Al-Quran-al-Kareem - An-Naml : 38
قَالَ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَیُّكُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ
قَالَ : اس (سلیمان) نے کہا يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا : اے سردارو ! اَيُّكُمْ : تم میں سے کون يَاْتِيْنِيْ : میری پاس لائے گا بِعَرْشِهَا : اس کا تخت قَبْلَ : اس سے قبل اَنْ : کہ يَّاْتُوْنِيْ : وہ آئیں میرے پاس مُسْلِمِيْنَ : فرمانبردار ہو کر
کہا اے سردارو ! تم میں سے کون اس کا تخت میرے پاس لے کر آئے گا، اس سے پہلے کہ وہ فرماں بردار ہو کر میرے پاس آئیں ؟
قَالَ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا اَيُّكُمْ يَاْتِيْنِيْ بِعَرْشِهَا۔۔ : آیات کے سیاق سے یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ جب قاصد ملکہ سبا کے پاس پہنچا اور اس نے سلیمان ؑ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا اور ان کا پیغام پہنچایا تو وہ سمجھ گئی کہ وہ ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی، چناچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود آپ کے ہاں حاضر ہو کر آپ کے ساتھ گفت و شنید کرے۔ چناچہ وہ اپنے لشکر اور سرداروں کے ساتھ روانہ ہوئی، ابھی وہ راستے میں تھی اور پہنچا ہی چاہتی تھی کہ سلیمان ؑ نے اپنے سرداروں کو مخاطب کرکے فرمایا : ”تم میں سے کون ہے جو اس کا تخت میرے پاس اس سے پہلے لے آئے کہ وہ تابع فرمان ہو کر میرے پاس آئیں۔“ سلیمان ؑ کا مقصد اس سے یہ تھا کہ جب وہ یہاں پہنچ کر اپنے تخت کو موجود پائے تو اسے معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو کیسی غیر معمولی قوتیں عطا فرماتا ہے، تاکہ اسے یقین ہوجائے کہ میں واقعی اللہ کا نبی ہوں اور اس کی عقل کا بھی امتحان ہوجائے کہ کچھ تبدیلی کے بعد وہ اپنا تخت پہچانتی ہے یا نہیں۔ بعض مفسرین نے سلیمان ؑ کے ملکہ کا تخت منگوانے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ وہ اس کے پہنچنے سے پہلے اس کے تخت پر قبضہ کرلینا چاہتے تھے، کیونکہ جب وہ پہنچ کر اسلام قبول کرلے گی تو اس کے مال پر قبضہ جائز نہ ہوگا۔ مگر یہ بات سراسر غلط ہے، کیونکہ سلیمان ؑ کے پاس تو ہر چیز ملکہ سے کہیں بہتر اور بڑھ کر موجود تھی اور کسی شخص کے مسلمان ہونے کی امید پر اس کی مدد کے بجائے پہلے ہی اس کے اموال پر قبضہ جمانے کی فکر کرنا ایک نبی تو دور خلفائے اسلام کی شان کے لائق بھی نہیں۔ ویسے بھی پہلی امتوں کے لیے مال غنیمت حلال نہیں تھا۔
Top