصیغہ جمع کی بنا پر یا اور ہمزہ کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے، یعنی تاکہ وہ لوگ جو کرخت اور قوت و طاقت والے ہیں تمہارے چہروں کو غمناک بنادیں۔ ولید خلوا المسجد کما دخلوہ اول مرۃٍ ولیتبروا اور تاکہ وہ (جبراً ) مسجد میں داخل ہوجائیں جیسے وہ پہلی بار اس میں داخل ہوئے تھے تاکہ وہ تباہ و برباد اور ہلاک کردیں۔ اور قطرب نے کہا ہے : تاکہ وہ اسے گرادیں۔ جیسا کہ شاعر کا قول ہے : فما الناس إلا عاملان فعامل یتبر ما یبنی و آخر رافع ماعلوا یعنی تمہارے شہروں میں سے جس پر وہ غالب آجائیں۔ تتبیرًا (مکمل طور پر تباہ و برباد کرنا)
Top