Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 11
لَّا تَسْمَعُ فِیْهَا لَاغِیَةًؕ
لَّا تَسْمَعُ : نہ سنیں گے فِيْهَا : اس میں لَاغِيَةً : بیہودہ بکواس
وہاں کسی طرح کی بکواس نہیں سنیں گے
لاتسمع فیھا لاغیہ۔ کوئی ایسی گفتگو نہیں سنیں گے جوان کے مقام سے فروتر ہو اور ناپسندیدہ ہو کہا، لاغیہ لغو اور لغا سب کا ایک ہی معنی ہے کہا عن اللغا ورفث التکلم لغو بات اور بےحیائی کی باتوں سے۔ فراء اور اخنس نے کہا، اس میں تو کوئی لغو کلمہ نہیں سنے گا اس کی مراد میں چھ وجوہ ہیں۔ (1) اس میں جھوٹے، بہتان اور اللہ تعالیٰ کا انکار نہ سنیں گے یہ حضرت ابن عباس کا فرمان ہے۔ (2) نہ باطل اور نہ گناہ کی کوئی بات سنیں گے یہ قتادہ کا قول ہے۔ (3) اس سے مراد گالی ہے یہ مجاہد کا قول ہے۔ (4) وہ معصیت کے بارے میں نہ سنیں گے یہ حضرت حسن بصری کا قول ہے۔ (5) کسی قسم اٹھانے والے کے بارے میں نہ سناجاجائے گا کہ وہ جھوٹی قسم اٹھاتا ہے یہ فراء کا قول ہے، کلبی نے کہا، جنت میں کسی آدمی کے بارے میں نہیں سناجائے گا کہ وہ سچی یاجھوٹی قسم اٹھاتا ہے۔ (6) ان کی گفتگو میں کوئی لغو کلمہ نہیں سناجائے گا کیونکہ جنتی صرف حکمت کی بات کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جن دائمی نعمتوں سے نوازا ہوتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں یہ بھی فراء کا قول ہے، یہ سب سے اچھا قول ہے کیونکہ جو کچھ ذکر کیا گیا سب کو عام ہے۔ ابوعمرو اور ابن کثیر نے اسے لایسمع پڑھا ہے کہ یہ نائب الفاعل ہے اسی طرح نافع نے بھی بات کی ہے مگر تاء مضموم کے ساتھ ہے کیونکہ لاغیہ اسم مونث ہے فعل کو اس کی وجہ سے مونث ذکر کیا گیا ہے جس نے اسے یاء کے ساتھ پڑھا ہے اس کے نزدیک وجہ یہ ہے کہ فعل اور فاعل کے درمیان جار مجرور ہے باقی قراء نے تاء کے ساتھ پڑھا ہے اور مفتوح پڑھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وجوہ کی طرف منسوب ہے معنی یہ بنے گا اس میں وجوہ کوئی لغو بات نہ سنیں گے۔
Top