Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Quran-al-Kareem - An-Naml : 40
قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَ١ؕ فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ١ۖ۫ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُ١ؕ وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ
قَالَ
: کہا
الَّذِيْ
: اس نے جو
عِنْدَهٗ
: اس کے پاس
عِلْمٌ
: علم
مِّنَ
: سے۔ کا
الْكِتٰبِ
: کتاب
اَنَا
: میں
اٰتِيْكَ بِهٖ
: میں اس کو تمہارے پاس لے آؤں گا
قَبْلَ
: قبل
اَنْ يَّرْتَدَّ
: کہ پھر آئے
اِلَيْكَ
: تمہاری طرف
طَرْفُكَ
: تمہاری نگاہ (پلک جھپکے)
فَلَمَّا رَاٰهُ
: پس جب سلیمان نے اس دیکھا
مُسْتَقِرًّا
: رکھا ہوا
عِنْدَهٗ
: اپنے پاس
قَالَ
: اس نے کہا
ھٰذَا
: یہ
مِنْ
: سے
فَضْلِ رَبِّيْ
: میرے رب کا فضل
لِيَبْلُوَنِيْٓ
: تاکہ مجھے آزمائے
ءَاَشْكُرُ
: آیا میں شکر کرتا ہوں
اَمْ اَكْفُرُ
: یا ناشکری کرتا ہوں
وَمَنْ
: اور جس
شَكَرَ
: شکر کیا
فَاِنَّمَا
: تو پس وہ
يَشْكُرُ
: شکر کرتا ہے
لِنَفْسِهٖ
: اپنی ذات کے لیے
وَمَنْ
: اور جس
كَفَرَ
: ناشکری کی
فَاِنَّ
: تو بیشک
رَبِّيْ
: میرا رب
غَنِيٌّ
: بےنیاز
كَرِيْمٌ
: کرم کرنیوالا
اس نے کہا جس کے پاس کتاب کا ایک علم تھا، میں اسے تیرے پاس اس سے پہلے لے آتا ہوں کہ تیری آنکھ تیری طرف جھپکے۔ پس جب اس نے اسے اپنے پاس پڑا ہوا دیکھا تو اس نے کہا یہ میرے رب کے فضل سے ہے، تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں، یا ناشکری کرتا ہوں اور جس نے شکر کیا تو وہ اپنے ہی لیے شکر کرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو یقینا میرا رب بہت بےپروا، بہت کرم والا ہے۔
قَالَ الَّذِيْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ۔۔ : ابن ابی حاتم نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس ؓ سے نقل فرمایا ہے کہ سلیمان ؑ نے فرمایا : ”میں اس سے جلدی چاہتا ہوں۔“ اس پر وہ شخص جس کے پاس کتاب کا ایک علم تھا، کہنے لگا : ”میں اسے آپ کے پاس اس سے پہلے لاتا ہوں کہ آپ کی آنکھ جھپکے۔“ سلیمان ؑ نے دیکھا تو وہ تخت ان کے پاس پڑا ہوا تھا۔ اس پر تکبر اور غرور کے بجائے انھوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ 3 آنکھ جھپکنے سے پہلے تخت لانے والا یہ شخص کون تھا، اس کے پاس کس کتاب کا علم تھا اور وہ علم کیا تھا ؟ اس کی تصریح قرآن یا کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے۔ لہٰذا ہم صرف اتنی بات ماننے کے مکلف ہیں جتنی قرآن میں بیان کی گئی ہے کہ وہ ایک شخص تھا جس کے پاس کتاب کا علم تھا۔ اکثر مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ وہ سلیمان ؑ کا ایک وزیر آصف بن برخیا تھا، جو بنی اسرائیل سے تھا اور اسے اللہ تعالیٰ کے اس اسم اعظم کا علم تھا جس کے ذریعے سے اگر دعا کی جائے تو وہ اسے ضرور قبول فرماتا ہے اور وہ تخت لانا آصف بن برخیا کی کرامت تھی، لیکن ظاہر ہے کہ ان مفسرین کی یہ بات اسرائیلیات سے ہے، کیونکہ یہ حضرات نہ اس وقت موجود تھے، نہ یہ بتاتے ہیں کہ انھیں یہ بات کس نے بتائی اور نہ ان سے لے کر سلیمان ؑ تک کوئی سند ہے کہ اس پر یقین کیا جاسکے۔ بعض مفسرین نے اسے جبریل ؑ اور بعض نے خضر ؑ قرار دیا ہے، مگر یہ بالکل ہی بےاصل ہے۔ بعض مفسرین نے سلیمان ؑ کو وہ شخص قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جب عفریت نے سلیمان ؑ کے مجلس سے اٹھنے سے پہلے تخت لانے کی بات کی تو سلیمان ؑ نے، جن کے پاس کتاب اللہ کا علم تھا، اسے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں آنکھ جھپکنے سے بھی پہلے تیرے پاس لاتا ہوں۔ چناچہ وہ اسے لے آئے اور یہ ان کا معجزہ تھا، جس پر انھوں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ رازی اور کچھ اور مفسرین نے صرف اس بات کو صحیح کہا ہے، مگر اس میں جو تکلف ہے وہ مخفی نہیں۔ زمانہ حال کے ایک مفسر محمد اسحاق خاں نے ایک احتمال کا ذکر کیا ہے جو ان سے پہلے بھی ایک جدید مفسر ذکر کرچکے ہیں، وہ لکھتے ہیں : ”علم کتاب سے بظاہر یہاں مراد خداوند قدوس کی کتاب و شریعت یعنی تورات کا علم ہے کہ اپنے دور میں علم اور ہدایت و نور کا سرچشمہ وہی کتاب الٰہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس عالم کتاب کو اسمائے الٰہی اور خواص کلمات کے اس علم کا بھی کوئی حصہ حاصل تھا جو سحر اور شعبدہ وغیرہ جیسے سفلی علوم کے مقابلے کے لیے بنی اسرائیل کو بابل کی اسیری کے دور میں ہاروت و ماروت نامی دو فرشتوں کے ذریعے سے قدرت کی طرف سے عطا فرمایا گیا تھا۔ یہ علم تورات وغیرہ آسمانی صحیفوں میں سے کسی کا حصہ نہیں تھا، بلکہ یہ ان سے الگ ایک خاص علم تھا جو ایک خاص دور میں اور خاص ضرورت و مصلحت کے لیے بنی اسرائیل کو سکھایا گیا تھا۔ جس طرح کہ اس کا ذکر سورة بقرہ میں ہاروت و ماروت کے قصے کے ضمن میں فرمایا گیا ہے۔ سو علم کتاب و شریعت رکھنے والے اس شخص نے اپنے اسی علم کی تاثیر و تسخیر کے ذریعے سے ملکہ بلقیس کے اس تخت کو اس قدر جلد سلیمان ؑ کے پاس حاضر کردیا۔“ لیکن یہ بھی تکلف سے خالی نہیں ہے۔ قرآن مجید اور تفاسیر کے مطالعہ کے بعد دو باتیں زیادہ قریب معلوم ہوتی ہیں، ان میں سے کوئی بھی مراد ہوسکتی ہے۔ (واللہ اعلم) پہلی یہ کہ سلیمان ؑ نے اپنے جن سرداروں سے تخت لانے کی فرمائش کی وہ تین قسم کے لشکروں کے سردار تھے۔ جن، انس اور طیر یعنی پرندے، ان میں جبریل ؑ بطور سردار شامل نہیں تھے اور خضر ؑ کا اس وقت تک زندہ ہونا اور سلیمان ؑ کے سرداروں میں شامل ہونا، پھر اتنی طاقت کا مالک ہونا بالکل ہی بےسروپا بات ہے۔ غالب احتمال یہ ہے کہ یہ تخت لانے والا کوئی صالح جن تھا جو ان جنوں میں سے تھا جو اللہ تعالیٰ نے سلیمان ؑ کے تابع کر رکھے تھے۔ جنوں کی سرعت انتقال مسلم ہے، یعنی وہ نہایت تیزی کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوسکتے ہیں، جیسا کہ وہ آسمان دنیا کے نیچے فرشتوں کی باتیں سننے کے لیے پہنچ جاتے ہیں، اتنی تیزی سے نہ انسان منتقل ہوسکتا ہے نہ پرندے۔ آج کل تیز رفتار سے تیز رفتار طیارے بھی اتنی تیزی سے کار روائی نہیں کرسکتے جتنی تیزی کا دعویٰ عفریت نے کیا تھا۔ الفاظ قرآن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عفریت (خبیث سرکش) جن نے گھنٹے دو گھنٹے یا اس سے کم و بیش وقت میں وہ تخت محافظوں اور کمروں سے نکال کر لانے کا اور اتنی طاقت رکھنے کا دعویٰ کیا تو وہ شخص جو کتاب کا ایک علم رکھتا تھا، اسے چشم زدن میں لے آیا۔ ”الَّذِيْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ“ میں ”الَّذِيْ“ سے مراد انسان بھی ہوسکتا ہے اور جن بھی۔ یہ لفظ صرف انسان کے ساتھ خاص نہیں کہ کہا جائے کہ وہ انسان ہی تھا۔ اس لیے یا تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ عفریت کی سرعت مجلس سے اٹھنے تک کی تھی، مگر کتاب کا ایک علم رکھنے والے صالح جن کی سرعت آنکھ جھپکنے سے بھی تیز تھی۔ ایک دوسرا احتمال ہمارے استاذ حافظ محمد گوندلوی ؓ بیان فرماتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس علم کی کیفیت بیان نہیں فرمائی، کیونکہ نزول قرآن کے وقت بیان کی جاتی تو وہ کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتی تھی۔ مثلاً آج سے دو سو سال پہلے اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا کہ ہزاروں میل کے فاصلے سے تصویر ایک جگہ سے دوسری جگہ آنکھ جھپکنے میں پہنچ سکتی ہے تو کوئی شخص اسے تسلیم نہ کرتا، مگر آج یہ بات حقیقت بن کر سب کے سامنے آچکی ہے۔ اس طرح سلیمان ؑ کے اس سردار کے پاس وہ علم بھی تھا جس سے کوئی مادی وجود بھی آنکھ جھپکنے میں ہزاروں میل کے فاصلے سے منتقل ہوسکتا ہے۔ آج کل سائنس دان اس کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں، مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ نعمت سلیمان ؑ کے ساتھ ہی خاص تھی، کیونکہ انھوں نے دعا کی تھی : (رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ) [ صٓ : 35 ] ”اے میرے رب ! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی بادشاہی عطا فرماجو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو۔“ رہی یہ بات کہ یہ علم رکھنے والا جنّ تھا یا انسان، تو یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر وہ انسان تھا تو کچھ بعید نہیں کہ وہی ہو جس کا نام ہمارے مفسرین نے اہل کتاب سے آصف نقل کیا ہے۔ بہرحال نام معلوم ہونا نہ ضروری ہے نہ اس کا کوئی خاص فائدہ ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ نام ضرور بتادیتا۔ سلیمان ؑ کی سلطنت کی عظمت ہر حال میں مسلّم ہے، جو ان کے بعد نہ کسی کو عطا ہوئی ہے نہ ہوگی۔ اگر یہ قوت طبعی علم کے تحت ہو پھر بھی سلیمان ؑ کا معجزہ ہی ہے کہ ان کے زیر فرمان اس قسم کے اصحاب کمال تھے جو بعد میں کسی کو میسر نہیں ہوئے۔ رہی یہ بات کہ یہ طبعی علم، ”عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ“ کیسے ہوگیا، تو جواب اس کا یہ ہے کہ آسمانی کتابوں میں طبعی علوم کی طرف بہت توجہ دلائی گئی ہے، چناچہ فرمایا : (اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ) [ البقرۃ : 164 ] ”بیشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں وہ چیزیں لے کر چلتی ہیں جو لوگوں کو نفع دیتی ہیں۔“ اور دیکھیے سورة آل عمران اور دوسری بہت سی آیات۔ 3 ہمارے زمانے کے کچھ اولیاء پرست حضرات کہتے ہیں کہ جب سلیمان ؑ کے ایک امتی ولی میں اتنی طاقت تھی تو امت محمد ﷺ کے اولیاء کی طاقت تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے، اس لیے آنکھ جھپکنے میں کسی کو کہیں سے کہیں پہنچا دینا اولیائے کرام کی قوت کا ادنیٰ کرشمہ ہے۔ مگر ان حضرات کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ اگر ایسے اولیاء موجود ہیں تو وہ سلیمان ؑ کے امتی ولی کی طرح امریکہ، برطانیہ، اسرائیل یا بھارت کے کفار کو چیلنج کیوں نہیں دیتے اور ان کے ایٹم بم اٹھا کر کیوں نہیں لے آتے، کفار کی غلامی پر قناعت کیوں کیے بیٹھے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے نبی ﷺ تمام انبیاء سے افضل اور ہماری امت تمام امتوں سے افضل ہے، مگر دنیا کی نعمتوں میں سے کوئی نعمت، مثلاً جنوں اور پرندوں کی فوج یا دنیا کے علوم میں سے کوئی علم کسی اور پیغمبر یا اس کی امت کو عطا ہوجائے جو امت مسلمہ کے پاس نہ ہو تو اس سے امت مسلمہ کی افضلیت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ دوسرے پیغمبروں اور ان کی امتوں کی فضیلت جزوی ہے، ہمارے نبی اور آپ کی امت کی فضیلت کلی ہے۔ ہمارے نبی اور آپ کے صحابہ نے بھی جہاد کے ذریعے سے دنیا فتح کی اور اسلام کا بول بالا کیا، حالانکہ ان کے پاس وہ وسائل نہ تھے جو سلیمان ؑ کے پاس تھے۔ اتنے کم وسائل رکھتے ہوئے حیرت انگیز شجاعت اور بےمثال قربانی کے ساتھ سلیمان ؑ سے زیادہ علاقوں کو اسلام کے زیر نگیں لانا سید الانبیاء اور آپ کی امت کے افضل ہونے کی دلیل ہے۔ فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ : بقاعی نے فرمایا : ”بظاہر اتنے الفاظ ہی کافی تھے کہ ”فَلَمَّا رَآہُ عِنْدَہُ“ کیونکہ ”عِنْدَہُ“ کا لفظ ”مُسْتَقِرٌّ“ محذوف ہی کے متعلق ہوتا ہے۔ یہاں اس لفظ کو ظاہر کرنے اور صرف ”عِنْدَہٗ“ کے بجائے ”مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ“ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے حقیقت میں اپنے پاس پڑا ہوا پایا، جو نہ جادو کا اثر تھا، نہ خواب اور نہ ہی کوئی مثالی صورت۔“ قَالَ ھٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْ۔۔ : جب سلیمان ؑ نے وہ تخت فی الواقع آنکھوں کے سامنے پڑا ہوا دیکھا تو بجائے پھولنے یا فخر و غرور کے اپنے رب کے فضل کا اعتراف کیا کہ اس میں میرا کوئی کمال نہیں کہ مجھے ایسے علم والے ساتھی میسر ہیں، بلکہ یہ صرف اور صرف میرے رب کا فضل ہے جس کا مقصد میری آزمائش ہے کہ میں اس کا شکر کرتا ہوں یا کفر کرتا ہوں۔ کفر کا لفظ شکر کے مقابلے میں بھی آتا ہے اور ایمان کے مقابلے میں بھی۔ کیونکہ جو شخص اللہ کی نعمت کی قدر کرتا ہے اور اس کا شکر ادا کرتا ہے، وہ اس پر ایمان بھی لے آتا ہے اور جو اس کی نعمت کی بےقدری اور ناشکری کرتا ہے وہ اس پر ایمان لانے سے بھی محروم رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نعمت چھین کر بھی آزمائش ہوتی ہے اور نعمت دے کر بھی۔ مومن مصیبت پر صبر کرتا ہے اور آزمائش میں کامیاب ہوجاتا ہے، پھر نعمت پر شکر کرتا ہے تب بھی کامیاب ہوتا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ صبر وہی کرتا ہے جو شاکر ہو اور شکر وہی کرتا ہے جو صابر ہو۔ اس واقعہ میں سلیمان ؑ کی بہت بڑی فضیلت ہے کہ اتنی عظیم سلطنت اور حیرت انگیز قوتوں والے لشکر رکھنے کے باوجود نہ ان کے دل میں فخر کا کوئی خیال آیا، نہ ہی زبان پر کوئی ایسا لفظ آیا، بلکہ انھوں نے ہر نعمت کو اللہ کا فضل ہی قرار دیا۔ وَمَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ۔۔ : یعنی جو شکر کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کوئی فائدہ نہیں کرتا، اس کا فائدہ خود اسی کو ہے، کیونکہ اس سے اسے مزید نعمتیں حاصل ہوں گی، جیسا کہ فرمایا : (لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ) [ إبراھیم : 7 ] ”کہ بیشک اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور ہی تمہیں زیادہ دوں گا۔“ اور جو اللہ کی نعمتوں کی بےقدری اور ان کا انکار کرتا ہے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑتا۔ اسے نہ بندوں کی کوئی ضرورت یا پروا ہے، نہ ان کی عبادت کی، کیونکہ وہ غنی ہے اور اتنے بیحد کرم والا ہے کہ بندوں کے کفر اور ناشکری کے باوجود نعمتیں دیتا ہی چلا جاتا ہے اور فوری گرفت کے بجائے اس نے مہلت دے رکھی ہے، تاکہ بندے اس کی طرف پلٹ آئیں۔ اس مفہوم کی اور بھی آیات ہیں، جیسے فرمایا : (مَنْ عَمِلَ صَالِحًــا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَيْهَا) [ حٰآ السجدۃ : 46 ] ”جس نے نیک عمل کیا سو اپنے لیے اور جس نے برائی کی سو اسی پر ہوگی۔“ اور فرمایا : (وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنْ تَكْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ حَمِيْدٌ) [إبراھیم : 8 ] ”اور موسیٰ نے کہا اگر تم اور وہ لوگ جو زمین میں ہیں، سب کے سب کفر کرو تو بیشک اللہ یقیناً بڑا بےپروا، بیحد تعریف والا ہے۔“ ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے روایت کی کہ اس نے فرمایا : (یَا عِبَادِيْ ! لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَ آخِرَکُمْ ، وَ إِنْسَکُمْ وَ جِنَّکُمْ ، کَانُوْا عَلٰی أَتْقٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ ، مَا زَادَ ذٰلِکَ فِيْ مُلْکِيْ شَیْءًا، یَا عِبَادِيْ ! لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَ آخِرَکُمْ ، وَ إِنْسَکُمْ وَ جِنَّکُمْ ، کَانُوْا عَلٰی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِّنْکُمْ ، مَا نَقَصَ ذٰلِکَ مِنْ مُلْکِيْ شَیْءًا، یَا عِبَادِيْ ! لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَ آخِرَکُمْ ، وَ إِنْسَکُمْ وَ جِنَّکُمْ ، قَامُوْا فِيْ صَعِیْدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُوْنِيْ ، فَأَعْطَیْتُ کُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَہُ ، مَا نَقَصَ ذٰلِکَ مِمَّا عِنْدِيْ إِلَّا کَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ ، یَا عِبَادِيْ ! إِنَّمَا ھِيَ أَعْمَالُکُمْ أُحْصِیْھَا لَکُمْ ، ثُمَّ أُوَفِّیْکُمْ إِیَّاھَا، فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا فَلْیَحْمَدِ اللّٰہَ ، وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذٰلِکَ فَلَا یَلُوْمَنَّ إِلَّا نَفْسَہُ) [ مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم الظلم : 2577 ] ”اے میرے بندو ! اگر تمہارے اول اور تمہارے آخر اور تمہارے انس اور تمہارے جن تم میں سے کسی سب سے زیادہ متقی شخص کے دل پر ہوجائیں (یعنی اس جیسے ہوجائیں) ، تو یہ چیز میرے ملک میں کچھ اضافہ نہیں کرے گی۔ اے میرے بندو ! اگر تمہارے اول اور تمہارے آخر اور تمہارے انس اور تمہارے جن تمہارے کسی سب سے فاجر شخص کے دل پر ہوجائیں (یعنی اس جیسے ہوجائیں) ، تو یہ چیز میرے ملک میں کچھ کمی نہیں کرے گی۔ اے میرے بندو ! اگر تمہارے اول اور تمہارے آخر اور تمہارے انس اور تمہارے جن ایک میدان میں کھڑے ہوجائیں، پھر مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کو دے دوں جو اس نے مانگا، تو یہ میرے ملک میں سے اتنا ہی کم کرے گا جتنا ایک سوئی جب سمندر میں داخل کی جائے۔ اے میرے بندو ! یہ تو تمہارے ہی اعمال ہیں جو میں تمہارے لیے محفوظ رکھتا ہوں، تو جو خیر پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جو اس کے سوا پائے وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔“
Top