Al-Quran-al-Kareem - Al-Qasas : 26
قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا یٰۤاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ١٘ اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ
قَالَتْ : بولی وہ اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک يٰٓاَبَتِ : اے میرے باپ اسْتَاْجِرْهُ : اسے ملازم رکھ لو اِنَّ : بیشک خَيْرَ : بہتر مَنِ : جو۔ جسے اسْتَاْجَرْتَ : تم ملازم رکھو الْقَوِيُّ : طاقتور الْاَمِيْنُ : امانت دار
دونوں میں سے ایک نے کہا اے میرے باپ ! اسے اجرت پر رکھ لے، کیونکہ سب سے بہتر شخص جسے تو اجرت پر رکھے طاقتور، امانت دار ہی ہے۔
قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا يٰٓاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ : ان دونوں میں سے ایک نے کہا، ابا جان ! آپ اسے مزدور رکھ لیں، تاکہ ہم عورتوں کو بکریاں چرانے کی مشقت سے رہائی مل جائے۔ ضروری نہیں کہ اس نے یہ بات موسیٰ ؑ کی اس کے باپ سے پہلی ملاقات کے وقت ہی کہہ دی ہو۔ تین دن مہمان نوازی تو حق ہے، اس لیے غالب یہی ہے کہ اس دوران ان لڑکیوں اور ان کے والد نے موسیٰ ؑ کے اوصاف حمیدہ کا اچھی طرح سے مشاہدہ کرلیا تو لڑکی نے اپنے باپ سے یہ بات کہی۔ اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْـتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ : تفسیر ابن کثیر میں ہے : ”عمر، ابن عباس، شریح قاضی، ابو مالک، قتادہ، محمد بن اسحاق اور کئی ایک نے فرمایا کہ اس کے والد نے پوچھا، تمہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی ؟ اس نے کہا، اس نے وہ پتھر اٹھا لیا جو دس آدمیوں سے کم اٹھا نہیں سکتے اور جب میں اس کے ساتھ آئی تو اس کے آگے چل رہی تھی، اس نے مجھ سے کہا، میرے پیچھے چلی آؤ اور جہاں راستہ بدلنا ہو مجھے کنکری کے ساتھ اشارہ کر دو ، میں سمجھ جاؤں گا کس طرف جانا ہے۔“ تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے فرمایا، عمر اور ابن عباس ؓ کا قول ابن ابی حاتم نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ [ ابن أبي حاتم : 16843 ] دوسرے ائمہ کے اقوال بھی طبری (27609) یا ابن ابی حاتم نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیے ہیں، مگر یہ رسول اللہ ﷺ سے مروی نہیں، اس لیے اس کا ماخذ اسرائیلی روایات ہی ہے۔ 3 سب سے بہتر شخص جسے تم اجرت پر رکھو وہ ہے جو قوت والا اور امانت دار ہو۔ یہ ہے وہ قاعدہ جو کسی شخص کو ذمہ داری دیتے وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک وقت میں یہ دونوں صفات بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔ کوئی شخص اگر کام کی اہلیت اور قوت رکھتا ہے تو امانت میں کمزور ہے اور اگر امین ہے تو قوت و اہلیت نہیں رکھتا۔ آج کل حکومتیں کسی عہدے پر مقرر کرنے سے پہلے امتحانات اور انٹرویو کے ذریعے سے اہلیت کا اندازہ تو کرتی ہیں مگر امانت کا نہیں، نتیجہ بےحساب بددیانتی اور خیانت ہے، جس نے مسلمان ملکوں کی معیشت اور معاشرت دونوں کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ 3 اس بات سے اس لڑکی کی کمال فراست اور آدمیوں کی پہچان کا اندازہ ہوتا ہے۔ ابن ابی حاتم نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا : ”لوگوں میں سب سے زیادہ فراست والے تین ہیں، ابوبکر ؓ کی فراست عمر ؓ کے بارے میں، عزیز مصر کی یوسف ؑ کے متعلق فراست، جب اس نے بیوی سے کہا : (اَکْرِمِیْ مَثْواہ) [ یوسف : 21 ] ”اس کی رہائش باعزت رکھ۔“ اور موسیٰ ؑ کے واقعہ والی خاتون کی فراست کہ جس نے کہا : (يٰٓاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ ۡ اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْـتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ) [ القصص : 26 ] ”اے میرے باپ ! اسے اجرت پر رکھ لے، کیونکہ سب سے بہتر شخص جسے تو اجرت پر رکھے طاقت ور، امانت دار ہی ہے۔“ [ ابن أبي حاتم : 16838 ]
Top