Al-Quran-al-Kareem - Ash-Shu'araa : 223
یُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَ اَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَؕ
يُّلْقُوْنَ : ڈالدیتے ہیں السَّمْعَ : سنی سنائی بات وَاَكْثَرُهُمْ : اور ان میں اکثر كٰذِبُوْنَ : جھوٹے ہیں
وہ سنی ہوئی بات لا ڈالتے ہیں اور ان کے اکثر جھوٹے ہیں۔
يُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَاَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَ : ”السَّمْعَ“ مصدر بمعنی اسم مفعول ہے، یعنی سنی ہوئی بات۔ اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ شیاطین فرشتوں سے سنی ہوئی بات کاہنوں کے کانوں میں لا ڈالتے ہیں، جن میں وہ اپنی طرف سے سو (100) جھوٹی باتیں ملا دیتے ہیں۔ فرشتوں سے سنی ہوئی وہ بات سچی نکلتی ہے تو سو (100) جھوٹی باتوں کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں کرتے۔ دوسرا یہ کہ وہ ”افاک و اثیم“ کاہن شیاطین سے سنی ہوئی بات لوگوں کو بتاتے ہیں جس میں وہ مزید جھوٹ ملا دیتے ہیں اور ان کے اکثر جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں، سوائے اس ایک بات کے جو شیاطین نے چرا کر ان تک پہنچائی ہوتی ہے۔ ”يُّلْقُوْنَ السَّمْعَ“ میں ”السَّمْعَ“ مصدر مفعول لہ بھی ہوسکتا ہے، یعنی وہ شیاطین فرشتوں کی گفتگو سننے کے لیے کان لگاتے ہیں، یا وہ کاہن شیاطین کی باتیں سننے کے لیے کان لگاتے ہیں۔ یہ معنی بھی درست ہے۔ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (إِذَا قَضَی اللّٰہُ الْأَمْرَ فِي السَّمَاءِ ، ضَرَبَتِ الْمَلَاءِکَۃُ بِأَجْنِحَتِھَا خُضْعَانًا لِقَوْلِہِ ، کَأَنَّہُ سِلْسِلَۃٌ عَلٰی صَفْوَانٍ ، فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِھِمْ قَالُوْا مَا ذَا قَالَ رَبُّکُمْ ؟ قَالُوْا لِلَّذِيْ قَالَ الْحَقَّ ، وَھُوَ الْعَلِيُّ الْکَبِیْرُ ، فَیَسْمَعُھَا مُسْتَرِقُ السَّمْعِ وَمُسْتَرِقُوا السَّمْعِ ھٰکَذَا بَعْضُہُ فَوْقَ بَعْضٍ ، وَصَفَہُ سُفْیَانُ بِکَفِّہِ فَحَرَفَھَا وَ بَدَّدَ بَیْنَ أَصَابِعِہِ ، فَیَسْمَعُ الْکَلِمَۃَ فَیُلْقِیْھَا إِلٰی مَنْ تَحْتَہُ ، ثُمَّ یُّلْقِیْھَا الْآخَرُ إِلٰی مَنْ تَحْتَہُ ، حَتّٰی یُلْقِیَھَا عَلٰی لِسَان السَّاحِرِ أَوِ الْکَاھِنِ ، فَرُبَّمَا أَدْرَکَ الشِّھَابُ قَبْلَ أَنْ یُلْقِیَھَا، وَرُبَّمَا أَلْقَاھَا قَبْلَ أَنْ یُّدْرِکَہُ ، فَیَکْذِبُ مَعَھَا ماءَۃَ کَذْبَۃٍ فَیُقَالُ أَلَیْسَ قَدْ قَالَ لَنَا یَوْمَ کَذَا وَ کَذَا، کَذَا وَ کَذَا ؟ فَیُصَدَّقُ بِتِلْکَ الْکَلِمَۃِ الَّتِيْ سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاءِ) [ بخاري، التفسیر، باب (حتی إذا فزع عن قلوبہم۔۔) : 4800 ] ”جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا فیصلہ آسمان پر کرتا ہے تو فرشتے عاجزی سے اپنے پر پھڑ پھڑاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا فرمان انھیں اس طرح سنائی دیتا ہے جیسے صاف چکنے پتھر پر زنجیر کی آواز ہوتی ہے، پھر جب وہ گھبراہٹ ان کے دلوں سے دور ہوجاتی ہے تو وہ آپس میں دریافت کرتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے ؟ وہ کہتے ہیں کہ اس نے حق فرمایا ہے اور وہ بہت بلندی والا، بہت بڑائی والا ہے، تو (کبھی کبھی) چوری سننے والا اسے سن لیتا ہے اور چوری سننے والے اس طرح ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں۔