Al-Quran-al-Kareem - Al-Furqaan : 24
اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ یَوْمَئِذٍ خَیْرٌ مُّسْتَقَرًّا وَّ اَحْسَنُ مَقِیْلًا
اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ : بہشت والے يَوْمَئِذٍ : اس دن خَيْرٌ : بہت اچھا مُّسْتَقَرًّا : ٹھکانہ وَّاَحْسَنُ : اور بہترین مَقِيْلًا : آرام گاہ
اس دن جنت والے ٹھکانے کے اعتبار سے نہایت بہتر اور آرام گاہ کے اعتبار سے کہیں اچھے ہوں گے۔
اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا۔۔ : جہنمیوں کے ذکر کے ساتھ اہل جنت کا ذکر فرمایا کہ وہ اس دن کفار سے ٹھکانے کے اعتبار سے نہایت بہتر اور آرام گاہ کے اعتبار سے کہیں اچھے ہوں گے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ قیامت کے دن کفار کے لیے تو خیر کا وجود ہی نہیں ہوگا، پھر اہل جنت کا ٹھکانے اور آرام گاہ میں ان سے بہتر ہونے کا کیا مطلب ؟ جواب یہ ہے کہ دنیا میں کفار کو جو عیش و آرام میسر تھا اہل جنت اس دن اس سے کہیں اچھے ٹھکانے اور آرام گاہ میں ہوں گے، یا یہ بات جہنمیوں پر طنز کے طور پر کہی گئی ہے۔ وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا : اصل میں ”مَقِيْلًا“ کے لفظی معنی ہیں ”قیلولہ کرنے کی جگہ“ اور قیلولہ گرمی میں دوپہر کے آرام کو کہتے ہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں : (لَا یَنْتَصِفُ النَّھَارُ مِنْ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یَقِیْلَ ھٰؤُلَاءِ وَ ھٰؤُلَاءِ ثُمَّ قَرَأَ : (اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَا۟اِلَى الْجَحِيْمِ) [ مستدرک حاکم : 2؍402، ح : 3516، صححہ الحاکم و وافقہ الذھبي ] ”قیامت کے دن ابھی دوپہر نہ ہوئی ہوگی کہ یہ لوگ اور وہ لوگ دوپہر کا آرام کر رہے ہوں گے، پھر (کفار کے متعلق) یہ آیت پڑھی : (اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَا۟اِلَى الْجَحِيْمِ) [ الصافات : 68 ] ”بلاشبہ ان کی واپسی یقیناً اسی بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف ہوگی۔“
Top