“ اور (حدیث کے راوی) سفیان نے چوری سننے والوں کی کیفیت بیان کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو الگ الگ کرکے ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر دکھایا۔ ”تو وہ (شیطان جنّ) بات سن لیتا ہے اور اپنے سے نیچے والے کو پہنچا دیتا ہے، پھر وہ دوسرا اسے اپنے سے نیچے والے کو پہنچا دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ اسے جادوگر کاہن کی زبان پر ڈال دیتا ہے، پھر بعض اوقات شعلہ اسے نیچے پہنچانے سے پہلے آ پکڑتا ہے اور بعض اوقات وہ شعلہ پہنچنے سے پہلے دوسرے کو وہ بات پہنچا دیتا ہے تو وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا دیتا ہے۔ تو کہا جاتا ہے، کیا اس نے ہمیں فلاں فلاں دن ایسے ایسے نہیں کہا تھا ؟ تو اس بات کی وجہ سے جو آسمان سے سنی تھی اس کو سچا سمجھ لیا جاتا ہے۔“ عائشہ زوج النبی ﷺ بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے : (إِنَّ الْمَلَاءِکَۃَ تَنْزِلُ فِي الْعَنَانِ ، وَھُوَ السَّحَابُ ، فَتَذْکُرُ الْأَمْرَ قُضِيَ فِي السَّمَاءِ ، فَتَسْتَرِقُ الشَّیَاطِیْنُ السَّمْعَ فَتَسْمَعُہُ ، فَتُوْحِیْہِ إِلَی الْکُھَّانِ ، فَیَکْذِبُوْنَ مَعَھَا ماءَۃَ کَذْبَۃٍ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِھِمْ) [ بخاري، بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ۔۔ : 3210 ] ”فرشتے بادل میں اترتے ہیں اور اس کام کا ذکر کرتے ہیں جس کا آسمان میں فیصلہ کیا گیا ہوتا ہے۔ تو شیطان چوری سے اس کی طرف کان لگاتے ہیں اور اسے سن لیتے ہیں اور کاہنوں کے دلوں میں پہنچا دیتے ہیں اور اس کے ساتھ اپنی طرف سے سو (100) جھوٹ ملا دیتے ہیں۔“ صفیہ نے نبی ﷺ کی بیویوں میں سے ایک بیوی سے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا : (مَنْ أَتٰی عَرَّافًا فَسَأَلَہُ عَنْ شَيْءٍ لَمْ تُقْبَلْ لَہُ صَلاَۃُ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً) [ مسلم، السلام، باب تحریم الکہانۃ۔۔ : 2230 ] ”جو شخص کسی عراف (چوریاں یا گم شدہ چیزیں بتانے والے) کے پاس گیا اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا تو اس کی چالیس راتوں کی نماز قبول نہیں ہوگی۔“ ابوہریرہ اور حسن ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مَنْ أَتٰی کَاھِنًا أَوْ عَرَّافًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فََقَدْ کَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) [ مسند أحمد : 2؍429، ح : 9548 ] ”جو شخص کسی کاہن یا عراف کے پاس جائے اور اسے اس بات میں سچا سمجھے جو وہ کہے تو اس نے اس کے ساتھ کفر کیا جو محمد ﷺ پر نازل ہوا۔“ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کاہنوں (غیب کی باتیں بتانے والوں) کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : (لَیْسُوْا بِشَيْءٍ ، قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! فَإِنَّھُمْ یُحَدِّثُوْنَ أَحْیَانًا بالشَّيْءِ یَکُوْنُ حَقًّا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تِلْکَ الْکَلِمَۃُ مِنَ الْحَقِّ یَخْطَفُھَا الْجِنِّيُّ فَیَقُرُّھَا فِيْ أُذُنِ وَلِیِّہِ قَرَّ الدَّجَاجَۃِ فَیَخْلِطُوْنَ فِیْھَا أَکْثَرَ مِنْ ماءَۃِ کَذْبَۃٍ) [ بخاري، الأدب، باب قول الرجل للشيء۔۔ : 6213 ] ”وہ کچھ بھی نہیں۔“ لوگوں نے کہا : ”یا رسول اللہ ! بعض اوقات وہ ہمیں کوئی بات بتاتے ہیں جو سچی نکلتی ہے۔“ آپ ﷺ نے فرمایا : ”وہ بات حق ہوتی ہے جسے جنّی (جن) اچک لیتا ہے اور اپنے دوست کے کان میں مرغی کے کڑکڑ کرنے کی طرح ڈال دیتا ہے، پھر وہ اس کے ساتھ سو (100) جھوٹ ملا لیتے ہیں۔“
Top